احمدی وکلا پر پابندی آئین پاکستان کے منافی ہے؛ پاکستان بار کونسل

انگلینڈ اینڈ ویلز بار نے پاکستان میں احمدی وکلا کے ساتھ ہونے والے سلوک پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ جواب میں پاکستان بار کونسل کا کہنا ہے خیبر پختونخوا بار کونسل اور گوجرانوالہ ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے نوٹسز کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، احمدی وکلا پر پابندی نہیں لگائی جائے گی۔

04:59 PM, 27 Mar, 2024

نیوز ڈیسک

پاکستان بار کونسل نے عندیہ دیا ہے کہ احمدی برادری سے تعلق رکھنے والے وکلا پر پاکستان میں کوئی پابندی نہیں لگائی جائے گی، احمدی وکلا کو پاکستان میں پریکٹس کرنے اور وکلا باڈیز کا رکن بننے کے لیے اپنا عقیدہ چھوڑنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔ بار کونسل نے وضاحت پیش کی ہے کہ احمدی وکلا پر پابندی آئین پاکستان کی روح سے مطابقت نہیں رکھتی۔

پاکستان بار کونسل کی جانب سے یہ وضاحت انگلینڈ اینڈ ویلز بار کی جانب سے پیدا ہونے والی اس تشویش کے جواب میں پیش کی گئی ہے جس کے مطابق پاکستان میں احمدی برادری سے تعلق رکھنے والے وکلا کے پریکٹس کرنے یا وکلا باڈیز کا حصہ بننے پر پابندی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

2023 کے اوائل میں خیبر پختونخوا بار کونسل اور گوجرانوالہ ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے نوٹس جاری کیے گئے تھے کہ بار کی نمائندگی حاصل کرنے کے لیے درخواست جمع کروانے والے وکلا کے لیے ضروری ہے کہ وہ مسلمان ہوں اور احمدی برادری سے ان کا کوئی تعلق نہ ہو۔ احمدی وکلا اگر بار کی رجسٹریشن حاصل کرنا چاہتے ہیں تو انہیں اپنا عقیدہ چھوڑنا ہو گا۔

علاوہ ازیں اپریل 2023 میں سندھ ہائی کورٹ میں پیشی کے دوران احمدی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے 77 سالہ وکیل سید علی احمد طارق کو ساتھی وکلا نے احاطہ عدالت میں زدوکوب کا نشانہ بنایا تھا۔ اس واقعے میں احمدی وکیل سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ اپنے نام کے ساتھ 'سید' لکھ کر مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچا رہے ہیں، انہیں اپنے نام کے ساتھ 'سید' لکھنے کا کوئی حق نہیں کیونکہ اس سے ان کی مسلمانوں کے ساتھ مشابہت پیدا ہوتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں؛ نام کے ساتھ 'سید' لکھنے پر احمدی وکیل کے خلاف توہین مذہب کا مقدمہ درج

یہ صورت حال پیدا ہونے کے بعد انگلینڈ اینڈ ویلز بار کے چیئرمین نک ونیال نے مئی 2023 میں پاکستان بار کونسل کو خط لکھا تھا جس میں پاکستان میں احمدی وکلا کے ساتھ ہونے والے سلوک پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔ خط میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ پاکستان بار کونسل ان واقعات سے متعلق اپنا مؤقف واضح کرے۔

جنوری 2024 میں پاکستان بار کونسل کے اس وقت کے چیئرمین حسن رضا پاشا نے انگلینڈ اینڈ ویلز بار کو جواب دیتے ہوئے لکھا تھا کہ پاکستان بار کونسل نے اس معاملے پر آئین پاکستان کی روشنی میں غور کیا ہے اور پاکستان بار کونسل نے فیصلہ کیا ہے کہ خیبر پختونخوا بار کونسل اور گوجرانوالہ ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے جاری ہونے والے نوٹسز کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، یہ نوٹس آئین پاکستان کی روح کے خلاف ہیں۔ پاکستان میں احمدی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے کسی وکیل پر ایسی پابندی نہیں لگائی جا سکتی اور مستقبل میں ایسا کوئی نوٹس نہیں جاری ہو گا۔

بار آف انگلینڈ اینڈ ویلز کے موجودہ چیئرمین سیم ٹونینڈ نے پاکستان بار کونسل کے حالیہ چیئرمین فاروق ایچ نائیک کو اس معاملے پر مزید روشنی ڈالنے کا مطالبہ کیا ہے اور ان سے یقین دہانی مانگی ہے۔ ان کے مطابق پاکستان بار کونسل کی جانب سے احمدی وکلا پر کسی قسم کی پابندی نہ لگائے جانے سے متعلق یقین دہانی حوصلہ افزا پیش رفت ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ مستقبل میں بھی پاکستان میں احمدی برادری سے تعلق رکھنے والے وکلا پر کسی قسم کی پابندی کا مطالبہ نہ کیا جائے۔

مزیدخبریں