2013ء کی انتخابی مہم عروج پر تھی۔ راولپنڈی جیسا مرکزی شہر تھا۔ لیاقت باغ میں PMLN کا جلسہ تھااور نواز شریف کا خطاب تھا۔ اس کے مقابلے میں PTI کا جلسہ لاہور میں تھا۔ اس میں عمران خان نے خطاب کرنا تھا۔ وه سٹیج پر جانے کے لیے لفٹ پر سوار ہوئے اورگر گئے ۔ یہ خبر نوازشریف تک پہنچی تو انہوں نے عمران خان اور PTI سے اظہاریکجہتی کرتے ہوئے پنڈی والا جلسہ منسوخ کر دیا۔ کہا جاتاہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا مگر نواز شریف نے اس بات کو عملاً جھٹلایا۔ اس سے پہلے وه بینظیر کی شہادت کے دن بھی اس بات کا عملی مظاہره کر چکے تھے ۔اس کے مقابلے میں عمران خان کو دیکھا جائے تو ان کے ہاں سیاست کے سینے میں واقعی دل نہیں ہے, کہیں بھی انسانیت کا مظاہره نہ کرسکے۔
وه اپنی نادانی کے باعث لفٹ سے گرے اور اتنا بڑا نقصان اٹھایا۔2008 ء کے انتخابات میں وه بائیکاٹ مہم پر تھے لیکن PPP کے ساتھ اتنے بڑے سانحے میں وه بھی نہ ہوا مگر نواز شریف نے پھر بھی ان کے ساتھ خیر سگالی کا مظاہره کیااور راولپنڈی جیسے شہر کے مرکزی جلسے کو منسوخ کردیا جس کا خمیازه انہیں دو سیٹیں کھو کر بھگتنا پڑا۔ اس کےم قابلے میں نواز شریف دل کے بائی پاس جیسے بڑے سانحے سے گزرے مگر خان صاحب اور پی ٹی آئی کا رویہ انسانیت سے عاری رہا۔ دکھ درد میں شرکت تو الگ بات ہے انہوں نے الٹا اس کا مذاق اڑایا اور انہیں بھگوڑا قرار دیا۔ سوشل میڈیا پر طرح طرح کی بے سروپا پوسٹیں کی گئیں جن کا عقل ودانش اور منطق سے دور دور کا واسطہ بھی نہ تھا۔ یہی معاملہ زندگی کے دوسرے معاملات میں نظر آتا ہے ۔ انتخابی ‘‘دھاندلی ’’ کے تنازعے پر خان صاحب کا مؤقف تھا کہ ایک کمیشن بنایا جائے ورنہ دھرنا دیا جائے گا۔
نواز شریف نے یہ بات مان لی مگر خان صاحب وعدے کے مطابق دھرنے سے پیچھے نہ ہٹے اور وه اپنے وعدوں اور الفاظ کو چھوڑ کر ایمپائر کے پیچھے چل دیئے۔ پھر جب کچھ ہاتھ نہ آیااورک میشن بنا دیا گیا تو بھی خان صاحب نے کہا کہ جو بھی فیصلہ آیا وه قبول کریں ۔یہی بات نواز شریف نے بھی کہی مگر جب فیصلہ آیا تو نواز شریف نے تو تسلیم کیا مگر خان صاحب نے نکتہ چینی بھی کی اور وعدے کے مطابق نہ تو الزامات واپس لیے اور نہ ہی معافی مانگی۔ اسی طرح PANAMA والے معاملے میں دونوں کے کردار کا جائزه لیا جائے توبھی اسی طرح کی صورتحال سامنے آتی ہے۔ خان صاحب نے کہا کہ اس معاملے پر ایک کمیشن بنناچاہیے، نواز شریف نے بات مان لی مگر خان صاحب اس بات سے پھر گئے اور اسلام آباد ’’lock down ’’والے راستے پر چل نکلے ۔
اب یہ الگ بات ہے کہ وه والا ‘‘لاک ڈاؤن ’’ کسی صوبے میں گھر سے باہر ہی نہ نکل سکا۔ ہاں! تھوڑا سا لاک ڈاؤن KPK سے باہر آیامگر وه برہان انٹرچینج سے آگے نہ بڑھ سکااور یوں اسلام آباد لاک ڈاؤن کرنے والے خود بنی گالا کے باورچی خانے میں ہی لاک ڈاؤن ہو گئے ۔ کیس سپریم کورٹ چلا گیا۔ خان صاحب نے ایک بار پھر وعده کیا کہ جو بھی فیصلہ آیا قبول ہوگا۔ یہی وعده نواز شریف کی طرف سے بھی کیا گیا مگر جب فیصلہ آیا تو نواز شریف نے تسلیم کیا مگر PTI کو دو جج تو اچھے لگے مگر تین برے لگنے لگے اور سوشل میڈیا پر ان کو آڑے ہاتھوں لیا گیا۔ اسی طرح ڈان لیک والا معاملہ بھی دیکھا جائے تو یہی صورتحال نظر آتی ہے ۔
دونوں طرف سے کہا گیا کہ تفتیش کی جائے جو بھی نقطہ نظر سامنے آیا، تسلیم کیا جائے گا ۔نواز شریف کی طرف دو بڑے اہم ساتھیوں کو فارغ کر دیا گیا مگر جب رپورٹ آئی تو PTI کی توپوں کا رخ پاک آرمی کی طرف ہو گیا اور وه وه باتیں کی گئیں کہ مجبوراً FIA کو ایکشن میں آنا پڑا۔ PMLNکےا یک کارکن نے شیخ رشید سے اپنا قرضہ مانگا تو اس بدتمیزی پر اسے اسے گرفتار ہونا پڑااور PMLNکی طرف سے اس کی مذمت بھی کی گئی مگر عمران خان کی طرف سے ان کارکنوں کے ساتھ اظہارہمدری کیا گیا جن کو FIA نے پاک فوج پربدنما تنقید کے جرم میں گرفتارکیا تھا ۔ راولپنڈی سے پرویز نام کا ایک MNA ہوتا تھا جس پر الزام لگا کہ اس کی جگہ کوئی اور بنده پیپر دے رہا تھا
اس پر نواز شریف کی طرف سے یہ ردعمل سامنے آیا کہ اس سے استعفیٰ لیا مگر مرادسعید یہ کام کر کے MNA بھی ہے، خان صاحب کی آنکھوں کا تاره بھی ہے اور اس کا دامن صاف ہے ۔یہی معاملہ پاناما پر بننے والی JIT کا ہے جب عمران خان سے علیمہ خان کے دبئی والے فلیٹ کا سوال کیا گیا تو جواب آیا کہ میری بہن عاقل بالغ ہے اور میں اس کے کسی فعل کا ذمہ دار نہیں ۔اب کوئی پوچھے کہ اگر آپ اپنی عاقل بالغ بہن کے قول وفعل کے ذمہ دار نہیں تو نواز شریف اپنے عاقل بالغ بچوں کے قول و فعل کا کس طرح ذمہ دار ہے ؟ مگر نواز شریف اپنا نام نہ ہونے اوربچوں کے عاقل بالغ ہونے کے باوجود حساب دے رہا ہے۔ نواز شریف کو آئین استثنیٰ بھی دیتا ہے۔ یعنی اگر وه چاہیں تو جب تک و ه وزیراعظم ہیں کوئی ان سے پوچھ گچھ نہیں کرسکتااور اگر چاہیں تو JIT کو ان کے پاس جانا پڑے گا جیسا کہ یوسف رضاگیلانی کے دور میں ہوا مگر وه اپنے اس استثنیٰ کو استعمال نہیں کر رہے اور JIT کو اپنے پاس بلانے کی بجائے وه خود اس کے سامنے پیش ہونے کے لیے تیار ہیں مگر اس کے مقابلے میں خاں صاحب کا رویہ ملاحظہ کریں کہ انہوں نے بھی اپنے ایک‘‘ساتھی’’ جسٹس وجیہ الرحمان کی سربراہی میں ایک کمیشن بنایاکہ PTI الیکشن کیوں ہاری اور کیا واقعی پارٹی انتخابات میں دھاندلی ہوئی تھی؟ مگر جب ان باتوں کا سراکچھ اپنوں تک جا پہنچا اور اپنے ہی بنائے ہوئے کمیشن نے خان صاحب کو طلب کیا تو انہوں نے پیش ہونے کی بجائے کمیشن ہی تحلیل کر دیا۔ انتخابی دھاندلی اور پاناما والے معاملے کی سماعت کی دوران خان صاحب اپنے کارکنوں کی سپریم کورٹ آمد پر ان کی حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے مگر آج جب نواز شریف کے کارکن آنا چاہتے ہیں تو خان روکنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں جبکہ نواز شریف نے خود بھیک ارکنوں کو جوڈیشل اکیڈمی آنے سے منع کر دیا ہے۔
الیکشن کمیشن خان صاحب کو بلا بلا کر تھک چکااور انسداددہشت گردی کی عدالت ان کو باقاعده اشتہاری قرار دے چکی ہے مگر وه پیش نہیں ہو رہے جبکہ اس کے برعکس نواز پیش ہو رہا ہے اورپیش ہو کر بھی براہے اور کچھ اشتہاری ہو کر بھی اچھے ہیں۔ یہ دونوں کے رویے کا ایک مختصرسا جائزه ہے۔ لیکن پھر بھی ایک اچھا ہو کر بھی برا اور دوسرا برا ہو کر اچھا ہے کیونکہ‘‘دلہن وہی جو پیامن بھائے ’’لیکن قدرت نے یہ دن بھی دکھانا تھا کہ جس جس چیز کو برا کہہ کر عمران خان نے نوازشریف پر بے جا تنقید کی تھی آج وه انہی چیزوں کو نہ صرف دہرا رہا ہے بلکہ ان کے گن بھی گا رہا ہے۔ اس لحاظ سے کہا جا سکتا ہے کہ وه نوازشریف کا ترجمان بن گیا ہے اور ہر فرنٹ لائن پر کھڑا ہو کر نوازشریف کا دفاع کر رہا ہے۔