وه اپنی نادانی کے باعث لفٹ سے گرے اور اتنا بڑا نقصان اٹھایا۔2008 ء کے انتخابات میں وه بائیکاٹ مہم پر تھے لیکن PPP کے ساتھ اتنے بڑے سانحے میں وه بھی نہ ہوا مگر نواز شریف نے پھر بھی ان کے ساتھ خیر سگالی کا مظاہره کیااور راولپنڈی جیسے شہر کے مرکزی جلسے کو منسوخ کردیا جس کا خمیازه انہیں دو سیٹیں کھو کر بھگتنا پڑا۔ اس کےم قابلے میں نواز شریف دل کے بائی پاس جیسے بڑے سانحے سے گزرے مگر خان صاحب اور پی ٹی آئی کا رویہ انسانیت سے عاری رہا۔ دکھ درد میں شرکت تو الگ بات ہے انہوں نے الٹا اس کا مذاق اڑایا اور انہیں بھگوڑا قرار دیا۔ سوشل میڈیا پر طرح طرح کی بے سروپا پوسٹیں کی گئیں جن کا عقل ودانش اور منطق سے دور دور کا واسطہ بھی نہ تھا۔ یہی معاملہ زندگی کے دوسرے معاملات میں نظر آتا ہے ۔ انتخابی ‘‘دھاندلی ’’ کے تنازعے پر خان صاحب کا مؤقف تھا کہ ایک کمیشن بنایا جائے ورنہ دھرنا دیا جائے گا۔
نواز شریف نے یہ بات مان لی مگر خان صاحب وعدے کے مطابق دھرنے سے پیچھے نہ ہٹے اور وه اپنے وعدوں اور الفاظ کو چھوڑ کر ایمپائر کے پیچھے چل دیئے۔ پھر جب کچھ ہاتھ نہ آیااورک میشن بنا دیا گیا تو بھی خان صاحب نے کہا کہ جو بھی فیصلہ آیا وه قبول کریں ۔یہی بات نواز شریف نے بھی کہی مگر جب فیصلہ آیا تو نواز شریف نے تو تسلیم کیا مگر خان صاحب نے نکتہ چینی بھی کی اور وعدے کے مطابق نہ تو الزامات واپس لیے اور نہ ہی معافی مانگی۔ اسی طرح PANAMA والے معاملے میں دونوں کے کردار کا جائزه لیا جائے توبھی اسی طرح کی صورتحال سامنے آتی ہے۔ خان صاحب نے کہا کہ اس معاملے پر ایک کمیشن بنناچاہیے، نواز شریف نے بات مان لی مگر خان صاحب اس بات سے پھر گئے اور اسلام آباد ’’lock down ’’والے راستے پر چل نکلے ۔
اب یہ الگ بات ہے کہ وه والا ‘‘لاک ڈاؤن ’’ کسی صوبے میں گھر سے باہر ہی نہ نکل سکا۔ ہاں! تھوڑا سا لاک ڈاؤن KPK سے باہر آیامگر وه برہان انٹرچینج سے آگے نہ بڑھ سکااور یوں اسلام آباد لاک ڈاؤن کرنے والے خود بنی گالا کے باورچی خانے میں ہی لاک ڈاؤن ہو گئے ۔ کیس سپریم کورٹ چلا گیا۔ خان صاحب نے ایک بار پھر وعده کیا کہ جو بھی فیصلہ آیا قبول ہوگا۔ یہی وعده نواز شریف کی طرف سے بھی کیا گیا مگر جب فیصلہ آیا تو نواز شریف نے تسلیم کیا مگر PTI کو دو جج تو اچھے لگے مگر تین برے لگنے لگے اور سوشل میڈیا پر ان کو آڑے ہاتھوں لیا گیا۔ اسی طرح ڈان لیک والا معاملہ بھی دیکھا جائے تو یہی صورتحال نظر آتی ہے ۔
دونوں طرف سے کہا گیا کہ تفتیش کی جائے جو بھی نقطہ نظر سامنے آیا، تسلیم کیا جائے گا ۔نواز شریف کی طرف دو بڑے اہم ساتھیوں کو فارغ کر دیا گیا مگر جب رپورٹ آئی تو PTI کی توپوں کا رخ پاک آرمی کی طرف ہو گیا اور وه وه باتیں کی گئیں کہ مجبوراً FIA کو ایکشن میں آنا پڑا۔ PMLNکےا یک کارکن نے شیخ رشید سے اپنا قرضہ مانگا تو اس بدتمیزی پر اسے اسے گرفتار ہونا پڑااور PMLNکی طرف سے اس کی مذمت بھی کی گئی مگر عمران خان کی طرف سے ان کارکنوں کے ساتھ اظہارہمدری کیا گیا جن کو FIA نے پاک فوج پربدنما تنقید کے جرم میں گرفتارکیا تھا ۔ راولپنڈی سے پرویز نام کا ایک MNA ہوتا تھا جس پر الزام لگا کہ اس کی جگہ کوئی اور بنده پیپر دے رہا تھا
الیکشن کمیشن خان صاحب کو بلا بلا کر تھک چکااور انسداددہشت گردی کی عدالت ان کو باقاعده اشتہاری قرار دے چکی ہے مگر وه پیش نہیں ہو رہے جبکہ اس کے برعکس نواز پیش ہو رہا ہے اورپیش ہو کر بھی براہے اور کچھ اشتہاری ہو کر بھی اچھے ہیں۔ یہ دونوں کے رویے کا ایک مختصرسا جائزه ہے۔ لیکن پھر بھی ایک اچھا ہو کر بھی برا اور دوسرا برا ہو کر اچھا ہے کیونکہ‘‘دلہن وہی جو پیامن بھائے ’’لیکن قدرت نے یہ دن بھی دکھانا تھا کہ جس جس چیز کو برا کہہ کر عمران خان نے نوازشریف پر بے جا تنقید کی تھی آج وه انہی چیزوں کو نہ صرف دہرا رہا ہے بلکہ ان کے گن بھی گا رہا ہے۔ اس لحاظ سے کہا جا سکتا ہے کہ وه نوازشریف کا ترجمان بن گیا ہے اور ہر فرنٹ لائن پر کھڑا ہو کر نوازشریف کا دفاع کر رہا ہے۔