بڑے آدمی کا بچہ غائب ہوجائے تو ریاست حرکت میں آجاتی ہے:اسلام آباد ہائیکورٹ بچوں کی عدم بازیابی پر برہم

12:40 PM, 31 Dec, 2020

نیا دور
اسلام آباد ہائیکورٹ میں عدالتی احکامات کے باوجود اینٹوں کے بھٹوں سے جبری مشقت کرنے والے بچوں کی عدم بازیابی پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اسلام آباد پولیس اور انتظامیہ پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب کسی بڑے آدمی کا بچہ غائب ہوتا تو پوری ریاست ڈھونڈ رہی ہوتی یہ بوڑھی غریب ماں عدالت میں کھڑی ہے اور یہ تو وہ لوگ ہیں جن کی عدالتوں تک رسائی بھی ناممکن بنا دی گئی ہوئی ہے.

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ جب سیکرٹری داخلہ کا بچہ غائب ہو جاتا ہے تو پولیس کیا کرتی ہے؟ عدالت کے سامنے پیش ہوتے ہوئے پولیس ایس ایچ او نے موقف اپنایا کہ اینٹوں کے بھٹے پر چھاپہ مارا گیا مگر بچے وہاں موجود نہیں تھے جس پر چیف جسٹس نے برہم ہوتے ہوئے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں بچے غائب ہیں اور آپ نے ایف آئی آر تک نہیں کاٹی اگر بچے بازیاب نہیں ہو سکتے تو آئی جی اسلام آباد اور چیف کمشنر خود یہاں پیش ہوجائے.

ڈی سی اسلام آباد حمزہ شفقات ہائیکورٹ کے سامنے پیش ہوئے تو عدالت نے ڈی سی اسلام آباد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ڈی سی صاحب کسی بڑے آدمی کا بچہ غائب ہوتا تو اس وقت ریاست کا ردعمل مختلف ہوتا. عدالت نے مزید کہا کہ ایس ایچ او یہاں آکر کہتا ہے بچے غائب ہیں اور ایف آئی آر بھی نہیں کاٹی جبکہ اینٹوں کے بھٹہ مالکان لوگوں کو قرض دے دیتے ہیں پھر یرغمال بنا لیتے ہیں.

اسلام آباد ہائیکورٹ نے ہفتے کے روز تک بچوں کو بازیاب کر کے پیش کرنے کا حکم جاری کردیا. ڈی سی اسلام آباد حمزہ شفقات نے عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بھٹہ مالک کو عدالت سے گرفتار کیا گیا ہے جبکہ آئندہ چار سے پانچ گھنٹوں میں بچوں کو بازیاب کردیا جائے گا.
مزیدخبریں