سماجی رابطوں پر سرگرم وزیر مملکت برائے ماحولیاتی تبدیلی زرتاج گل نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر ایک ویڈیو پیغام جاری کیا جس میں اُن کا کہنا تھا کہ لاہور میں فضائی آلودگی کے حوالے سے افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں۔ انہوں نے اپنی ویڈیوکے کیپشن میں لکھا کہ "دانستہ طور پر لاہور میں ہوا کی آلودگی کے بارے میں پھیلائی جانے والی افواہ کی سختی سے تردید کرتی ہوں اور ان عناصر کی مذمت کرتی ہوں۔"
زرتاج گل کی اس ٹویٹ کے بعد لاہور کے خطرناک فضائی ماحول میں سانس لینے والے ٹویٹر صارفین نے انہیں آڑے ہاتھوں لیا اور حقائق سے آگاہ کیا۔
سماجی رابطوں پر تنقید کا سامنا کرنے کے بعد لاہور کی فضائی آلودگی سے نابلد وزیر مملکت برائے ماحولیاتی تبدیلی کو کچھ ہوش آیا اور انہوں نے ٹویٹر پر ایک اور ویڈیو جاری کر دی جس میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ لاہور کی آلودگی میں اضافہ ریلیوں میں شرکت کے لیے دوسرے شہروں سے آنے والی گاڑیوں کی وجہ سے ہوا ہے۔
انہوں نے اپنی ویڈیو پر لکھا کہ "وزارت کی ٹیمیں اپنا کام کر رہی ہیں۔ سموگ کی وجوہات پر کافی حد تک قابو پایا جا چکا ہے۔"
زرتاج گُل نے اپنی ویڈیوز میں لاہور کو آلودہ ترین قرار دینے کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ لاہور کو آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں ڈالے جانے کی خبریں بلکل غلط ہیں۔ عوام سے اپیل ہے کہ وہ غیر مستند اطلاعات پر کان نہ دھریں اور صرف مستند ذرائع پر یقین کریں۔
انہوں نے کہا کہ ریلیوں میں دوسرے شہروں سے آنے والی گاڑیوں کی وجہ سے بھی آلودگی پھیل رہی ہے۔
اپنے ویڈیو پیغام میں زرتاج گل نے بتایا کہ لاہور میں 1 سو پچپن اور پنجاب میں 2 سو ساٹھ سے زائد فرنس یونٹ بند کئے ہیں۔ پاکستان بھر میں 20 ہزار کے قریب اینٹوں کے بھٹے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ 80 فیصد آلودگی بھارت کی طرف جبکہ 20 فیصد پاکستان کی طرف ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان کو اس وقت خطرناک ترین فضائی آلودگی کا سامنا ہے۔ عالمی ماحولیاتی ادارے کی فضائی کوالٹی کی درجہ بندی کے مطابق لاہور کی فضا آلودگی کے اعتبار سے دنیا میں بدترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ ہوا کا یہ معیار انسانی صحت کے لئے شدید مضر ہے۔
تاہم، پنجاب میں ماحولیاتی تحفظ کا محکمہ اِسے خطرے کی گھنٹی تسلیم نہیں کرتا۔ محکمے کے مطابق، ایئر کوالٹی انڈیکس 300 سے تجاوز کرے تو ہنگامی صورتِ حال درپیش ہوتی ہے۔
ہوا کے معیار کو جانچنے کا طریقہ کیا ہے؟
ہوا مختلف گیسوں کے امتزاج سے بنی ہے جس میں آکسیجن اور نائٹروجن کی بڑی مقدار کے علاوہ کاربن ڈائی آکسائیڈ، اوزون، سلفر ڈائی آکسائیڈ اور کاربن مونو آکسائیڈ جیسے بہت سے دیگر چھوٹے مادے بھی پائے جاتے ہیں۔ لیکن، جب کہیں گاڑیاں، موٹر سائیکلیں، رکشے، بسیں یا ذرائع آمد و رفت دھواں پھیلانے لگیں، فیکٹریوں اور بھٹوں سے دھوئیں کا اخراج ہو، فصلوں کی باقیات جلائی جا رہی ہوں تو ایسی صورت میں ہوا میں موجود چھوٹے مادے بڑھ جاتے ہیں۔ ایک خاص حد سے تجاوز کرنے پر یہ ہوا کو آلودہ کر دیتے ہیں۔ انہی مادوں کے بڑھتے تناسب کا جائزہ لے کر ہی ہوا کے معیار کو جانچا جاتا ہے۔ یہ گیسیں جس قدر بڑھتی جائیں گی اتنی ہی ہوا آلودہ ہوتی جائے گی۔
فضائی آلودگی کا جائزہ ایئر کوالٹی انڈیکس سے لیا جاتا ہے۔ جس میں صفر سے پانچ سو ڈگری کی سطح دی گئی ہوتی ہے۔ صفر سے پچاس ڈگری تک کا درجہ بتاتا ہے کہ یہ بالکل خطرناک نہیں ہے یعنی ہوا میں گیسوں کا تناسب بالکل درست ہے۔ پچاس سے سو کی حد بتاتی ہے کہ گیسز نارمل مقدار سے زیادہ موجود ہیں لیکن یہ صحت کو نقصان نہیں پہنچا رہیں۔ اس کے بعد جب آپ سو سے ڈیرھ سو کی حد میں جائیں تو یہ حساس طبیعت کے لوگوں کے لیے مُضر صحت ہے۔ لہذٰا، وہ لوگ جنہیں سانس کی بیماری ہے یا بچے اور بوڑھوں کو متاثر کر سکتی ہے اور اگر یہ ڈیرھ سو سے دو سو تک ہو تو ریڈ زون میں آتا ہے اور لاہور کی ہوا تو اکثر اسی زون میں رہتی ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ آلودہ رہتی ہے۔
واضح رہے کہ ایئر کوالٹی انڈیکس کے مطابق پاکستان کا شہر لاہور دنیا کے آلودہ شہروں میں پہلے درجے پر ہے لیکن ہوا کے اس آلودہ معیار کے باوجود ابھی تک شہری انتظامیہ کی جانب سے کسی قسم کی ماحولیاتی ایمرجنسی کا بگل نہیں بجایا گیا۔ جبکہ، وزیر مملکت برائے ماحولیاتی تبدیلی زرتاج گل کا کہنا ہے کہ یہ سب افواہیں ہیں۔