صحافی انصارعباسی نے نواز شریف کی اسٹیبلشمنٹ کیساتھ ڈیل کی خبروں کو قیاس آرائیاں قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ کسی سکرپٹ پر عمل نہیں ہو رہا۔ لیگی قائد فی الحال واپس نہیں آ رہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت تک نواز شریف کا اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کوئی براہِ راست رابطہ نہیں ہے۔ لیگی قائد کی سوچ کیا ہے ان کی جماعت کے لوگ بھی اس سے مکمل طور پر لاعلم ہیں۔
ایاز صادق کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انہوں نے تو لوگوں کو حیران کر دیا تھا۔ ان کے بیانات کی وجہ سے سیاسی درجہ حرارت میں اضافہ ہوا۔ ان سے ایک شو کے دوران جب سوال پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ آپ لوگوں کو یہ معاملات آہستہ آہستہ ہوتے نظر نہیں آئیں گے۔ اس کے بعد یہ سب اچانک ہوگا، جلد کوئی بڑا سیاسی دھماکا ہوگا لیکن کب ہوگا میں اس سے لاعلم ہوں۔
انصار عباسی کا کہنا تھا کہ ایاز صادق کے بقو نواز شریف کی لندن میں اہم لوگوں کیساتھ ملاقاتیں ہو رہی ہیں اور وہ غیر سیاسی شخصیات سے رابطے میں ہیں لیکن مجھے معاملات اور ایجنڈے کا علم نہیں لیکن دوسری جانب ہ بھی کہا کہ نواز شریف سے ملاقاتیں کرنے والوں کو احساس ہو گیا ہے کہ پعمران خان کو حکومت میں لا کر وہ ناکام ہوئے۔ وہ پی ٹی آئی حکومت سے اپنی سپورٹ اٹھا چکے ہیں۔
آصف زرداری کے حوالے سے اںصار عباسی کا کہنا تھا کہ عسکری ذرائع نے کہا تھا کہ انھیں چاہیے کہ وہ اُس بندے کا نام بتائیں جس نے ان سے اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے ملاقات کرکے مستقبل کے سیٹ اپ کے حوالے سے مدد مانگی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ بات دلچسپ ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی طرف سے ایاز صادق کے بیان کو بالواسطہ توثیق حاصل ہو گئی ہے۔ وزیراعظم نے کہا تھا کہ ایسی راہیں تلاش کی جا رہی ہیں جن سے نواز شریف کی نااہلی ختم کرنے کی کوششیں کی جا سکیں۔ اگر کریمنلز کو چھوڑا جانے لگا تو تمام جیلوں کے دروازے کھول دینا چاہیں۔
اپنے آرٹیکل میں صحافی انصار عباسی نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے ایک باخبر ذرائع نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ وہ یہ نہیں بتا سکتے کہ ایاز صادق نے کس بنیاد پر ’’انکشافات‘‘ کیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بالواسطہ روابط ہیں جن سے کوئی ٹھوس بات سامنے نہیں آتی یا یہ معلوم نہیں ہوتا کہ نواز شریف کیا چاہتے ہیں۔
انصار عباسی نے یہ بھی سوال اٹھایا تھا کہ وزیراعظم کا اشارہ کس کی طرف ہے؟ کون وزیراعظم کی نااہلی ختم کروانے کی کوشش کررہا ہے، اس بارے انہیں وضاحت کرنی چاہیے۔