گلوبل وارمنگ کی وجہ سے زمین کے درجہ حرارت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جس سے گلگت بلتستان میں گلیشیئرز کے پگھلاؤ کا عمل تیز ہوا ہے۔ ماہرین نے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ آنے والے سالوں میں گلگت بلتستان میں گلیشیئرز آؤٹ برسٹ کے امکانات زیادہ ہیں جس سے مزید سیلاب آنے کا خدشہ ہے۔
پچھلے سال گلگت بلتستان میں سیلاب سے ضلع غذر سب سے زیادہ متاثر ہوا تھا۔ ضلعی انتظامیہ غذر کے اعداد و شمار کے مطابق شیر قلعہ میں سیلاب نے 7 افراد کی جان لے لی تھی اور 28 مکانات تباہ ہوئے تھے۔ ببر گاؤں میں 32 مکانات مکمل طور پر تباہ ہوئے جبکہ 30 مکانات کو جزوی نقصان پہنچا۔ اسی گاؤں میں 10 افراد لقمہ اجل بن گئے جبکہ 3 افراد زخمی بھی ہوئے۔ اشکومن اور امت میں مجموعی طور پر 60 مکامات تباہ ہوئے۔ درمندھر گاؤں اور ڈاہیمال گوپس میں 20 مکانات سیلاب بہا لے گیا جبکہ یاسین تحصیل میں سیلاب سے 40 مکانات تباہ ہوئے تھے۔ سیلاب نے گلگت بلتستان کے تمام 10 اضلاع کو متاثر کیا تھا۔
نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی سنٹر سے حاصل شدہ اعدادوشمار کے مطابق پچھلے پانچ سالوں میں گلگت بلتستان کے درجہ حرارت میں 0.7 ڈگری سینٹی گریڈ اضافہ ہوا ہے جبکہ مجموعی طور پر ملک کا درجہ حرارت اوسطاً 3 ڈگری سینٹی گریڈ بڑھا ہے جبکہ سمندر کی سطح میں بھی 30 میٹر اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن کے اعلامیے کے مطابق 2027 تک دنیا کے مجموعی درجہ حرارت میں 1.5 ڈگری تک اضافے کا امکان ہے۔
گلگت بلتستان ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے آفیسر خواجہ جنید کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کے باعث گلگت بلتستان پچھلے سال سیلاب کی زد میں رہا، ایسے نالے بھی سیلاب کا شکار رہے جہاں سیلاب کے آثار تک نہیں تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس سیلاب سے صرف گلگت بلتستان سے 50 ہزار لوگ اپنے علاقوں سے ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے اور تقریباً 10 ارب روپے تک کا نقصان اٹھانا پڑا۔ اگر اس سلسلے میں اقدامات نہیں اٹھائے گئے تو مزید لوگ ہجرت کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ موسمیاتی تبدیلی کی وجوہات بیان کرتے ہوئے خواجہ جنید نے کہا کہ قدرتی طور پر کیمیکل ری ایکشن اور اوزون لیئر میں آنے والی تبدیلی بنیادی طور پر اس کی ایک وجہ ہے۔ گرین ہاؤس اثر، کلائمیٹ فورس، آتش فشاں کا پھٹنا اور زلزلے بھی شامل ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ انسانی سرگرمیوں میں جنگلاٹ کا کٹاؤ، کوئلے کی کان کنی، بڑے پیمانے پر ایندھن کا استعمال اور اس کے نتیجے میں فضائی آلودگی اور صنعتی عمل بھی موسمیاتی تبدیلی کی وجوہات میں شامل ہیں۔
ماہر ماحولیات حسام کے مطابق ماحولیاتی تبدیلی میں پاکستان خاص طور پر گلگت بلتستان ذمہ دار نہیں ہے لیکن ہم اس سے متاثر ضرور ہو رہے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کی سب سے زیادہ ذمہ داری ترقی یافتہ ممالک پر ہے کیونکہ سب سے پہلے ماحول کو آلودہ کرنے میں ان کا کردار رہا ہے۔ صنعتی ترقی نے ماحول پر نا ختم ہونے والا گہرا اثر ڈالا ہے جس کا خمیازہ آج انسانیت بھگت رہی ہے۔ ہم اپنے لائف سٹائل میں تبدیلی لا کر موسمیاتی تبدیلی کو کم کر سکتے ہیں۔
ڈپٹی ڈائریکٹر گلگت بلتستان ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی ظہیر الدین بابر نے بتایا کہ ماحولیاتی تبدیلی کو کم کرنے کے لئے جی بی ڈی ایم اے گلاف ٹو پروجیکٹ کے تعاون سے اقدامات کر رہی ہے جس کے لئے گلگت بلتستان کے تمام اضلاع میں ورکشاپس کروائی جا رہی ہیں اور آگاہی مہم جاری ہے۔ جی بی ڈی ایم اے ندی نالوں جہاں سے طغیانی کے امکانات زیادہ ہیں، ان کے اطراف میں حفاظتی بند لگا رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ خیبر پختوںخوا کے مقابلے میں گلگت بلتستان کے لوگوں میں آگاہی اور کمیونٹی سپورٹ زیادہ ہے۔
سرور حسین سکندر کا تعلق سکردو کے علاقے مہدی آباد سے ہے۔ وہ بین الاقوامی تعلقات میں ایم ایس سی کر چکے ہیں اور گزشتہ آٹھ سالوں سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ سرور مختلف سماجی مسائل سے متعلق تحقیقاتی رپورٹس تحریر کرتے رہتے ہیں۔