تیس جون 1977جب کراچی کو موسلادھار طوفانی بارش نے آگھیرا۔دوپہر میں ہونے والی اس برسات نے شہر کا نقشہ ہی بدل کر رکھ دیا۔ کئی علاقے زیر آب آگئے۔ جبکہ دفاتر میں ملازمین اور محنت مزدوری کے لیے نکلے افراد اس مسلسل موسلادھاربارش کی وجہ سے پھنس کر رہ گئے۔ جن کے اہل خانہ ان کی بخیرو عافیت واپسی کی دعائیں مانگتے رہے۔ جو جہاں تھا وہ وہیں محصور ہو کررہ گیا۔ جس نے آسمان سے تیز بوندوں کا مقابلہ کرنے کی ٹھانی وہ سرراہ مشکلات اور پریشانیوں میں گھرارہا۔ دھواں دھار بارش سے پورا شہر تالاب کا منظر پیش کررہا تھا۔ کچے مکانات کی چھتیں گریں۔طوفانی بارش سے نیشنل ریفائری کی دیوارٹوٹ گئی تووہاں موجودہزاروں نیلے پلاسٹک کے ڈرم کورنگی روڈ پردور دورتک پھیل گئے اورحدنظرتک پانی اورڈرم ہی نظرآرہے تھے۔
لانڈھی قائدآبادکوملیرسے ملانے والانوتعمیرشدہ پل کاایک حصہ پانی کاریلابہاکر لے گیا، اورکورنگی روڈ کابھی بڑا حصہ بہہ گیا۔اس طرح لانڈھی کورنگی کارابطہ دونوں جانب سے شہرسے کٹ گیا۔اسی بارش کے بعد کورنگی انڈسٹریل ایریاکومٹی کے بڑے ڈیم بناکرکورکیاگیا۔ سیلابی ریلے کا شکار بن کر کئی افراد زندگی کی بازی ہار گئے ۔لانڈھی کے شہریوں کاواحد رابطہ اس دورمیں چلنے والی لوکل ٹرین کے ذریعے قائم تھا۔جس کی پٹریاں تک بارش میں بہہ گئیں ۔
اس طوفانی بارش میں کئی افرادتو اپنوں سے ایسے بچھڑے کہ پھر نہ مل سکے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق اس بارش نے دو سو سے زائد افراد سے جینے کا حق چھین لیا،جبکہ متاثرین کی تعداد لاکھوں میں بیان کی گئی، جو کھلے آسمان تلے بے یارومددگار ہو کر رہ گئے۔بارش نے شہر کا نقشہ ہی بدل دیا۔ تباہی اور بربادی کے آثار ہر سو تھے۔تباہ حال شہر کی بحالی اور متاثرہ افراد کے اندر جینے کی امید پید ا کرنے کے لیے حکومتی سطح پر کئی اعلانات کیے گئے۔ یہ وہ دور تھا جب پاکستان ٹیلی ویژن پر اصلاحی، بامقصد اور شعور اجاگر کرنے والے موضوعات کو ڈرامے کا حصہ بنایا جاتااور اس خوف ناک بارش کے کچھ عرصے بعد ہدایتکار بختیار احمد نے متاثرہ افرادکی پریشانی اور دشواری کو چھوٹی اسکرین پر ڈرامائی صورت میں پیش کیا۔
ڈراما ”بارش“ کا اسکرپٹ کسی اورنے نہیں تاج حیدر نے لکھا تھا۔جو اُس زمانے میں اپنے تخلیقی خیالات کا اظہار ڈراموں کی شکل میں کرتے تھے۔ جبکہ ان کی لکھی ہوئی اس کہانی میں معاونت خود بختیار احمد نے کی،جبکہ ہدایتکاری میں ان کے معاون اقبال لطیف تھے۔ڈرامے کا پس منظر بارش تھا۔جبکہ داستان گھوم رہی تھی ایک بینک کے اندر کام کرنے والے ملازمین کے گرد، جو تیس جون کو سال بھر کی ‘کلوزنگ ’ میں مصروف ہوتے ہیں اور اسی دوران دھواں دھاربرسات کا آغاز ہوجاتا ہے۔ ڈراما ‘بارش ’ کے نمایاں کرداروں میں سبحانی بایونس’ لطیف کپاڈیہ’ محمد یوسف ’ قاضی واجد’ امتیاز احمد’ عفت رئیس اور لیاقت درانی شامل تھے۔ جو اُس زمانے میں ٹیلی ویژن کے بڑے ناموں میں شمار ہوتے تھے۔
اس بامقصد ڈرامے میں بڑی خوبصورتی اور مہارت سے دکھایا گیا کہ کس طرح شہر میں ہونے والی برسات کا سامنابینک کاعملہ کرتا ہے۔کن پریشانیوں سے دوچار رہتا ہے۔ ان کرداروں میں گل خان کے روپ میں سبحانی بایونس نے حقیقت سے قریب اداکاری کے جوہر دکھائے۔ یہ کردار تھا چپڑاسی کا اور جب شہر کی طوفانی بارش کی وجہ سے ایک ایک کرکے بینک عملہ چلا جاتاہے، تو گل خان کو بن ماں کے اپنے بچوں کی فکر ستانے لگتی ہے، جسے وہ کچے مکان میں پڑوسن کے سہارے چھوڑ کر ملازمت پر آتا ہے اور ایسے میں جب شہر بارش کی وجہ سے تباہ حالی کا شکار ہوتا ہے تو وہ بچوں کی خیریت جاننے کے لیے بے تاب ہوجاتا ہے۔ بے قراری بس اس بات کی ہوتی ہے کہ ہوا بن کر اُن تک پہنچ جائے۔ بے چینی اور اضطرابی کیفیت بڑھنے لگتی ہے۔ خاص کر ایسے میں جب وہ بینک میں گارڈ کے ساتھ تنہا ہوجاتا ہے اور یہ پریشانی اُس وقت عروج پر پہنچتی ہے جب منیجر، سیلابی صورتحال میں کھو جانے والے اپنے بیوی بچوں کی تلاش کے لیے قبل از وقت بینک سے نکل جاتا ہے۔
سبحانی بایونس کی اداکاری کا معیار پورے ڈرامے میں غیر معمولی رہا۔ جبکہ ‘ بارش’ میں بینک ملازمین کا وہ رویہ بھی نمایاں کیا گیا‘ جو مسلسل برسات اور گھر والوں کی فکر کی وجہ سے انہیں اپنے افسر کے سامنے جارحانہ اندازاختیارکرنے پرمجبورکر دیتا ہے۔ پی ٹی وی کے اس کلاسک ڈرامے کا اختتام اُس لمحے ہوتا ہے جب گل خان روتے بلکتے ہوئے بینک منیجر سے بذریعہ ٹیلی فون التجا کرتا ہے کہ اس کے بچے اکیلے ہیں اسے گھر جانے دیا جائے۔ اجازت ملتے ہی وہ کسی آندھی طوفان کی طرح خود بینک سے روانہ ہوجاتا ہے۔
ڈرامے میں جابجا بارش کے بیرونی مناظر، ناظرین کو بوریت کا احساس نہیں دلائیں گے۔ جبکہ پی ٹی وی اسٹوڈیو میں تیار ہونے والی اس تخلیق میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لیے مصنوعی بارش کا بھی استعمال کمال مہارت سے کیا گیا۔ درحقیقت اس ڈرامے کو دیکھنے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ ماضی میں پاکستانی ڈراموں میں حالات حاضرہ کو انتہائی خوبصورتی سے تصوراتی روپ دیا جاتا تھا۔پروڈیوسرز اور اسکرپٹ رائٹرز عوامی دکھ و درد کا احساس رکھتے تھے۔ ڈراموں کی کہانیاں جہاں ہیرو اور ہیروئنز کے رومان پرور جذبات کی عکاس ہوتیں وہیں ان ڈراموں میں عوامی پریشانیوں اور مشکلات کا پہلو بھی شامل ہوتا ’ جو دور حاضر کے ڈراموں میں اب نایاب ہوگیا ہے۔
ایسے میں جب کراچی میں ہونے والی حالیہ بارشوں سے جہاں شہر کے کئی علاقے زیرآب آئے وہیں پوش ایریاز میں بھی اربن فلڈنگ کی صورتحال دیکھنے کو ملی ۔ برساتی پانی نے گھروں کو ہی نہیں بلکہ ان علاقوں میں قائم پروڈکشن ہاؤسز کے سامان کو بھی نقصان پہنچایا ۔ مصوروں کے لاکھوں روپے کے شاہکار پل بھر میں پانی پانی ہوگئے ۔ جبکہ زیر زمین بنائے ہوئے پروڈکشن ہاؤسز اور اسٹوڈیوز بھی تباہ ہوگئے ۔ مکینوں نے ذمے داروں کے خلاف احتجاج بھی کیا ۔ جن میں بڑی تعداد فنکار برداری کی شامل تھی اس پس منظر میں کیا کوئی ہدایتکار ہوگا جو اپنے ڈراموں کی عشقیہ اور رومانی کہانیوں کو ایک طرف رکھ کر ماضی میں بننے والے پی ٹی وی کے ڈرامے ‘ بارش ‘ کی طرح اس موضوع کو اپنے ڈرامے کا حصہ بنائے ؟