مسز سرینا عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ہوٹل کینٹ کے علاقے میں تھا اس لئے باآسانی فوجی ایمبولینسیں دستیاب ہو سکتی تھیں لیکن رضاکار اور خیراتی اداروں کی ایمبولینسوں پر زخمیوں کو اسپتال منتقل کیا جا سکا۔ مسز سرینا عیسیٰ کا کہنا تھا کہ انہیں یہ دیکھ کر دکھ ہوتا ہے کہ وی آئی پی قافلوں میں تو ایمبولینس حصہ ہوتی ہے لیکن عام آدمی کے لئے یہ سرکار ایمبولینس تک مہیا نہیں کرتی۔ مسز سرینا عیسیٰ کا کہنا ہے کہ مجھے یقین ہے صدر مملکت آپ کو معلوم ہوگا کہ اسلام میں کوئی وی آئی پی نہیں ہوتا۔ مسز سرینا عیسیٰ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ اگر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی کوئٹہ کمیشن رپورٹ پر عملدرآمد ہو جاتا تو ہزارہ برادری کے قتل عام اور سرینا ہوٹل پر حملوں کو روکا جا سکتا تھا۔ مسز سرینا عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ہزارہ پاکستانی شہری ہیں اور بلوچستان میں ان کو حکومت نے تنہا چھوڑ دیا ہے۔ مسز سرینا عیسیٰ وزیر اعظم عمران خان کا نام لیے بغیر لکھتی ہیں کہ انہیں یہ دیکھ کر دکھ ہوتا ہے کہ ہزارہ برادری اپنے شہدا کی لاشیں لے کر سڑک پر بیٹھے ہوتے ہیں اور دفنانے کے لئے صرف تھوڑی ہمدردی مانگ رہے ہوتے ہیں کیونکہ کسی کا غرور اتنا اہم ہے کہ وہ ان کو تھوڑی ہمدردی اور مہربانی دکھا کر ان کا اعتماد نہیں لوٹا سکتا۔
آخر میں مسز سرینا عیسیٰ افسوس کا اظہار کرتی ہیں کہ اگر ایک جج کوئٹہ دھماکے کے ذمہ داروں کا تعین کر سکتا ہے تو ریاست کی ایجنسیاں تمام وسائل ہونے کے باوجود ایسے حملے روکنے اور حملوں کے ذمہ داروں کے تعین میں ناکام کیوں ہیں؟ مسز سرینا عیسیٰ نے خط کے اختتام میں صدر کو یاد دلایا کہ انہوں نے حلف لے رکھا ہے کہ وہ لوگوں کی فلاح کے لئے ہر اقدام لیں گے۔
یاد رہے کہ تازہ ترین پیش رفت میں اب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظر ثانی کیس میں وزیر قانون فروغ نسیم نے بذات خود ذاتی حیثیت میں پیش ہو کر دلائل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔