Get Alerts

کلائمیٹ چینج تلخ حقیقت؛ جولائی 2024 تاریخ کا گرم ترین مہینہ بن گیا

سب سے زیادہ کاربن خارج کرنے والے ممالک بھی عالمی معاہدوں کی پاسداری نہیں کرتے۔ پچھلے سال کوپ 28 دبئی میں منعقد ہوئی تھی، اس کو ماحولیاتی ایکٹیوسٹس نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ مڈل ایسٹ جو خود فوسل فیول کی بڑی انڈسٹری ہے، کیسے اس کے استعمال کی حوصلہ شکنی کر سکتا ہے؟

کلائمیٹ چینج تلخ حقیقت؛ جولائی 2024 تاریخ کا گرم ترین مہینہ بن گیا

جب ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن نے سال 2023 کو دنیا کا گرم ترین سال قرار دیا تھا تو اُس وقت سائنس دانوں اور ماحولیاتی ماہرین نے خبردار کیا تھا کہ یہ سلسلہ اب رکنے والا نہیں ہے، اور ایسا ہی ہوا۔ جولائی 2024 کے رواں ہفتے میں دو مرتبہ درجہ حرارت نے پچھلے تمام ریکارڈز توڑ دیے۔ یورپی یونین کے کوپرنیکس ارتھ آبزرویشن سروسز ادارے کی طرف سے جاری ڈیٹا کے مطابق ایک سال قبل 6 جولائی 2023 کو 8۔17 سینٹی گریڈ سب سے زیادہ درجہ حرارت تھا جو رواں سال 21 جولائی کو 9۔17 اور پھر 22 جولائی کو 16۔17 تک پہنچ گیا۔ یہ درجہ حرارت اب تک کے تمام ریکارڈز توڑ گیا ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے جمعرات کو انتہائی درجہ حرارت کے بحران پر دنیا کے رہنماؤں سے کارروائی کی اپیل کی ہے۔ گوتریس نے کہا کہ درجہ حرارت کا بڑھنا سماج، اقتصاد اور ماحول کے لئے بہت بڑا خطرہ ہے۔ زمین ہر گزرتے دن کے ساتھ زیادہ گرم اور زیادہ خطرناک ہوتی جا رہی ہے۔ اس بحران کو حل کرنے کے لیے بین الاقوامی تعاون کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اقدامات میں انتہائی درجہ حرارت کے الرٹ سسٹم، متاثرین کی حفاظت اور متبادل توانائی میں سرمایہ کاری شامل ہیں۔

گوتریس نے کہا کہ عالمی اوسط درجہ حرارت آنے والے ہفتوں اور مہینوں میں کچھ کم ہو سکتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کی حقیقت کا مطلب ہے کہ جب تک دنیا بڑی مقدار میں فوسل ایندھن جلاتی رہے گی زمین مزید گرم ہوتی رہے گی۔ سیکرٹری جنرل نے خبردار کیا کہ تیزی سے بڑھتا درجہ حرارت ہر سال تقریباً نصف ملین لوگوں کی جان لے رہا ہے۔ عالمی درجہ حرارت کو بڑھانے کا ذمہ دار فوسل ایندھن کا استعمال ہے۔

گرین ہاؤس گیسز کا ذمہ دار کون؟

گرین ہاؤس گیسوں میں کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین، نائٹرس آکسائیڈ، کلوروفلوروکاربنز اور پانی کے بخارات شامل ہیں۔

گرین ہاؤس گیسز کا اخراج ایک قدرتی عمل ہے۔ سائنس دانوں کے مطابق اگر یہ عمل نہ ہوتا تو زمین 30 ڈگری تک زیادہ ٹھنڈی ہوتی اور یہاں زندگی کے آثار نہ پیدا ہوتے۔ تاہم صنعتی انقلاب سے لے کر اب تک انسانی سرگرمیوں نے گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں اتنا اضافہ کر دیا جتنا پچھلے 8 لاکھ سالوں میں نہیں ہوا تھا۔ 21ویں صدی کے آغاز سے لے کر 2019 تک عالمی گرین ہاؤس گیسوں میں اضافہ بنیادی طور پر چین، امریکا، انڈیا اور دیگر ابھرتی ہوئی معیشت والے ممالک نے کیا ہے۔

یورپ کے آزاد ادارے (ایمشن ڈیٹابیس فار گلوبل آیٹماسپریک ریسرچ) کے مطابق کووڈ 19 وبا کی وجہ سے 2020 میں عالمی اخراج میں 2019 کے مقابلے میں 7۔3 فیصد کمی آئی تھی جو 2021 میں پھر بڑھ گئی۔ ادارے کے مطابق چین، امریکا، انڈیا، برازیل، یورپی یونین اور روس دنیا کے 6 سب سے بڑے گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کنندگان ہیں۔ یہ 6 ممالک مل کر دنیا کی آبادی کا 1۔50 فیصد، عالمی مجموعی پیداوار کا 4۔63 فیصد اور عالمی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کا 6۔61 فیصد حصہ بناتے ہیں۔

تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں اضافے کا سب سے زیادہ ذمہ دار بجلی، حرارت اور کارخانوں کے لئے کوئلہ اور تیل جلانے یعنی فوسل فیول کا استعمال ہے۔ اقوام متحدہ کی جانب سے درجہ حرارت اور ماحول پر نظر رکھنے والے ادارے انٹر گورنمنٹل پینل آن کلائمیٹ چینج (آئی پی سی سی) کی جانب سے بار بار دنیا کے رہنماؤں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ گرم ہوتی آب و ہوا، زمین پر شدید گرمی اور خراب ہوا کے معیار سے بیماریوں اور اموات کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔ ادارے نے پالیسی میکرز کو خبردار کیا ہے کہ کلائمیٹ چینج کی وجہ سے شدید موسمی واقعات جیسے سیلاب، خشک سالی، طوفانی بارشوں اور ہیٹ ویوز میں اضافہ ہو گا۔

کلائمیٹ چینج عالمی معاہدوں کی پاسداری

عالمی درجہ حرارت کو کم کرنے کے لئے ایک بڑا عالمی معاہدہ پیرس ایگریمنٹ 2015 ہے، جس کے تحت عالمی درجہ حرارت کو 5۔1 ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز نہیں کرنے دیا جائے گا تاہم مختلف ماحولیاتی ریسرچز سمیت اقوام متحدہ کے ماحول کے لئے مختص ادارے انٹر گورنمنٹل پینل آن کلائمیٹ چینج کی رپورٹ کے مطابق کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں کمی نہیں آئی اور ممالک اس معاہدے کی مخالف سمت میں جا رہے ہیں۔

کلائمیٹ چینج کے موضوع پر اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ہر سال ایک سربراہی کانفرنس منعقد کی جاتی ہے جس کو کانفرنس آف دی پارٹیز یا سی او پی کوپ کہا جاتا ہے۔ سی او پی کا مقصد رکن ممالک کی حکومتوں کے درمیان ان اقدامات پر اتفاق رائے پیدا کرنا ہوتا ہے جس سے بڑھتی ہوئی عالمی حدت پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ اس سال سی او پی باکو آذربائیجان میں منقعد ہونے جا رہی ہے جس میں عالمی درجہ حرارت کو کم کرنے سمیت دوسرے ماحولیاتی معاہدوں پر بحث کی جائے گی اور مختلف اقدامات تجویز کیے جائیں گے۔

ماحولیاتی کارکن ان عالمی معاہدوں کو خالی وعدوں سے تشبیہ دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عالمی کانفرنس میں بنیادی باتوں کو نظرانداز کیا جاتا ہے اور وہ ممالک جو زیادہ کاربن خارج کرتے ہیں وہ ان معاہدوں کی پاسداری نہیں کرتے۔ پچھلے سال کوپ 28 دبئی میں منعقد ہوئی تھی، اس کو ماحولیاتی ایکٹیوسٹس نے تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ مڈل ایسٹ جو خود فاسل فیول کی بڑی انڈسٹری ہے، کیسے عالمی درجہ حرارت کو کم کرنے کے اقدامات اٹھا سکتا ہے؟

پاکستان کلائمیٹ چینج کی زد میں

پاکستان جو دنیا کے کلائمیٹ چینج سے متاثرہ 10 ممالک کی فہرست میں شامل ہے، بڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے پاکستان میں ناصرف انسانی جانوں کو مزید خطرہ لاحق ہے بلکہ معیشت بھی متاثر ہو رہی ہے۔ کلائمیٹ چینج کی وجہ سے شدید موسمی واقعات جیسے سیلاب، طوفانی بارشوں اور ہیٹ ویوز میں اضافے نے پاکستان کے لیے فوڈ سکیورٹی کا خطرہ مزید بڑھا دیا ہے اور ان موسمیاتی تبدیلیوں سے متعدد لوگ ہلاک بھی ہوئے ہیں۔

عالمی خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق صوبہ سندھ میں جون کے مہینے میں درجہ حرارت 52 سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا تھا۔ جون میں کراچی میں ہیٹ ویوز کے سبب کئی لوگ ہلاک ہوئے تھے۔ 2023 جو گرم ترین سال مانا جاتا تھا، اس نے خیبر پختونخوا میں مردان اور چارسدہ کے علاقوں میں ٹماٹر اور خربوزوں کی فصل کو بری طرح متاثر کیا تھا۔ ان فصلوں کی پیداوار میں 10 فیصد کمی دیکھنے میں آئی تھی۔

فرائیڈے ٹائمز کی رپورٹ کے لئے صوبے کے محکمہ زراعت سے حاصل کی گئی معلومات کے مطابق رواں سال مارچ اور اپریل میں طوفانی بارشوں نے صوبے میں 44000 ایکڑ پر کھڑی فصلوں کو تباہ کیا تھا جس میں 35000 ایکڑ پر گندم کی تیار فصل شامل تھی۔ طوفانی بارشوں میں 73 لوگ بھی ہلاک ہوئے تھے۔

پاکستان کے کئی شہر جن میں لاہور، کراچی، فیصل آباد اور پشاور شامل ہیں، ان میں ہر سال سردیوں میں سموگ کی وجہ سے بیماریاں بڑھ جاتی ہیں اور کئی جانیں بھی ضائع ہو جاتی ہیں۔ ماحولیاتی ماہرین کے مطابق کلائمیٹ چینج سے پاکستان سمیت وہ ممالک جہاں ناانصافی عروج پر ہے، وہاں زیادہ لوگ متاثر ہوں گے۔ پاکستان میں کلائمیٹ چینج کے حوالے سے پالسیاں موجود تو ہیں لیکن وہ پالیساں صرف کاغذوں تک محدود ہیں جبکہ کلائمیٹ چینج سے دوچار پاکستان کو اس مسئلے سے نمٹنے کے لئے عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔

آصف مہمند کا تعلق پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا سے ہے۔ وہ ملٹی میڈیا جرنلسٹ ہیں اور کلائمیٹ چینج اور دیگر ماحولیاتی موضوعات سے متعلق لکھتے ہیں۔