Get Alerts

کلائمیٹ چینج کانفرنس؛ ہمیں فوسل ایندھن پر انحصار کم کرنا ہو گا

پاکستان کو موسمیاتی بحران کا سامنا ہے جس کی تباہ کاریاں شدید موسمی واقعات میں اضافے جیسے سیلابوں اور سموگ کی شکل میں ہم دیکھ رہے ہیں۔ انہوں نے فوسل ایندھن پر انحصار کو کم کرنے اور توانائی کے متبادل ذارئع جیسے شمسی، ہوا اور چھوٹے ہائیڈرو پروجیکٹس کی مدد سے مجموعی توانائی کی پیداوار اور کھپت میں حصہ بڑھانے کے عزم کا مطالبہ کیا۔

کلائمیٹ چینج کانفرنس؛ ہمیں فوسل ایندھن پر انحصار کم کرنا ہو گا

سینٹر فار پیس اینڈ ڈویلپمنٹ انیشیٹیو کی جانب سے اسلام آباد میں آل پارٹیز کانفرنس منقعد ہوئی۔ میریٹ ہوٹل میں جمعہ کے روز ہونے والی کانفرنس میں پاکستان کی مختلف سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں نے پاکستان کو درپیش ' کلائمیٹ چینج' کے مسئلے کے تناظر میں توانائی بحران کے حل پر سیر حاصل بحث ہوئی۔ سماجی ادارے سی پی ڈٰی آئی کے علاوہ دوسرے سماجی اداروں کے ممبران نے پاکستان میں فوسل فیول سے توانائی کے ذرائع تک 'جسٹ انرجی ٹرانزیشن' کی جانب فوری اور فیصلہ کُن اقدمات کے لئے اپنی گزارشات رکھیں۔ سی پی ڈی آئی کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر مختیار احمد علی نے کہا کہ توانائی کے لئے فوسل فیول پر ہمارا انحصار نہ صرف ہمارے بڑھتے ہوئے درآمدی بل اور اس کے نتیجے میں ادائیگیوں کے توازن کے بحران کی بڑی وجہ ہے بلکہ ماحولیاتی بحران اور موسمیاتی تبدیلی کا بھی ایک بہت بڑا سبب ہے۔ مختیار احمد نے کہا کہ پاکستان کو موسمیاتی بحران کا سامنا ہے جس کی تباہ کاریاں شدید موسمی واقعات میں اضافے جیسے سیلابوں اور سموگ کی شکل میں ہم دیکھ رہے ہیں۔ انہوں نے فوسل ایندھن پر انحصار کو کم کرنے اور توانائی کے متبادل ذارئع جیسے شمسی، ہوا اور چھوٹے ہائیڈرو پروجیکٹس کی مدد سے مجموعی توانائی کی پیداوار اور کھپت میں حصہ بڑھانے کے عزم کا مطالبہ کیا۔

یاد رہے فاسل ایندھن جیسے کوئلہ، تیل اور گیس عالمی موسیماتی تبدیلی میں سب سے زیادہ حصہ دار ہیں۔ پاکستان میں 63 فیصد توانائی تھرمل (فاسل فیول) سے پیدا کی جاتی ہے۔ نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کی 2021 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں بجلی کی مجموعی پیداوار 39772 میگاواٹ ہے جس میں سے 63 فیصد توانائی فوسل فیول سے، 25 فیصد ہائیڈرو ذرائع سے، صرف 4 سے 5 فیصد ہوا اور شمسی توانائی سے اور 5 سے 6 فیصد جوہری ذرائع سے پیدا کی جاتی ہے۔

کانفرنس میں مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما اور سینیٹر مصدق ملک نے کہا کہ ہم کلائمیٹ چینج کی دلدل میں پھنس چکے ہیں۔ ماضی میں توانائی بحران کو حل کرنے کے لئے ہماری کوششیں کچھ خاص نہیں رہی ہیں۔ مصدق ملک نے کہا کہ پاکستان دنیا کے نقشے پر کلائمیٹ چینج کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثرہ ملکوں کی فہرست میں آٹھویں نمبر پر ہے۔ بھلے ہی ہم کم گرین ہاؤس گیسز کا اخراج کرتے ہیں لیکن پاکستان کو درپیش مسائل کا حل کیا ہے؟ اگر اس مسئلے کو حل نہیں کیا گیا اور اسی طرح شدید موسمی واقعات میں اضافہ ہوتا رہا تو پاکستان کے عوام کہاں جائیں گے؟ کیا موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ غریب لوگ ہمیں ان محلات اور اے سی کے کمروں میں رہنے دیں گے؟

مصدق ملک نے کہا اب ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہم کس طرح توانائی کے بحران کو ختم کریں گے، ہمیں کون سی توانائی پر انحصار کرنا ہو گا۔ ایک پاکستانی کی مجموعی کمائی تقریباً 60 ہزار روپے ہے تو وہ کس طرح اس میں 20 سے 30 ہزار روپے کی مہنگی بجلی خرید سکتا ہے۔ ہمیں توانائی کے دیرپا ذرائع بڑھانے اورعوام کو سستی بجلی فراہم کرنے کے لئے سوچنا ہو گا۔

انہوں نے ملک میں توانائی کی غیر منصفانہ اور ناقص تقسیم کے حوالے سے کہا کہ صرف 4 کارخانوں کے سیٹھوں کو گیس فراہم کرنے اور لاکھوں لوگوں کو محروم رکھنے سے مسئلے کا حل نہیں نکلنے والا۔ پاکستان کی کل لگ بھگ ایکسپورٹ 25 ارب ڈالر ہے جبکہ صرف توانائی کی امپورٹ 20 ارب ڈالر سے زیادہ ہے تو ہمیں سوچنا ہو گا کہ یہ ملک ہم کس طرح چلائیں گے۔ ہمارے پاس کوئلے کے بیش بہا ذرائع ہیں لیکن دنیا کے ساتھ ہمارے عالمی معاہدوں کی بدولت ہم کوئلے سے بجلی نہیں بنا سکتے اور یہ ایک دیرپا حل بھی نہیں ہے۔

کانفرنس میں مصدق ملک کی تقریر کے بعد جماعت اسلامی کے سینیئر رہنما فرید پراچہ نے کہا کہ ملک میں سب سے زیادہ عرصے تک مسلم لیگ ن کی حکومت رہی ہے لیکن مصدق ملک نے یہ نہیں بتایا کہ انہوں نے اپنے دور حکومت میں کیوں اس مسئلے کو حل نہیں کیا۔ فرید پراچہ نے کہا کہ پاکستان کو عالمی معاہدوں کے بجائے مقامی وسائل کو دیکھنا ہو گا۔ ہمارے پاس پانی، ہوا اور ڈیموں سے بجلی حاصل ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی کے حالیہ منشور میں اس کا ذکر ہے، ہم عوام کو سستی بجلی دیں گے۔

کانفرنس میں پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں مزمل اسلم اور شایان بشیر نے کہا کہ توانائی کا مسئلہ بہت سنگین ہے لیکن پاکستان میں اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے سیاسی حکومتوں کو کام نہیں کرنے دیا جاتا۔ مزمل اسلم نے کہا کہ پاکستان میں توانائی کا بحران سابقہ حکومتوں کی اس حوالے سے ناقص پالیسیاں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومتوں نے توانائی پر سبسڈیز دے کر اس مسئلے کو سنگین بنا دیا۔

کانفرنس میں جمعیت عمائے اسلام (ف) کی رہنما شاہدہ اختر، پاکستان پیپلز پارٹی کی پلوشہ خان اور ایم کیو ایم کے محمد ریحان ہاشمی نے بھی خطاب کیا۔ شاہدہ اختر نے کہا کہ ہم ایک زرعی ملک ہیں لیکن بدقسمتی سے یہ صرف کتابوں میں ہے، ہم نے اس صنعت کو کبھی فروغ نہیں دیا۔ ہمارا ملک متبادل توانائی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن ہم نے اس طرف توجہ نہیں دی۔ انہوں نے کہا کہ یہ صرف سیاست دانوں کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ملک کے بیوروکریٹس کو بھی اس مسئلے کو سمجھنا اور اس کے حل کے لئے کوششیں کرنا ہو گی۔

پلوشہ خان نے کہا کلائمیٹ چینج کا مسئلہ سنگین مسئلہ ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے سیاست دان اس مسئلے کی گہرائی کو نہیں سمجھتے۔ سب سے پہلے سیاست دانوں، پالیسی میکرز کو کلائمیٹ چینج اور توانائی بحران کے مسئلے کو سمجھنے کے لئے رہنمائی ضروری ہے۔ اس کی شدت کو زیادہ تر پارلیمنٹیرین بھی نہیں سمجھتے۔

ایم کیو ایم کے رہنما ریحان ہاشمی نے کہا کہ آرٹیکل 157 کے پاور جنریشن کو نچلی سطح تک منتقل کرنے کی باتیں تو سیاسی پارٹیوں کے منشور کا حصہ ہیں لیکن لوکل گورنمنٹ کا حال آپ سب جانتے ہیں کہ کس طرح نچلی سطح کو اس ملک میں اختیار حاصل ہے۔

سسٹینیبل ڈویلپمنٹ انیشیٹیو (ایس ڈی پی آئی) کے ڈاکٹر خالد ولید نے کہا کہ متبادل توانائی اب ہماری ضرورت ہے، ہمارے موجودہ توانائی کے ذرائع فوسل فیول سے متبادل ذرائع تک لانا ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ ہم توانائی میں زیادہ سبسڈیز فوسل فیول کمپنیوں کو دیتے ہیں، اگر ہمیں رینویبل انرجی پروجیکٹس کو لانا ہے اور توانائی کی امپورٹ کو کم کرنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو یہ بات تسلیم کرنی چاہئیے کہ ہم نے توانائی اور کلائمیٹ چینج کے حوالے سے جو معاہدے سائن کئے ہیں ان اہداف کو مکمل کرنے کے لئے متبادل توانائی کی طرف جانا ناگزیر ہے۔

پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ فار ایکویٹبل ڈویلپمنٹ (پی ار آئی ڈی) کے سی ای او محمد بدر عالم نے کہا کہ پاکستان میں سیاسی جماعتوں اور ریاستی اداروں میں عدم توازن ایک بنیادی مسئلہ ہے جس کی بدولت توانائی کے بحران پر کام نہیں ہو رہا۔ انہوں نے کہا کہ ملٹری اور عوام کے درمیان اختلاف بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مقررین نے یہ کہا کہ ملک کی آبادی بڑھ رہی ہے لیکن بدقسمتی سے ملک کے اندر انرجی کی ڈیمانڈ نہیں بڑھ رہی ہے جو بہت بڑا خدشہ ہے جس کی وجہ مہنگی بجلی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب تک ہم نے متبادل توانائی کے بارے مؤثر اقدامات نہیں کیے۔ انہوں نے سیاسی رہنماؤں کو تجویز دی کہ معیشت، ماحولیاتی تبدیلی کے ساتھ چارٹر آف ڈیموکریسی کو یقینی بنانا ضروری ہے۔ چھوٹے صوبوں کے وسائل کے اختیارات کو تسلیم کرنا ہوگا۔

سی پی ڈی آئی کی جانب سے سیاسی جماعتوں کو 2030 تک توانائی کی مجموعی پیداوار میں قابل تجدید اور صاف توانائی میں 35 فیصد تک اضافہ کرنے کی تجویز دی گئی اور بجلی کی پیداوار، ترسیل اور تقسیم کو آرٹیکل 157 کے مطابق منتقل کرنے پر زور دیا۔

آصف مہمند کا تعلق پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا سے ہے۔ وہ ملٹی میڈیا جرنلسٹ ہیں اور کلائمیٹ چینج اور دیگر ماحولیاتی موضوعات سے متعلق لکھتے ہیں۔