بڑھتا ہوا عالمی درجہ حرارت اور ماحولیاتی تبدیلی قیامت سے پہلے ایک قیامت ہے

بڑھتا ہوا عالمی درجہ حرارت اور ماحولیاتی تبدیلی قیامت سے پہلے ایک قیامت ہے
انسان ترقی کے زینے طے کرتا ہوا ٹیکنالوجی کی دنیا کو فتح کرتا جا رہا ہے ہمارے گھر گرمی اور سردی کی شدت کو بھول کر ایک ہی درجہ حرارت پر چل رہے ہیں ۔جب سے ہم قدرت کے نظام میں مداخلت کر کے اور  قدرتی ماحول سے نکل کر سیمنٹ اور اینٹوں کے جنگلات اگاتے جا رہے ہیں ۔ ہم اس دنیا کو موت کی وادی میں تبدیل کرتے جا رہے ہیں جبکہ اس خوبصورت اور حسین مناظر سے بھرپور دنیا کو موت کی وادی میں تبدیل کرنے والے ہم خود ہیں۔

موت کی وادی(ڈیڈ ویلی )امیریکا کی ریاست کیلیفورنیا میں واقع ایک صحرائی وادی ہے جو دنیا کی گرم ترین علاقوں میں شامل ہے ۔ 10 جون 1913 میں اس کا سب سے زیادہ درجہ حرارت 57 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا تھا۔ حد درجہ گرم علاقہ ہونے کی وجہ سے اسے ڈیڈ ویلی کا نام دیا گیا ہے۔

سوانٹی آرہینیئس وہ پہلا سائنسدان تھا جس نے گلوبل وارمنگ کا سب سے پہلے مشاہدہ کیا ۔ بیسوی صدی کے وسط میں زمین کے درجہ حرارت میں اضافہ تیزی سے بڑھنے لگا ۔ گلوبل وارمنگ کا 90فیصد سبب کاربن ڈائی آکسائیڈ اور میتھین ہے۔ عالمی ادارہ صحت نے گلوبل وارمنگ کو زندگی کیلئے ایک خطرہ قرار دیا ہے۔ موجودہ دور میں 1.2 ڈگری سینٹی گریڈ کی شرح سے گلوبل وارمنگ میں اضافہ ہورہا ہے۔ جو زمین پہ موجود زندگی کیلئے انتہائی نازک اور تشویشناک صورتحال ہے۔

عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق 1895 ء کے بعد سے 2012 سب سے گرم سال رہا۔ اسی طرح دوسری سطح پر 2003 ء کے ساتھ 2013ء کو 1880کے بعد سب سے گرم سال کے طور پر ریکارڈ کیا گیاہے۔

‎لوگ کوئلہ ،تیل یا قدرتی گیس جلاتے ہیں تو کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس (سی او ٹو) پیدا ہوتی ہے۔ یہ کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس جب پودوں اور سمندر میں جذب ہونے سے بچ جاتی ہے اور فضائی آلودگی کا باعث بنتی ہے۔ اس کرۂ ارض میں قدرتی وسائل کروڑوں برسوں سے مخفی حالت میں پڑے ہوئے تھے۔ پچھلی چند صدیوں یا دہائیوں میں ان وسائل کو نکالنے کے بعد کثرت سے اس کا استعمال کیا جاتا رہا ہے۔صنعتی انقلاب کے ساتھ ہی ان وسائل کا بے دریغ استعمال آلودگی کا باعث بن رہا ہے۔

گرین ہاؤس گیسز گلوبل وارمنگ کا اہم سبب ہیں ۔ ایک تحقیق کے مطابق گرین ہاؤس گیسز ہوا کے درجہ حرارت کو 33 % ہوا میں نمی کو 50% اور بادلوں کے درجہ حرارت میں 25% اضافےمعا کا سبب بن رہی ہیں ۔ عالمی جنگیں جو بڑے پیمانے پہ تباہی کا سبب بنتی ہیں اس سے بھی قدرتی نظام میں خلل واقع ہوتا ہے ۔اور یہ جنگیں گلوبل وارمنگ میں جوق در جوق اضافے کا ذریعہ اور سبب بن رہی ہیں ۔ دوسری جنگ عظیم جو ہیروشیما اور ناگاساکی کی تباہی پر ختم ہوئی اس میں امریکا نے جدید اور ایٹمی اسلحے کے استعمال سے فضا کو اس قدر آلودہ کیا جس کے اثرات آج بھی ہیرو شیما اور ناگاساکی کے انسانوں کی زندگی پر بری طرح اثر انداز ہو رہے ہیں۔

اسکے علاوہ انسانوں کی آرام دہ زندگی گزارنے کی کوششوں سے قدرتی ماحول بری طرح تباہ ہو رہا ہے ۔ ریفریجریٹرز اور اے اسی میں کولنگ کیلئے کلوروفلوروکاربن استعمال کیے جاتے ہیں جن کا فضا میں اخراج اوزون لیئر کو شدید تباہ کررہا ہے جس سے اوزون لیئر میں سوراخ بننا شروع ہوگئے ہیں ۔ ان سوراخوں سے سورج کی نقصان دہ شعاعیں زمیں میں داخل ہو کر زمیں کے درجہ حرارت میں اضافے کا سبب بنتی ہیں۔

‎آکیسیجن تمام جانداروں کیلئے نہایت اہم عنصر ہے۔ آکیسیجن کے تین ایٹمز کو ملا کر اوزون کو تخلیق کیا گیا ہے۔ اوزون ہماری فضا میں12 سے48 کلومیٹر تک پائی جاتی ہے اور یہ فلٹر کا کام کرتی ہے اور ہمارے سیارے کو سورج سے آنے والی مضر صحت شعاؤں سے نہ صرف محفوظ کرتی ہے بلکہ صرف ایسی شعاؤں کو زمین تک آنے دیتی ہے جو انسانی صحت اور تمام جانداروں کیلئے ناگزیر ہیں ۔ گرین ہاؤس گیسز جو نہ صرف گلوبل وارمنگ میں اضافے کا سبب ہیں بلکہ اوزون کی تہہ کو ختم کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں اوزون میں سوراخ بھی عالمی حرارت کا اہم سبب ہیں۔

درجہ حرارت بڑھنے سے زمین کے قدرتی نظام میں خلل پڑتا ہے۔ پہاڑوں پر سے برف تیزی سے پگھلنے لگتی ہے۔ موسم شديد ہو جاتے ہیں اور زندگی کے لیے مسائل پیدا ہونے لگتے ہیں۔ اگر زمین مسلسل گرم ہوتی رہی تو وہ مقام آ سکتا ہے کہ یہ زمین جانداروں کے رہنے کے قابل ہی نہ رہے۔ گلوبل وارمنگ سے کچھ ایسے ناقابل بیان نقصانات ہورہے ہیں جن کی تلافی بہ ظاہر ناممکن نظر آتی ہے۔ جیسے برف کے گلیشیر پگھل رہے ہیں۔ انٹارٹیکا کا سب سے بڑا آئس برگ ختم ہونے کے قریب ہے۔ 18برس سے بہتے بہتے جنوبی امریکہ کے پاس بہنے والا یہ سب سے بڑا حصہ ہے۔ ناسا کے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ تقریباً 20برس بہنے کے بعد انٹارکٹیکا کا سب سے بڑا حصہ ہمیشہ کے لیے غائب ہوجائے گا۔ موجودہ وقت میں برف کی مضبوط تہہ رفتہ رفتہ کئی چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم ہوتی جارہی ہے، جن میں سے کئی گلشیئرز پگھل کر ختم ہوچکے ہیں۔

اقوام متحدہ کے 'انٹرگورنمنٹل پینل آن کلائمیٹ چینج' یا آب ہوا میں تبدیلی سے متعلق بین الحکومتی پینل نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں کہا ہے کہ زمین کو تباہی سے بچانے کے لیے لوگوں کو اپنے رہن سہن میں بڑی تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے۔

جنوبی کوریا میں ماہرین اور سرکاری حکام کے ایک ہفتے طویل اجلاس کے بعد جاری کردہ رپورٹ کے مطابق یہ تبدیلیاں زندگی کے تقریباً ہر شعبے پر محیط ہونی چاہئیں۔ مثلاً قابلِ تجدید توانائی پر زیادہ سے زیادہ انحصار، ایسی عمارتوں کی تعمیر جن میں توانائی کی ضرورت کم ہو، سفر کے ایسے ذرائع میں اضافہ جو ماحول کی آلودگی کا باعث کم سے کم بنیں، وغیرہ۔ رپورٹ مرتب کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے اگر انسان زمین کی حدّت میں اضافے کو 2030 تک 1.5 ڈگری سیلسیئس تک محدود کرنے میں کامیاب ہو جائے تو خشک سالی، سیلابوں اور وسیع پیمانے پر جانوروں اور پودوں کی انواع کو صفحۂ ہستی سے مٹانے سے بچایا جا سکے گا۔

آب و ہوا میں تبدیلی کے لیے پاکستانی وزیراعظم عمران خان کے مشیر ملک امین اسلم کا کہنا ہے کہ مسئلہ ترقی یافتہ صنعتی ملکوں نے پیدا کیا ہے جسے بھگتنا پاکستان جیسے ملکوں کو پڑ رہا ہے۔انھوں نے کہا کہ پاکستان کا شمار ان دس ملکوں میں ہوتا ہے جو عالمی حدّت میں اضافے کے اثرات کی براہِ راست زد میں ہیں۔ایک طرف جہاں بنگلہ دیش اور پاکستان کم کاربن خارج کرنے والے ممالک میں شامل ہیں وہیں چین اور امریکہ دنیا میں سب سے زیادہ اور بھارت تیسرے نمبر پر سب سے زیادہ کاربن خارج کرنے والے ممالک ہیں۔ جبکہ امریکہ اور چین سب سے بڑ ے انسانیت کے دعویدار اور علمبردار ہیں مگر یہی ممالک انسانی جان کے لئے گہرے اور اندھے کنوئیں کھود رہے ہیں ۔

دونوں ممالک نے ہوائی اور شمسی توانائی کے شعبے میں متاثرکن کامیابیاں حاصل کی ہیں اور دونوں ان ٹیکنالوجیوں کی سب سے زیادہ پیداوار اور انہیں سب سے زیادہ استعمال کرنے والے ممالک بن چکے ہیں۔ تاہم چین اور بھارت دونوں کوئلے سے توانائی کی پیداوار کی عادت کو ابھی تک ترک نہیں کرپائے اور مسلسل گرین ہاؤس گیسز میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں جوکہ قدرتی ماحول کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے۔

چین زمینی اور سمندری راستے سے ملک کو ایشیاء، افریقہ اور یورپ کے مختلف حصوں سے جوڑنے کے لئے ایک انفراسٹرکچر اور سروس نیٹ ورک(سلک روڑ) قائم کر رہا ہے۔ چینی حکومت کے مطابق ، اس نئی "شاہراہ ریشم" کو کم از کم 65 ممالک کی شرکت پر اعتماد کرنا چاہئے ، جس میں دنیا کی تقریباً دو تہائی آبادی کو شامل کیا جانا چاہئے اور عالمی معیشت میں ایک تہائی کو ترقی دینا چاہئے۔ یہ "بیلٹ اینڈ روڈ" اقدام (بی آر آئی) عالمی تجارت کے مستقبل پر بہت اثر انداز کرنے اور پوری دنیا میں معاشی ترقی کو فروغ دینے کا وعدہ کرتا ہے۔ تاہم ، اس سے ماحولیاتی خرابی کو مستقل طور پر فروغ مل سکتا ہے۔ بی آر آئی کے نفاذ سے بڑے پیمانے پر ریل اور سڑک کے بنیادی ڈھانچے میں توسیع ، بحر الکاہل اور بحر ہند میں نئی بندرگاہوں کی تعمیر اور روس ، قازقستان اور میانمار کو تیل و گیس پائپ لائنوں کی تشکیل کا اشارہ ہے۔

اس معاہدے کا مقصد عالمی سطح پر گرین ہاؤس گیس کے اخراج کو کافی حد تک کم کرنا ہے تاکہ اس صدی میں عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو پہلے سے کم درجے کی سطح سے 2 ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود کیا جاسکے ، جبکہ اس اضافے کو 1.5 ڈگری تک محدود کرنے کے ذرائع پر عمل پیرا ہے۔چنانچہ جب چین طے شدہ وقت سے پہلے پیرس معاہدے کے تحت اپنے آب و ہوا کے اہداف کو پورا کرنے کے راستے پر ہے ، حکومت کی حمایت یافتہ متعدد مفادات ، این جی اوز اور دنیا بھر کے تعلیمی اداروں کے تجزیے سے دنیا بھر میں براہ راست اور بالواسطہ ماحولیاتی اثرات کی نشاندہی ہوتی ہے۔ BRI جیسے منصوبوں میں زمین کے استعمال سے لے کر جنگلی حیات تک جبکہ رہائش گاہ میں خلل، پانی کی پریشانیوں، معدنیات اور صنعتی اثرات کی آلودگی تک ہر چیز شامل ہے۔

لیکن اس سے زیادہ پریشان کن کوئی بات نہیں کہ چینی بی آر آئی کوئلہ کو ایندھن کے طور پر استعمال کو مستقل کرنے کے لئے کس طرح استعمال کررہا ہے۔ اور اس کا مطلب یہ ہے کہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں اضافہ ہوگا اور سمندری اور زمینی حیات بھی بڑے پیمانے پر موت کی میٹھی نیند سلا دی جائے گی۔

پاکستان کی بات کریں تو جرمن تھنک ٹینک، گرین واچ کی گلوبل کلائمیٹ انڈیکس 2020 کی سالانہ رپورٹ کے مطابق پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے ممالک میں پانچویں نمبرپر ہے۔ اسی رپورٹ کے اعداد و شمار کے مطابق 1999 سے 2018 کے درمیان موسمی تغیرات کی وجہ سے پاکستان کو تقریبا 9، 989 انسانی جانوں کا ضیاع اور 3.8 بلین ڈالر کے اقتصادی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ تھنک ٹینک نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پیش آنے والے خطرات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

اب وہ وقت ہے جب ہم جنگی سامان اور ہتھیاروں کے علاوہ اپنی آب و ہوا اور موسم کیلئے کچھ اقدامات کریں جو زمین پر صحت مند زندگی کی موجودگی کیلئے انتہائی ناگزیر ہیں ۔اب بین الاقوامی سطح پر موسمیاتی تبدیلیوں کو نہ صرف سنجیدہ لیا جا رہا ہے بلکہ کچھ موثر اقدامات بھیُ کیے جارہے ہیں جو درج ذیل ہیں ۔

موسمیاتی تبدیلی سے متعلق پیرس معاہدہ (دسمبر 2015) اب  پائیدار ترقی پر سالانہ اعلی سطح کا پولیٹیکل فورم ایس ڈی جی کی پیروی اور جائزہ لینے کے لئے مرکزی اقوام متحدہ کے مرکزی پلیٹ فارم کے طور پر کام کرتا ہے۔ 1.2 ارب سے زیادہ ملازمتیں مستحکم ماحول اور ماحولیاتی نظام پر منحصر ہیں۔ گرین انیشی ایٹو کا مقصد آئی ایل او کے علم ، پالیسی ردعمل اور اور پائیدار مستقبل کی طرف منصفانہ منتقلی کے انتظام کی صلاحیت کو بڑھانا ہے۔

اقوام متحدہ کے ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق فریم ورک کنونشن (یو این ایف سی سی سی) تین ریو کنونشنوں میں سے ایک ، یو این ایف سی سی سی کا حتمی مقصد ایک سطح پر ماحول میں گرین ہاؤس گیس کے استحکام کو حاصل کرنا ہے جو آب و ہوا کے نظام کے ساتھ خطرناک مداخلت کو روک سکے گا۔کیوٹو پروٹوکول ایک بین الاقوامی معاہدہ تھا جس نے ماحولیاتی تبدیلی کے بارے میں 1992 میں اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن میں توسیع کی جو ریاستی جماعتوں سے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کا عہد کرتا ہے ۔گرین ڈپلومیسی ایک ایسا ادارہ ہے جو زندگی کے قدرتی حالات کے تحفظ اور ترقی کے سلسلے میں سیارے پر موجود ہر انسان کے مفادات کے ساتھ ساتھ ریاست اور دوسرے کے مفادات کو ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

اس وقت جنگوں سے زیادہ انسان کو درجہ حرارت میں اضافے سے خطرہ ہے، کیونکہ ہر 6 اموات میں سے ایک موت ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے ہوتی ہے۔ دنیا میں سالانہ 90 لاکھ افراد کی اموات آلودگی کے سبب ہوتی ہیں جن میں دمہ، کینسر، جلدی امراض، ملیریا، نفسیاتی امراض (جن کا تعلق شور کی آلودگی سے ہے) اور جین کی صحت سے انسان کے مزاج کی تبدیلی وغیرہ شامل ہیں۔ سب سے بڑا نقصان جو آئے روز دیکھنے میں آتا ہے وہ بارشوں کا نہ ہونا یا بے موقع بارشوں کا برسنا ہے، جس سے نہ صرف انسانی ہلاکتوں میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ فصلوں کی تباہی اور اس کے نتیجے میں غذائی قلت کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ وطن عزیز پاکستان میں صرف 2011/12 کے سیلاب میں ایک لاکھ سے زائد افراد دربدر ہوئے، ہزاروں کی تعداد میں گھر تباہ ہوئے، 200 ارب روپے کی معیشت تباہ ہوئی۔

سندھ اور بلوچستان میں خشک سالی سے پچھلے برسوں سے نہ صرف فصلوں کی پیداوار پر برے اثرات مرتب ہوئے ہیں بلکہ مویشی اور انسان بھی ہلاک ہوئے ہیں۔

دس شہروں میں درجہ حرارت پچاس ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی زیادہ ریکارڈ کیا گیا۔ بارشوں کی کمی سے بارانی علاقوں میں کھیتی باڑی کا عمل رک گیا ہے۔ اگر کاشتکار کچھ کاشت کرتا بھی ہے تو بے وقت بارشوں کی وجہ سے فصل تیار نہیں ہو پاتی۔ نتیجتاً حاصل ہونے والی پیداوار مقامی آبادی کی ضرورت پوری نہیں کرتی جس سے ملکی معیشت پر بوجھ پڑتا ہے۔ اب دھواں اور اسموگ سے حد نگاہ صفر ہوجاتی ہے جو ذہنی دباؤ کا سبب بننے کے علاوہ وقت کے زیاں اور ملکی کاروبار پر منفی اثرات کا مؤجب بھی بنتی ہے۔ حادثات میں اضافے سے انسانی ہلاکتوں میں اضافہ اس مسئلے کا ایک الگ پہلو ہے۔ ندی نالے خشک، مرجھائے ہوئے درخت، بنجر زمینیں، راہ چلتے انسانوں پر جمی ہوئی گرد، آسماں پر آلودگی کی تپتی ہوئی چھتری دراصل قیامت سے پہلے قیامت ہے۔ نسلوں کیلئے ایک محفوظ ریاست کے ساتھ انہیں محفوظ قدرتی ماحول دینا بھی ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے۔

شجرکاری جسکا پاکستان میں اب خاصا رجحان بھی دیکھا جا رہا ہے اس سے ہمیں عالمی حرارت کو کم کرنے میں بہت مدد ملے گی۔ پودے اور درخت ہوا کو فلٹر کرنے کا کام کرتے ہیں اور ہوا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرتے ہیں جو گلوبل وامنگ کا بڑا سبب ہے۔اس سے گلوبل وامنگ میں خاطر خواہ کمی آئے گا ۔ ہمیں اپنے طرز زندگی کو بدلنا ہوگا ۔ قابل تجدید توانائی کے استعمال سے گلوبل وارمنگ کی روک تھام میں مدد ملے گی ۔ حرارتی بلب کو انرجی سیورز میں تبدیل کرنے سے بھی اسکے اثرات میں کمی آئے گی۔ سب سے اہم کا انسانوں کو شعور دینا ہے اس مقصد کیلئے درسگاہوں کو گاہے بگاہے مختلف سیمنارز میں اس موضوع کو زیر بحث لا کر آنے والی نسل کی ذہن سازی کرنی چاہیے اور انہیں ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق اگاہی فراہم کرنی چاہیے۔

مصنفہ سے ٹوئٹر پر AqsaYounasRana@ کے ذریعے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔