سماجی رابطوں پر سرگرم وزیر مملکت برائے ماحولیاتی تبدیلی زرتاج گل نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر ایک ویڈیو پیغام جاری کیا جس میں اُن کا کہنا تھا کہ لاہور میں فضائی آلودگی کے حوالے سے افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں۔ انہوں نے اپنی ویڈیوکے کیپشن میں لکھا کہ "دانستہ طور پر لاہور میں ہوا کی آلودگی کے بارے میں پھیلائی جانے والی افواہ کی سختی سے تردید کرتی ہوں اور ان عناصر کی مذمت کرتی ہوں۔"
دانستہ طور پر لاہور میں ہوا کی آلودگی کے بارے میں پھیلائی جانے والی افواہ کی سختی سے تردید کرتی ہوں۔ اور ان عناصر کی مذمت کرتی ہوں۔
Deliberately misinformation is being spread about Lahore AIr Quality. It is nowhere as bad as being asserted by vested elements.
?♻️? pic.twitter.com/WQqllHHWeI
— Zartaj Gul Wazir (@zartajgulwazir) October 30, 2019
زرتاج گل کی اس ٹویٹ کے بعد لاہور کے خطرناک فضائی ماحول میں سانس لینے والے ٹویٹر صارفین نے انہیں آڑے ہاتھوں لیا اور حقائق سے آگاہ کیا۔
بارش زیادہ آتا ہے تو پانی زیادہ آتی ہے: بلاول
ریلی کی گاڑیاں زیادہ آتیں ہیں تو سموگ زیادہ ہوتا ہے: زرتاج گل
مسافر زیادہ آتے ہیں تو ریلوے زیادہ جلتی ہے۔ شیخ رشید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیاست کے چَول مینارز https://t.co/sfNq6IAGst
— النَّجْمُ الثَّاقِبُ (@AnNajamUsSaqib) October 31, 2019
جناب @fawadchaudhry انکو میں مفت میں سائنس کے مضامین کی ٹویشن پڑھانے پر راضی ہوں https://t.co/EauNkCetCh
— حسن کوزہ گر (@formanite90) October 31, 2019
Zartaj Bibi we are NOT vested elements! We live in Lahore, our eyes are burning, we are getting headaches and we can’t breathe!!!! It’s so bad that we don’t even need monitors to tell us it’s bad, our bodies are telling us! For heavens sake quit playing politics with our lives
— Attiya (@attiyanoon) October 31, 2019
سماجی رابطوں پر تنقید کا سامنا کرنے کے بعد لاہور کی فضائی آلودگی سے نابلد وزیر مملکت برائے ماحولیاتی تبدیلی کو کچھ ہوش آیا اور انہوں نے ٹویٹر پر ایک اور ویڈیو جاری کر دی جس میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ لاہور کی آلودگی میں اضافہ ریلیوں میں شرکت کے لیے دوسرے شہروں سے آنے والی گاڑیوں کی وجہ سے ہوا ہے۔
انہوں نے اپنی ویڈیو پر لکھا کہ "وزارت کی ٹیمیں اپنا کام کر رہی ہیں۔ سموگ کی وجوہات پر کافی حد تک قابو پایا جا چکا ہے۔"
وزارت کی ٹیمیں اپنا کام کر رہی ہیں۔ سماگ کی وجوہات پر کافی حد تک قابو پایا جا چکا ہے۔
Our teams are working diligently to heavily mitigate pollution sources and impact. Do not heed please the unauthenticated sources that are trying to stir uproar for their own vested interests. pic.twitter.com/J8sNxYx4Fy
— Zartaj Gul Wazir (@zartajgulwazir) October 30, 2019
زرتاج گُل نے اپنی ویڈیوز میں لاہور کو آلودہ ترین قرار دینے کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ لاہور کو آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں ڈالے جانے کی خبریں بلکل غلط ہیں۔ عوام سے اپیل ہے کہ وہ غیر مستند اطلاعات پر کان نہ دھریں اور صرف مستند ذرائع پر یقین کریں۔
انہوں نے کہا کہ ریلیوں میں دوسرے شہروں سے آنے والی گاڑیوں کی وجہ سے بھی آلودگی پھیل رہی ہے۔
اپنے ویڈیو پیغام میں زرتاج گل نے بتایا کہ لاہور میں 1 سو پچپن اور پنجاب میں 2 سو ساٹھ سے زائد فرنس یونٹ بند کئے ہیں۔ پاکستان بھر میں 20 ہزار کے قریب اینٹوں کے بھٹے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ 80 فیصد آلودگی بھارت کی طرف جبکہ 20 فیصد پاکستان کی طرف ہے۔
@PSCAsafecities AQI updates and #LahoreSmog advisory in action today. As can be seen in the picture, looks like Lahore has been tear gassed, en masse. #SaansLenayDo pic.twitter.com/aaDIkkVOFQ
— Dawar Butt (@thelahorewala) October 30, 2019
واضح رہے کہ پاکستان کو اس وقت خطرناک ترین فضائی آلودگی کا سامنا ہے۔ عالمی ماحولیاتی ادارے کی فضائی کوالٹی کی درجہ بندی کے مطابق لاہور کی فضا آلودگی کے اعتبار سے دنیا میں بدترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ ہوا کا یہ معیار انسانی صحت کے لئے شدید مضر ہے۔
تاہم، پنجاب میں ماحولیاتی تحفظ کا محکمہ اِسے خطرے کی گھنٹی تسلیم نہیں کرتا۔ محکمے کے مطابق، ایئر کوالٹی انڈیکس 300 سے تجاوز کرے تو ہنگامی صورتِ حال درپیش ہوتی ہے۔
ہوا کے معیار کو جانچنے کا طریقہ کیا ہے؟
ہوا مختلف گیسوں کے امتزاج سے بنی ہے جس میں آکسیجن اور نائٹروجن کی بڑی مقدار کے علاوہ کاربن ڈائی آکسائیڈ، اوزون، سلفر ڈائی آکسائیڈ اور کاربن مونو آکسائیڈ جیسے بہت سے دیگر چھوٹے مادے بھی پائے جاتے ہیں۔ لیکن، جب کہیں گاڑیاں، موٹر سائیکلیں، رکشے، بسیں یا ذرائع آمد و رفت دھواں پھیلانے لگیں، فیکٹریوں اور بھٹوں سے دھوئیں کا اخراج ہو، فصلوں کی باقیات جلائی جا رہی ہوں تو ایسی صورت میں ہوا میں موجود چھوٹے مادے بڑھ جاتے ہیں۔ ایک خاص حد سے تجاوز کرنے پر یہ ہوا کو آلودہ کر دیتے ہیں۔ انہی مادوں کے بڑھتے تناسب کا جائزہ لے کر ہی ہوا کے معیار کو جانچا جاتا ہے۔ یہ گیسیں جس قدر بڑھتی جائیں گی اتنی ہی ہوا آلودہ ہوتی جائے گی۔
فضائی آلودگی کا جائزہ ایئر کوالٹی انڈیکس سے لیا جاتا ہے۔ جس میں صفر سے پانچ سو ڈگری کی سطح دی گئی ہوتی ہے۔ صفر سے پچاس ڈگری تک کا درجہ بتاتا ہے کہ یہ بالکل خطرناک نہیں ہے یعنی ہوا میں گیسوں کا تناسب بالکل درست ہے۔ پچاس سے سو کی حد بتاتی ہے کہ گیسز نارمل مقدار سے زیادہ موجود ہیں لیکن یہ صحت کو نقصان نہیں پہنچا رہیں۔ اس کے بعد جب آپ سو سے ڈیرھ سو کی حد میں جائیں تو یہ حساس طبیعت کے لوگوں کے لیے مُضر صحت ہے۔ لہذٰا، وہ لوگ جنہیں سانس کی بیماری ہے یا بچے اور بوڑھوں کو متاثر کر سکتی ہے اور اگر یہ ڈیرھ سو سے دو سو تک ہو تو ریڈ زون میں آتا ہے اور لاہور کی ہوا تو اکثر اسی زون میں رہتی ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ آلودہ رہتی ہے۔
واضح رہے کہ ایئر کوالٹی انڈیکس کے مطابق پاکستان کا شہر لاہور دنیا کے آلودہ شہروں میں پہلے درجے پر ہے لیکن ہوا کے اس آلودہ معیار کے باوجود ابھی تک شہری انتظامیہ کی جانب سے کسی قسم کی ماحولیاتی ایمرجنسی کا بگل نہیں بجایا گیا۔ جبکہ، وزیر مملکت برائے ماحولیاتی تبدیلی زرتاج گل کا کہنا ہے کہ یہ سب افواہیں ہیں۔