ملتان؛ سموگ اور ماحولیاتی آلودگی سے آگاہی کے لیے واک کا اہتمام

شرکا کا کہنا تھا کہ پلاسٹک کے استعمال میں کمی، پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال، زیادہ سے زیادہ شجر کاری اور ماحول دوست ٹیکنالوجیز مثلاً شمسی اور ہوائی توانائی کا استعمال صاف ستھرے اور انسان دوست سفر کی شروعات ہو سکتے ہیں۔

ملتان؛ سموگ اور ماحولیاتی آلودگی سے آگاہی کے لیے واک کا اہتمام

گذشتہ ڈیڑھ دو ماہ کے دوران سموگ اور بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی نے لوگوں کی زندگیوں کو اجیرن بنا رکھا ہے۔ اس سلسلے میں عوام اور متعلقہ حکومتی اداروں کو احساس دلانے اور معلومات فراہم کرنے کیلئے آلٹرنیٹ ڈویلپممنٹ سروسز ( اے ڈی ایس) نے ملتان یونین آف جرنلسٹس کے تعاون سے ایک آگہی واک کا اہتمام کیا۔ یہ واک دوپہر کو نواں شہر چوک سے شروع ہو کر پریس کلب ملتان پر اختتام پذیر ہو گئی۔

شرکا اور منتظمین کا خیال تھا کہ عمومی طور پر سورج کی آب و تاب سے منور ملتان سردیوں کے آغاز کے ساتھ ہی دھند اور دھوئیں کے بادلوں اور بگولوں میں چھپ جاتا ہے، جو کہ زہریلی گیسوں کے اخراج اور ماحولیاتی آلودگی کی ایک خوفناک شکل ہے۔ صحت اور معمولاتِ زندگی کو متاثر کرنے والی سموگ گاڑیوں کے دھوئیں، صنعتی ایندھن، بھٹوں میں خشت سازی اور فصلوں کی باقیات کو جلانے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے جو سانس، ناک، گلے، دِل اور پھیپھڑوں کے امراض جیسے متعدد مسائل کا باعث بن رہی ہے۔ روزمرہ معمولاتِ زندگی کو متاثر کرنے والی سموگ عالمی موسمیاتی تبدیلی کا بھی ایک شاخسانہ ہے جو صرف ہوا کے معیار میں کمی یا گرمی کی شدت میں اضافے تک محدود نہیں ہے بلکہ سیلاب، آندھیوں، شدید بارشوں اور شدید گرمی کی لہروں کا باعث بھی بنتی ہے۔ علاقے کے باسی مذکورہ مسائل سے 2022 کے سیلاب میں بھی دوچار ہو چکے ہیں۔

مختلف نعروں، بینرز اور پلے کارڈز کے ذریعے شرکا یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ تمام موسمی بحران میں اضافہ کرنے کا ایک سبب ٹرانسپورٹ، کارخانوں کی چمنیوں اور کوئلہ جلانے سے پیدا ہونے والا دھواں اور تھرمل بجلی کی پیداوار سے ہونے والے کاربن کا اخراج بھی ہے۔ کاربن کا اخراج عالمی مسئلہ ہونے کے ساتھ ساتھ مقامی سطح پر بھی بگاڑ پیدا کرتا ہے جس میں ہوا کے معیار کی ابتری سرفہرست ہے جو حالیہ سموگ کی صورت میں رونما ہو رہی ہے۔ مزید عوامل میں پلاسٹک اور جملہ پلاسٹک مصنوعات کا بے دریغ استعمال بھی شامل ہے۔ تشویش ناک بات یہ ہے کہ پلاسٹک کی مصنوعات اور پالیتھین بیگز نامیاتی مواد کی مانند قدرتی طور پر خود بخود تحلیل نہ ہونے کی وجہ سے آبی حیات، فصلوں اور سارے ماحولیاتی نظام کے لیے بھی خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔

اے ڈی ایس کے سربراہ امجد نذیر نے کہا اگر چہ یہ بات درست ہے کہ موجودہ ماحولیاتی بحران کے سب سے بڑے ذمہ دار ترقی یافتہ ممالک ہیں، جو گذشتہ دو صدیوں سے فوسل فیول کے بے دریغ استعمال سے اپنی سرمایہ دارانہ ہوس پوری کرتے رہے ہیں اور اس بحران سے نمٹنے میں سب سے بڑا کردار بھی انہی ممالک کا ہونا چاہئیے لیکن اپنی زمین کو بچانا، جوکائنات میں واحد سرچشمہ حیات ہے، ہم سب کی یکساں ذمہ داری ہے اور یہ ذمہ داری ہمیں انفرادی اور اجتماعی ہر دو صورتوں میں نبھانا ہو گی۔ ہماری روزمرہ کی ماحول دوست عادات اور عملی اقدامات اس مسئلے کے حل میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ پلاسٹک کے استعمال میں کمی، پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال، زیادہ سے زیادہ شجر کاری اور ماحول دوست ٹیکنالوجیز مثلاً شمسی اور ہوائی توانائی کا استعمال صاف ستھرے اور انسان دوست سفر کی شروعات ہو سکتے ہیں۔

ایچ آر سی پی کی کونسل ممبر لبنا ندیم نے کہا کہ ماحولیاتی آلودگی سے نمٹنا نہ صرف بلدیاتی اداروں کی ذمہ داری ہے بلکہ عا م شہریوں کو بھی ذمہ دارانہ رویے اختیار کرنے چاہئیں۔ سوجھلا فاؤنڈیشن کے سربراہ ظہور جوئیہ نے کہا کہ ملتان میں بغیر کسی ریگولیشن کے دھڑا دھڑ پرائیویٹ رہائشی کالونیاں بنانے کی وجہ سے بے شمار درختوں کو کاٹا جا رہا ہے جسے روکنے کی ضرورت ہے۔ مظاہرین کا خیال تھا کہ ملتان کو ایک سرسبز، خوش گوار اور صاف ستھرا شہر بنانے کیلئے یہ واک ایک اہم ترین پیغام ہے۔