فضائی آلودگی سے متاثرہ دنیا کے 50 بدترین مقامات میں لاہور شامل

فضائی آلودگی سے متاثرہ دنیا کے 50 بدترین مقامات میں لاہور شامل
عالمی ادارہ صحت کی تیار کردہ ایک رپورٹ کے مطابق لاہور دنیا کے پچاس آلودہ ترین ہاٹ سپاٹس NO2 کے اخراج میں شامل بدترین علاقہ ہے۔ جہاں ٹرانسپورٹ سے 40 فیصد اور بجلی بنانے سے 23 فیصد آلودگی پیدا ہوتی ہے۔ عالمی ادارہ صحت نے اپنے ہیڈ کوارٹر جینیوا میں فضائی آلودگی سے متعلق پہلی عالمی کانفرنس کا انعقاد کیا۔ تین روز پر محیط یہ کانفرنس 30 اکتوبر سے لیکر 1 نومبر تک جاری رہی۔ اس کانفرنس کو اقوام متحدہ کے ماحولیاتی ڈیپارٹمنٹ، ورلڈ میٹریالوجیکل آرگنائزیشن (WMO)، سیکرٹریٹ آف یو این فریم ورک کنونشن آن کلائمیٹ چینج (UNFCCC)، کلائمیٹ اینڈ کلین ائیر کوئلیشن ٹو ریڈیوس شارٹ لوڈ کلائمیٹ پولیوٹنٹس (CCAC) اور اقوام متحدہ کے اقتصادی کمیشن برائے یورپ (UNFECE) کی معاونت حاصل رہے گی۔

کانفرنس میں مختلف ممالک کی وزارت ماحولیات و صحت کے نمائندوں کے ساتھ ساتھ مختلف سرکاری افسران صحت کے شعبے کے ماہرین، سول سوسائٹی اور محقق بھی شرکت کریں گے۔ اس کانفرنس کے انعقاد کا بنیادی مقصد آب و ہوا کے معیار کو بہتر بنانے کیلئے ایک روڈمیپ کی تیاری ہو گا۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق آلودگی قبل از وقت اموات کی ایک بہت بڑی وجہ ہے جس کے باعث ہر سال ستر لاکھ اموات واقع ہوتی ہیں کیونکہ دنیا کے مختلف شہروں میں ہوا میں آلودگی کا تناسب عالمی ادارہ صحت کی جانب سے مقرر کردہ حد سے کہیں زیادہ ہے۔ جبکہ گھروں کی فضائی آلودگی دیہاتوں اور شہری علاقوں میں ایک تہائی اموات کا باعث بنتی ہے۔ اس کی وجہ سے جو بیماریاں پھیلتی ہیں ان میں سٹروک، پھیپھڑوں کا سرطان اور مختلف دل کی بیماریاں شامل ہیں۔

گرین پیس نے عالمی NO2 کے ہاٹ سپاٹس کے متعلق ایک عدد رپورٹ بمع NO2 کے اخراج کے عالمی نقشہ جات کے پیش کی۔ اس رپورٹ میں پاکستان بھی شامل ہوگا جو کہ 50 ہاٹ سپاٹس کی فہرست میں بدترین مقام کے طور پر شامل ہے۔ نئی سیٹلائٹ نے اس سال جولائی کے شروع میں NO2 سے متعلق ڈیٹا فراہم کرنا شروع کیا جس میں NO2 آلودگی کی غیر معمولی تفصیلات پیش کی گئیں۔



اوپر دی گئی تصویر میں جون سے لیکر اگست 2018 تک کے NO2 کے اخراج کے لیول ظاہر کیے گئے ہیں، جس میں بتایا گیا ہے کہ ایشیا اور افریقہ کےخطوں کے  NO2لیول کا اخراج 0۔25 سے 0/5 کے درمیان ہے۔ NO2 کا اخراج ببیادی طور پر انسانوں کے ان کاموں کے نتیجے میں ہوتا ہے جو کہ آلودگی کا باعث بنتے ہیں، مثال کے طور پرخام تیل کا جلنا، جو کہ لوگوں کی صحت پر اثر انداز ہوتا ہے۔ NO2 سیکنڈری PM 2.5 اور اوزون میں نقصان کی بنیادی وجہ ہے جس کے باعث دنیا بھر میں انسانوں کیلئے مضر صحت آلودگی پیدا ہوتی ہے۔ گرین پیس نے سیٹلائیٹ سے حاصل ہونے والی تصاویر کی مدد سے پچاس بدترین ہاٹ سپاٹس کا تجزیہ کیا اور اس کے پیدا ہونے کے عوامل کا جائزہ لیا جس میں کہ بجلی بنانے کے طریقے اور ٹرانسپورٹ کے نظام نمایاں ہیں۔ دنیا بھر کے پچاس بدترین NO2 کا اخراج کرنے والے ہاٹ سپاٹس کی فہرست میں بھارت، جنوبی افریقہ اور جرمنی کے مختلف کوئلے سے بجلی بنانے کے کارخانے، چین کے دس بجلی بنانے کے کارخانے اور صنعتی یونٹس اور 14 ایسے بڑے شہر شامل ہیں جو ٹرانسپورٹ سے متعلق آلودگی کے اخراج کا باعث بنتے ہیں۔ ان شہروں میں سانتیاگو، ڈی چلی، تہران، دبئی، لندن اور پیرس نمایاں ہیں۔ اس کے علاوہ کانگو اور انگولا میں زرعی اجناس کو جلانے کے مقامات بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔ جبکہ سیول، جکارتہ اور نئی دہلی میں آلودگی کا باعث ٹرانسپورٹ، کوئلے سے بجلی بنانے کے کارخانے اور مینوفیکچرنگ فیکٹریاں ہیں۔



ذیل میں دی گئی تصویر میں نئی دہلی بھارت میں کوئلے سے چلنے والے کارخانوں کی وجہ سے آلودگی سے متعفن مقامات ظاہر کیے گئے ہیں۔ سیٹلائٹ تصاویر کے مطابق سیول کا شمار ان ہاٹ سپاٹس میں ہوتا ہے جہاں NO2 کا اخراج کام کرنے والے دنوں میں زیادہ ہوتا ہے جبکہ چھٹی کے روز اس کی مقدار کم ہوتی ہے۔ یہ رپورٹ ایک وارننگ ہے اور متعلقہ حکام کو اس پر متفکر ہونا چاہیے کیونکہ لاہور کا شمار 50 عالمی ہاٹ سپاٹس میں ہوتا ہے جہاں روڈ ٹرانسپورٹ کے باعث 40 فیصد اور بجلی بنانے کے کارخانوں سے 23 فیصد آلودگی جنم لیتی ہے۔



گرین پیس کی تحقیق کے مطابق کوئلے اور تیل سے بجلی پیدا کرنا 19 ہاٹ سپاٹس میں شامل جگہوں کی آلودگی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ مینوفیکچرنگ صنعتوں سے متاثرہ ہاٹ سپاٹس کی تعداد 14 جبکہ لوہے کے کارخانوں اور ٹرانسپورٹ سے متاثرہ ہاٹ سپاٹس کی تعداد 10 ہے۔



چین میں دنیا کے سب سے زیادہ ہاٹ سپاٹس پائے جاتے ہیں جن کی تعداد 10 ہے، یورپین یونین میں 4 اور بھارت، امریکہ اور کانگو میں ان کی تعداد 3 ہے۔ کانفرنس میں ایسی سستی حکمت عملیاں بنانے پر بات چیت کی گئی جو آلودگی کے اخراج کا باعث بننے والی ٹرانسپورٹ، انرجی، زراعت، کوڑا کرکٹ اور گھریلو سیکٹرز میں آلودگی کم کرنے کا باعث بن سکیں۔



ماحول دوست اور صحت کو مد نظر رکھنے والی پالیسیاں موسمیاتی تبدیلیوں کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ صحت، انرجی اور شہروں کے سسٹین ایبل گروتھ کے مقاصد کو پورا کرنے میں بھی معاون ثابت ہو سکتی ہیں۔ چھ ممالک میں موجود NO2 کے اخراج کے ہاٹ سپاٹس اس بحران کی وجہ سے دنیا کو درپیش خطرات اور چیلنجز کی ہلکی سی جھلک دکھائی دیتے نظر آتے ہیں۔ حکومتوں اور متعلقہ اداروں کو ہنگامی بنیادوں پر ایسے اقدامات اٹھانے کی اشد ضرورت ہے جو صاف ستھری، صحت کیلئے معاون اور آلودگی سے پاک آب و ہوا میسر کرنے کا باعث بن سکیں۔ کیونکہ یہ وقت کی بہت بڑی ضرورت ہے۔