اسلام آباد ہائیکورٹ میں عدالتی احکامات کے باوجود اینٹوں کے بھٹوں سے جبری مشقت کرنے والے بچوں کی عدم بازیابی پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اسلام آباد پولیس اور انتظامیہ پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب کسی بڑے آدمی کا بچہ غائب ہوتا تو پوری ریاست ڈھونڈ رہی ہوتی یہ بوڑھی غریب ماں عدالت میں کھڑی ہے اور یہ تو وہ لوگ ہیں جن کی عدالتوں تک رسائی بھی ناممکن بنا دی گئی ہوئی ہے.
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ جب سیکرٹری داخلہ کا بچہ غائب ہو جاتا ہے تو پولیس کیا کرتی ہے؟ عدالت کے سامنے پیش ہوتے ہوئے پولیس ایس ایچ او نے موقف اپنایا کہ اینٹوں کے بھٹے پر چھاپہ مارا گیا مگر بچے وہاں موجود نہیں تھے جس پر چیف جسٹس نے برہم ہوتے ہوئے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں بچے غائب ہیں اور آپ نے ایف آئی آر تک نہیں کاٹی اگر بچے بازیاب نہیں ہو سکتے تو آئی جی اسلام آباد اور چیف کمشنر خود یہاں پیش ہوجائے.
ڈی سی اسلام آباد حمزہ شفقات ہائیکورٹ کے سامنے پیش ہوئے تو عدالت نے ڈی سی اسلام آباد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ڈی سی صاحب کسی بڑے آدمی کا بچہ غائب ہوتا تو اس وقت ریاست کا ردعمل مختلف ہوتا. عدالت نے مزید کہا کہ ایس ایچ او یہاں آکر کہتا ہے بچے غائب ہیں اور ایف آئی آر بھی نہیں کاٹی جبکہ اینٹوں کے بھٹہ مالکان لوگوں کو قرض دے دیتے ہیں پھر یرغمال بنا لیتے ہیں.
اسلام آباد ہائیکورٹ نے ہفتے کے روز تک بچوں کو بازیاب کر کے پیش کرنے کا حکم جاری کردیا. ڈی سی اسلام آباد حمزہ شفقات نے عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بھٹہ مالک کو عدالت سے گرفتار کیا گیا ہے جبکہ آئندہ چار سے پانچ گھنٹوں میں بچوں کو بازیاب کردیا جائے گا.