ماحولیاتی آلودگی پر کیسے قابو پایا جائے؟

ماحولیاتی آلودگی پر کیسے قابو پایا جائے؟
ماحولیاتی آلودگی گو کہ پوری دنیا کا مسئلہ ہے مگر ترقی یافتہ ممالک نے اپنے وسائل، عمل اور شعور کو بروئے کار لا کر اس پر اپنے اپنے ممالک کی حدود میں کافی حد تک قابو پایا ہوا ہے۔ مگر ترقی پذیر ممالک مثلاً پاکستان، بھارت وغیرہ ابھی تک اس سنجیدہ مسئلے پر قابو پانے میں ناکام رہے ہیں۔ اور دن بدن اس آلودگی میں کمی ہونے کے بجائے اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔

اس کرہ ارض پر بیسویں صدی میں درجہ حرارت میں مجموعی طور پر 0.6 سینٹی گریڈ اضافہ ہوا ہے۔ ماحول میں درجہ حرارت میں اضافہ عالمی سطح پر تباہی کا باعث بن رہا ہے۔ درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے برفانی تودوں کے پگھلنے میں اضافہ ہوا ہے، جس سے عالمی سطح پر سیلاب کی تباہ کاریوں میں اضافہ ہوا ہے۔

پچھلے کچھ برسوں سے ہر سال سردیوں میں کچھ دنوں کے لیے پاکستان اور بھارت میں ماحولیاتی آلودگی کی ایک نئی قسم سے لوگوں کو سامنا کرنا پڑ رہا ہے، جسے سموگ کہتے ہیں۔ سموگ سے ماحولیاتی آلودگی میں خطرناک حد تک اضافہ ہوتا ہے، جس سے ہوا کی کوالٹی بہت خراب ہو جاتی ہے اور سموگ سے متاثرہ آلودہ علاقوں میں بسنے والے لوگ گلے اور سانس کی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم بحیثیت متاثرہ ممالک کے شہری ہونے کے اس مسئلہ کو سنجیدہ لینے کو تیار نہیں، ہم کوڑے کرکٹ کو گلی محلوں میں سرِراہ پھینک کر اور کوڑے کے ڈھیر کو آگ لگا کر ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ کا باعث بن کر فخر محسوس کرتے ہیں۔ ہم درخت لگانے کی بجائے ان کو کاٹ کر سکون محسوس کرتے ہیں۔ ہمارے حکمران ہم سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں، ان کی کوئی واضح ترجیح اور حکمت عملی نہیں، جس پر عمل کر کے اپنے ماحول کو یا دوسرے لفظوں میں کہنا چاہیے کہ اپنی عوام کی صحت کے معیار کو بہتر بنایا جائے۔

ایک سروے کے مطابق ماحول میں بڑھتی ہوئی آلودگی کی وجہ سے جہاں شہریوں کے بیمار ہونے کی شرح میں مجموعی طور پر اضافہ ہو رہا ہے، وہاں ہر شہری اوسطاً اپنی مجموعی عمر کے تین سال اس آلودگی کی وجہ سے کم کر رہا ہے۔ مجھے بحیثیت ایک پاکستانی اور ایک انسان ہونے کے اس المیے کے بارے میں سوچ کر بہت دکھ ہو رہا ہے کہ بغیر کسی بیماری کہ صرف آلودگی کی وجہ سے ہی زندگی کے تین سال کم ہو رہے ہیں۔ اب اگر ماحولیاتی آلودگی کا باعث بننے والے اسباب کا ذکر کیا جائے تو اس کی کئی ایک وجوہات ہیں، جیسے کہ درختوں کا کٹاؤ، بڑھتی ہوئی ٹریفک کی وجہ سے زہریلی گیسوں کے اخراج میں اضافہ، کوڑے کے ڈھیر کو آگ لگانا، کارخانوں کی زہریلی گیسوں کے اخراج میں اضافہ وغیرہ۔ یہ صرف بیشمار وجوہات میں سے چند وجوہات بیان کی ہیں اور بدقسمتی سے ان تمام کا تعلق ہم انسانوں سے ہے۔ ہم اگر اپنا مثبت کردار ادا کریں اور انفرادی طور پر اپنی ذمہ داری کا احساس کریں تو یقیناً آلودگی پر قابو پا کر اس سے ہونے والی تباہی سے نہ صرف خود بچ سکتے ہیں بلکہ اپنی نسلوں کو بھی بچا سکتے ہیں۔

ہم اگر فضلے کے ڈھیر اور فصلوں کو کاٹنے کے بعد ان کو آگ نہ لگائیں تو یقیناً آلودگی پر قابو پا سکتے ہیں۔ ہم اگر درختوں کو کاٹنے کی بجائے لگانے والے بنیں یا اگر مجبوری میں کاٹنا پڑ جائے تو کاٹ کر لگا بھی دیا جائے تو یقیناً آلودگی پر قابو پا سکتے ہیں۔ ہم اگر کم آلودگی والی یا ہائبرڈ گاڑیاں استعمال کریں تو اس آلودگی پر یقیناً قابو پا سکتے ہیں۔ ہمیں سائیکل کلچر کو معاشرتی اور سرکاری سطح پر فروغ دینا چاہیے بجائے اس کہ کے سائیکل چلانے والے کو غریب تصور کیا جائے اور حقارت کی نظر سے دیکھا جائے۔ سائیکل کلچر کو فروغ دے کر جہاں ہم معاشرے میں پائے جانے والے تکبر سے باہر نکل سکتے ہیں وہاں صحت کے معیار کو بہتر کرتے ہوئے آلودگی پر بھی قابو پا سکتے ہیں۔

حکومت کو بھی اس سنگین مسئلہ سے نمٹنے کے لیے صرف عوام کے ٹیکس سے وزارت بنا کر اس کو کھلانے کی بجائے عملی طور پر اقدامات کرنے چاہیے۔ گاڑیوں کا معائنہ کر کے ان کو سڑک پر چلنے کی اجازت دینی چاہیے اور ہر سال یہ معائنہ ہونا چاہیے (رشوت سے پاک ہو کر)۔

وزارت پیٹرولیم کو تیل کے معیار سختی سے چیک کرنے چاہیے۔ غرض یہ ایک بہت لمبی بحث ہے، آخر میں اتنا ہی کہوں گا کہ یہ انفرادی طور ملک میں بسنے والے ہر پاکستانی کی اور مجموعی طور پر حکومت وقت کی ذمہ داری ہے، ہر ایک کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ اگر ابھی ہم نے اپنا کردار ادا کر کے ماحولیاتی آلودگی پر قابو نہ پایا تو جہاں ہم اپنی زندگیوں میں اپنا نقصان کر رہے ہیں، وہاں ہم اپنی نسلوں کے رستے میں بھی کانٹے بونے والے ہوں گے۔

احتشام اعجاز بھلی ان دنوں امریکہ میں مقیم ہیں اور U.S. Press Association کے ممبر ہیں۔ وہ پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں اور لاہور ہائی کورٹ کے تاحیات رکن ہیں۔