پشتون کونسل پنجاب یونیورسٹی کے چئیرمین وقاص خان کا کہنا تھا کہ بلوچستان اور فاٹا میں انٹر نیٹ نا ہونے کے سبب ہماری تعلیم کا پہلے ہی بہت حرج ہو چکا ہے اور ہم دیگر طلبہ سے پیچھے رہ چکے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ کیلئے ہاسٹل فی الفور کھولے جائیں اور کرونا کی وجہ سے بند ہاسٹل کے سات ماہ کی فیس وصول نا کی جائے۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی انتظامیہ کا ان سے رویہ سوتیلوں سا ہے اور وہ یہ سب ایک مذہبی طلبہ تنظیم کی پشت پناہی کرتے ہوئے ایسا رویہ اپنائے ہوئے ہے۔
طلبہ رہنماء اور سٹوڈنٹ ایکشن کیمٹی پاکستان کے کنونئیر مزمل خان نے نیا دور سے بات کرتے ہوئے کہا کہ طلبہ جائز مطالبات لئے احتجاج پر مجبور ہوئے ہیں۔ ان کا دھرنا چند گھنٹوں کیلئے نہیں بلکہ تب تک جاری رہے گا جب تک انکے مطالبات تسلیم نا کر لئے جائیں۔ طلبہ نے گورنر پنجاب اور اپنے حلقوں کے منتخب نمائندوں سے اپیل کی کہ وہ انکا ساتھ دیں۔ انہوں نے بتایا کہ سکالرشپ اور کوٹے میں کمی کے خلاف یہ دھرنا پنجاب کی تمام بڑی سرکاری جامعات میں دیا جارہا ہے۔ بہاولدین زکریہ یونیورسٹی ملتان اور اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں بھی فاٹا اور بلوچستان کے طالب علم اپنا بنیادی حق مانگنے کیلئے دھرنا دے رہے مگر حکومت اور انتظامیہ انکی کوئی بات سننے کو تیار نہیں۔