ماحولیاتی آلودگی اور بڑھتے ہوئے درجہ حرارت نے سارے کرہ ارض کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ تاہم پاکستان اور تیسری دنیا کے ممالک کی صورتحال زیادہ تشویشناک ہے۔
شہروں کی طرف آبادی کے بڑھتے ہوئے ارتکاز اور ديہی زندگی، زراعت و جنگلات میں عدم دلچسپی نے پاکستان میں آلودگی اور حدت میں ہونے والے اضافے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ دیہی آبادی میں صحت، تعلیم، روزگار اور دیگر بنیادی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کا جھکاؤ شہروں کی طرف ہے۔ شہروں پر آبادی کے بوجھ کی وجہ سے ٹریفک میں اور اس سے اٹھنے والے دھوئیں میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ کارخانوں اور گاڑیوں کے دھوئیں نے فضائی آلودگی بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ترقی یافتہ ممالک کی طرز پر اس دھوئیں کو اخراج کے مقام سے ہی سائنسی بنیادوں پر ختم کرنے، کم کرنے یا ماحول دوست گیسوں میں تبدیل کرنے کے لئے سنجیدہ اقدامات کیے جاتے مگر ایسا نہیں ہوا۔ وقت کا مزید ضیاع کیے بغیر اس طرف فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ کارخانوں اور گاڑیوں کا ہر سال معائنہ کر کے فٹنس سرٹیفیکیٹ جاری اور منسوخ کرنے کا نظام ہونا چاہیے۔
جںگلات کا تحفظ مقامی عمائدین اور معززین کی مدد سے یقینی بنانا چاہیے۔ تمام سرکاری و پرائیویٹ اداروں اور ملازمین کو مقررہ تعداد میں نئے پودے لگانے اور ان کی افزائش کرنے کا پابند بھی کیا جا سکتا ہے۔ لوگوں کو درخت لگانے کی ترغیب دینے کے لئے ٹیکس میں چھوٹ یا رعایت اور انعامات وغیرہ بھی دیے جا سکتے ہيں۔
کوڑا کرکٹ کو ری سائیکل کرنا اور مناسب طور پر ٹھکانے لگانا بے حد ضروری ہے۔ صفائی کے نظام پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ماحول دوست شاپنگ بیگز اور روزمرہ استعال کی دیگر اشياء کو فروغ دینا چاہیے۔
گاؤں اور دیہاتوں میں تمام بنیادی سہولیات میسر ہونی چاہئیں۔ ديہی آبادی کو مختلف ترغیبات اورسہولیات دے کر جنگلات اور زراعت کو فروغ دینا چاہیے۔
قارئین، مسائل سے نمٹنے کے لئے منصوبہ بندی کرنا اور عملی اقدامات اٹھانا اولین شرط ہے۔
مصنف پیشے سے انجینئر ہیں اور ساتھ ایم بی اے بھی کر رکھا ہے- لکھنے سے جنون کی حد تگ شغف ہے اور عرصہ دراز سے مختلف جرائد اور ویب سائٹس میں لکھ رہے ہیں