Get Alerts

ماحولیاتی بحران: خیبر پختونخوا میں درجہ حرارت 5 سے 7 ڈگری سینٹی گریڈ بڑھ گیا

ماحولیاتی بحران: خیبر پختونخوا میں درجہ حرارت 5 سے 7 ڈگری سینٹی گریڈ بڑھ گیا
خیبرپختونخوا میں اپریل کے آخری ہفتے میں درجہ حرارت معمول کے درجہ حرارت سے زیادہ ہے۔ خیبرپختونخوا محکمہ موسمیات کے مطابق درجہ حرارت 5 سے 7 ڈگری سینٹی گریڈ تک بڑھ سکتا ہے جس سے شدید موسمی اثرات میں اضافہ ہوگا۔

خیبرپختونخوا محکمہ موسمیات نے مارچ اور رواں مہینے اپریل میں درجہ حرارت معمول کے درجہ حرارت سے زیادہ ریکارڈ کیا ہے جس کی مثال پچھلے 15 سالوں میں نہیں ملتی۔

محکمہ موسمیات پشاور کے ڈپٹی ڈائریکر محمد فہیم نے کہا ہے کہ یہ کلائیمنٹ چینج کے ہی اثرات ہیں۔ 2020ء اور 21 میں اگر صوبے کے درجہ حرارت کو دیکھا جائے تو یہ معمول کے درجہ حرارت سے زیادہ ہے۔ اپریل کے آخری ہفتے سے پیر 2 مئی تک درجہ حرارت 5 سے 7 ڈگری سینٹی گریڈ بڑھ سکتا ہے۔



انہوں نے کہا کہ پچھلے چند ہی سالوں میں خیبرپختونخوا اور پاکستان کے دوسرے علاقوں میں درجہ حرارت تیزی سے بڑھ رہا ہے جس کی مثال ہمیں گزرے 30 سالوں میں نہیں ملتی۔ درجہ حرارت کے بڑھنے کا سلسلہ پیر 2 مئی تک جاری رہیگا اور اسی دوران گرم ہوائیں چلیں گی۔

محمد فہیم نے اقوام متحدہ کے ماحول کیلئے مختص ادارے آئی پی سی سی کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جنوبی ایشیا اور سنٹرل ایشیا میں کلائیمنٹ چینج کے وجہ سے شدید موسمی واقعیات میں اضافہ ہوگا۔

انٹر گورمنٹل پینل آن کلائیمیٹ چینج (آئی پی سی سی) اے آر پانچ رپورٹ کے شریک رائٹر اور کلائیمنٹ سائنسدان زیک ہوسفادر نے اپنے ٹویٹر پیغام میں لکھا ہے کہ اس ہفتے انڈیا اور پاکستان میں گرم ہوائیں چلیں گی اور پاکستان گرم ہوائوں کی زد میں ہوگا۔



آئی پی سی سی کی حالیہ ورکنگ گروپ تھری رپورٹ اے آر چھ شائع ہوئی ہے جس میں درجہ حرارت کے تیزی سے بڑھنے کے واضح شواہد موجود ہیں۔ دنیا بھر سے منتخب سائنسدان جنہوں نے اس رپورٹ کو ترتیب دیا ہے کا کہنا ہے کہ اگر فوری ایکشن نہ لیا گیا تو کلائیمنٹ چینج کے اثرات سے بچنا کسی بھی ملک کیلئے ناممکن ہوگا۔

آئی پی سی سی کی چھٹی اسیسمینٹ رپورٹ میں پالیسی سازوں کو بائیوڈاورسٹی حیاتیاتی تنوع کو درپیش مسائل سے بھی اگاہ کیا گیا ہے۔ تیزی سے بڑھتا ہوا درجہ حرارت زمین پر دوسرے جانداروں، پودوں اور جانوروں کی برداشت سے پہلے ہی تجاوز کر چکی ہے جسکے مستقبل میں خطرناک نتائج سامنے آئیں گے اور شدید موسمی واقعات جیسے سیلاب، طوفان اور خشک سالی بیک وقت رونما ہو رہے ہیں جسکا مقابلہ کرنا آسان بالکل نہیں ہے۔



ماحولیاتی ماہرین کے مطابق انسانی سرگرمیوں کی بدولت پیدا ہونے والے کلائیمیٹ چینج کے خطرناک اثرات کا سامنا اس وقت پوری دنیا کر رہی ہے لیکن کمزور ممالک جہاں پہلے سے ناانصافی، صنفی مساوت، استحصال اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم عروج پر ہے ان ممالک کا کلائیمیٹ چینج کے اثرات سے نمٹنا آسان نہیں ہوگا، کمزور ممالک میں بڑے پیمانے پر لوگ اپنے گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہو جائینگے۔

یاد رہے کہ پاکستان کلائیمنٹ چینج سے متاثرہ ملکوں کی فہرست میں پانچویں نمبر پر موجود ہے۔ پاکستان میں عام لوگ اب بھی کلائیمنٹ چینج کے اثرات سے بے خبر ہیں اور اپنے اردگرد ماحول کے حوالے سے بہت کم جانکاری رکھتے ہیں۔

ماحولیاتی بحران اس وقت پوری دنیا کی سیاست کا محور ہے اور اس حوالے سے مختلف ملکوں میں نوجوان اور دوسرے لوگ اپنے لیڈران اور پالیسی سازوں پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ کلائیمنٹ چینج کے حوالے سے موثر اقدامات کیے جائے لیکن پاکستان میں ماحولیاتی بحران کے حوالے سے نا تو مظبوط پالیسیاں موجود ہیں اور نہ ہی عام لوگ ان خطرات سے واقف ہیں۔



پاکستان میں سابقہ حکومت نے کلائیمنٹ چینج کے مسئلے پر قابو پانے کیلئے بلین ٹری سونامی کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا جبکہ ماحولیاتی ماہرین کا ماننا ہے کہ درخت لگانا کلائیمنٹ چینج کا بلکل بھی کوئی مستقل حل نہیں ہے بلکہ ماحولیاتی بحران سے نمٹنے کیلئے انسانوں کا اپنی سرگرمیوں اور سسٹم کو ٹھیک کرنا ہوگا۔ ماہرین کلائیمنٹ چینج کو ایک سیاسی مسئلہ مانتے ہیں اور اس کے حل کیلئے درخت کو لگانے کے بجائے درخت نوع کے سمجھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

 

آصف مہمند کا تعلق پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا سے ہے۔ وہ ملٹی میڈیا جرنلسٹ ہیں اور کلائمیٹ چینج اور دیگر ماحولیاتی موضوعات سے متعلق لکھتے ہیں۔