فیصلے سنانے سے ان فیصلوں پر عمل درآمد کروانا زیادہ اہم ہوتا ہے

ریاست کے ادارے ایک دوسرے کے دست و بازو ہوتے ہیں اور سب مل کر ریاست کو تقویت بخشتے ہیں۔  اگر ان کے اندر مطابقت نہ رہے تو اسے اعضا کے مفلوج ہونے کے خطرے کی علامت کے طور پر لیا جاتا ہے اور اس کی بروقت تشخیص ضروری ہوتی ہے تا کہ کسی بڑے مرض سے دوچار ہونے سے قبل ہی علاج کو ممکن بنا کر خطرے سے بچا جا سکے۔

08:27 PM, 3 Aug, 2023

ڈاکٹر ابرار ماجد

سپریم کورٹ کے فیصلوں میں زبردستی کا عنصر ان کی ساکھ کو متاثر کر رہا ہے جس کی وجہ سپریم کورٹ کے اختلافات ہیں جن کی بنیاد قانونی نکات ہیں۔ سپریم کورٹ کے ججز میں فیصلوں پر اختلافات کوئی نئی بات نہیں اور نا ہی ان سے فیصلوں کی اتھارٹی پر کوئی خاص فرق پڑتا ہے بلکہ اکثریتی ججز کی رائے کو ہی فیصلہ سمجھا جاتا ہے اور اس پر عمل درآمد کروانا حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ لیکن جب ان اختلافات کی بنیاد کوئی ایسا نقطہ بن جائے جس سے سپریم کورٹ کے ججز یا بنچز کی اہلیت پر سوال کھڑے ہو جائیں تو پھر ضروری ہے کہ پہلے اس قانونی نقطے کو طے کر لیا جائے تا کہ بعد میں فیصلہ متنازعہ نہ ہو۔

ایسا ہی قانونی نقطہ پنجاب میں انتخابات کے انعقاد کے سپریم کورٹ کے فیصلے کی کارروائی کے دوران اٹھایا گیا تھا جس کو نظر انداز کیا گیا اور بعد میں وہ فیصلہ عمل درآمد کروانے سے قاصر رہا۔ اس کی وجہ یہ بنی کہ حکومت اسے چار تین کی نسبت سے فیصلہ تسلیم کرتی تھی اور وہ بنچ سے ججز کی مرضی پوچھے بغیر ہٹانے کو جائز نہیں سمجھتے تھے۔ ان کا مؤقف تھا کہ چونکہ ججز اپنی رائے کا اظہار کر چکے تھے اس لئے ان کو ان کی مرضی کے خلاف بنچ سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا تھا اور پھر بعد والے پانچ رکنی بنچ میں موجود ایک جج یحییٰ آفریدی نے بھی بنچ سے ہٹائے جانے والے ججز کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے اپنے نوٹ میں ان کی توثیق کی تھی۔ لہٰذا حکومت اس بنچ کو سات رکنی بنچ سمجھتی تھی اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے نو رکنی بنچ سے دو ججز کے مرضی سے ان پر اعتراضات کی وجہ سے علیحدگی کے بعد دو اور ججز جن میں اطہر من اللہ اور ایک اور جج کو علیحدہ کر دیا اور یوں انہوں نے بنچ کو پانچ ججز کا کر دیا جس سے فیصلہ متنازعہ ہو گیا اور اس پر عمل درآمد نہ ہوسکا جس کی اپیل ابھی بھی سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے اور فیصلے کے مطابق انتخابات کی تاریخ بھی گزر چکی ہے۔

اسی طرز پراب ایک دوسرا مقدمہ سپریم کورٹ میں چل رہا ہے جس میں سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل چیلنج کیا گیا ہے۔ اس میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور فوجی و سویلیں عدالتوں کے اختیارات کی بنیاد پر سویلیں کے ٹرائل پر اعتراضات لگائے گئے ہیں جس میں آئین کے آرٹیکل 4، 9، 10 اے، 175 اور آرمی ایکٹ کی دفعات کا بھی حوالہ دیا گیا ہے۔ ان درخواستوں میں سپریم کورٹ کے ہی ایک نو رکنی بنچ کے فیصلے کا بھی حوالہ دیا گیا ہے جس میں سویلیں کا آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالتوں میں ٹرائل غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔

اس کیس میں دوبارہ وہی الیکشن والے فیصلے والی صورت حال دہرائی جا رہی ہے۔ اس میں بھی دو ججز نے علیحدہ ہونے کی مرضی کا اظہار نہیں کیا تھا اور ان کو ان کی عدالتی رائے کے آ جانے کے بعد علیحدہ کر دیا گیا تھا جس میں انہوں نے سپریم کورٹ کے اختیار سماعت پر نقطہ اٹھاتے ہوئے یہ کہا تھا کہ سپریم کورٹ کے اختیارات میں یہ نہیں کہ وہ اس کیس کو سنیں۔ اسی طرح اب اس کیس میں بھی دو سینیئر ترین ججز جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس طارق مسعود نے بھی بنچ کی اہلیت پر قانونی نقظہ اٹھایا اور انہوں نے صاف الفاظ میں یہ کہا کہ وہ اپنے آپ کو بنچ سے علیحدہ نہیں کر رہے بلکہ وہ اس بنچ کی تشکیل کو قانونی طور پر جائز نہیں سمجھتے اور ان کی عدالتی رائے کے آ جانے کے بعد ان کو چیف جسٹس نے اپنے انتظامی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے بنچ سے علیحدہ کر کے بنچ کو سات رکنی بنا دیا جس میں ایک جج پر فریقین میں سے اعتراض کر دیا گیا اور انہوں نے رضاکارانہ طور پر اپنے آپ کو بنچ سے علیحدہ کر لیا اور یوں یہ بنچ سکڑ کر چھ ممبر کا رہ گیا ہے۔

اب اس بنچ میں بھی اہلیت پر قانونی نقظہ اٹھایا گیا ہے جس پر میں سمجھتا ہوں کہ پہلے اس کو زیر بحث لا کر کارروائی کو آگے بڑھانے سے پہلے طے کر لیا جانا چاہئیے تھا کہ آیا بنچ کی تشکیل قانونی طور پر جائز ہے۔ اور دوسرا اہم نقظہ یہ ہے کہ کسی بنچ کی تشکیل کا اختیار چیف جسٹس صاحب کے پاس تسلیم کر بھی لیا جائے، حالانکہ اس پر قانون بھی بن چکا ہے کہ بنچز کی تشکیل سپریم کورٹ کے تین سینیئر ججز کی کمیٹی کرے گی تو بھی ایک دفعہ تشکیل کے بعد اگر ججز کی عدالتی رائے آ جائے تو پھر ان کو صرف اس لئے علیحدہ کر دینا کہ ان کی رائے سے جان چھڑوا لی جائے کسی بھی صورت میں اخلاقی، آئینی اور قانونی طور پر مناسب نہیں لگتا۔ کیونکہ چیف جسٹس صاحب کے پاس بنچ کی تشکیل کے انتظامی اختیارات تو ہو سکتے ہیں مگر انتظامی اختیارات عدالتی رائے پر حاوی نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ سپریم کورٹ کے تمام ججز اہلیت و قابلیت کے اعتبار سے برابر ہوتے ہیں اور ان کی رائے کی بھی ایک جیسی ہی اہمیت ہوتی ہے۔ اکثریتی رائے کو اقلیتی پر ترجیح تو دی جا سکتی ہے مگر ججز کی رائے کو یکسر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

اس کیس میں الیکشن والے کیس کی طرح ججز پر بھی اعتراضات اٹھائے گئے ہیں جن میں سے ایک جج نے تو اپنے آپ کو علیحدہ کر لیا ہے مگر اس کے علاوہ تین ججز نے علیحدگی کی درخواست پر بھی توجہ نہیں دی اور اس کے علاوہ اس میں فریقین کی طرف سے سابقہ فیصلے کی طرح فل کورٹ کی استدعا بھی کی گئی تھی جسے مسترد کر دیا گیا ہے۔ جس سے ججز کے بارے عام رائے جس میں ان پر ہم خیال جیسے الزامات بھی لگائے جاتے رہے ہیں اور فیصلوں سے قبل ہی یہ پیش گوئیاں کر دی جاتی ہیں کہ فیصلہ کیا آئے گا اور پھر فیصلہ وہی آ جاتا ہے۔ جس کی اب ایک تاریخ بن چکی ہے اور یہ سلسلہ پانامہ سے شروع ہوا تھا اور اس پر کئی ناقابل تردید بیانات اور انکشافات بھی سامنے آ چکے ہیں جن سے سپریم کورٹ کے فیصلوں پر انگلیاں بھی اٹھائی گئیں اور اس پر سپریم کورٹ کے اندرسے بھی آرا سامنے آ چکی ہیں جن میں سپریم کورٹ کے فیصلوں کو مبینہ طور پرانصاف کی فراہمی کے متصادم قرار دیا گیا ہے۔ اس پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے سبکدوش ہونے والے جج شوکت عزیز صدیقی کے بیانات بھی منظر عام پر آ چکے ہیں جن میں عدلیہ کے اندر مبینہ طو ر پر فیصلوں پر اثر انداز ہونے کے انکشافات بھی کئے جا چکے ہیں جس پر ادارے کا فرض بنتا ہے کہ ان کی وضاحت پیش کرے یا اپنی غلطیوں کو درست کر کے ان کا ازالہ کرے۔

جہاں تک فل کورٹ کی استدعا کو مسترد کیا گیا ہے اس پر ماہرین کی آرا میں چیف جسٹس صاحب کے پاس بہت ہی اچھا موقع تھا کہ وہ اعتراضات کو ختم کرنے کے لئے فل کورٹ بنا دیتے جس سے بنچ کی اہلیت پر اٹھنے والے قانونی نقطے اور ججز کو علیحدہ کرنے کے اختیار پر اٹھنے والے سوالات بھی ختم ہو جاتے اور اس طرح کسی کے پاس بھی فیصلے پر عمل درآمد نہ کرنے کا کوئی جواز باقی نہ بچتا مگر وہ ایسا نہیں کر سکے۔ فل کورٹ کا بنانا اس لئے بھی موزوں تھا کہ چونکہ جس عدالت عظمیٰ کے فیصلے کا فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف حوالہ دیا جا رہا ہے وہ 9 رکنی بنچ کا فیصلہ ہے اور اگر وہ فل کورٹ کا ہوتا تو اس کے حوالے سے فیصلہ قوی ہوتا مگر اب فل کورٹ کی استدعا کے بعد اس کی تشکیل سے فیصلے کو تقویت دینا بھی ضروری ہوتا نظر آ رہا تھا اور اس سے ہم خیال ججز والا الزام بھی اپنا وزن کھو بیٹھتا۔ اس طرح یہ فیصلہ مستقبل میں بھی ایک مثال بن جاتا مگر اب اس پر عمل درآمد پر بھی ماضی کے صوبائی انتخابات والے فیصلے کی طرح کےعمل درآمد نہ ہونے کے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے جس کے اشارے حکومت کی طرف سے چھپے لفظوں میں مبینہ طور پر آ بھی رہے ہیں۔

یہ سب کچھ ملکی مفاد میں نہیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل درآمد نہ ہو سکے اور نا ہی ایسی مثالوں کے بعد سپریم کورٹ کے فیصلوں کی اتھارٹی کا وہ مقام رہے گا جو ماضی میں رہا ہے جن کے تحت وزرائے اعظم گھر چلے گئے اور حکومتیں ختم ہوتی رہیں۔ حتیٰ کہ فیصلوں میں آئینی تشریح کے لحاظ سے تضادات کے باوجود ان پر عمل درآمد ہوتا رہا۔ سپریم کورٹ کو بہرحال یہ خیال رکھنا چاہئیے کہ فیصلے اپنی غیر جانبداری اور شفافیت کے لحاظ سے بول کر اپنی گواہی خود دے رہے ہوں اور عوام کی رائے اس کی توثیق اور تصدیق کر رہی ہو اور فیصلوں سے زیادہ فیصلوں پر عمل درآمد اہم ہوتا ہے۔

تو سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا اس وقت عدالتوں کا احترام تھا کہ ایسے فیصلوں پر عمل ہوتا رہا؟ جب لاہور ہائیکورٹ کا جج اپنے ہی ہم مرتبہ پشاور ہائیکورٹ کے ایک جج کی عدالت کا فیصلہ ہی ختم نہیں کرتا بلکہ عدالت کو ہی کالعدم قراد دے دیتا ہے اوراس پر عمل درآمد بھی ہوتا ہے تو اس سے محسوس ہوتا ہے کہ ان فیصلوں کے پیچھے فقط احترام نہیں تھا بلکہ کوئی پر اسرار طاقت تھی جو فیصلوں پر عمل درآمد کی محرک تھی وگرنہ یہاں عدالتیں تو دونوں ہی ہم مرتبہ تھیں۔ دونوں عدالتوں کے جج بھی ہم مرتبہ تھے۔

پاکستان میں اگر قوانین کے اعتبار سے دیکھا جائے تو بے تحاشہ قوانین موجود ہیں مگر ان پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے مسائل جوں کے توں ہیں اور ان قوانین پر عمل درآمد کروانے کی اتھارٹی بھی عدالت کے پاس ہے اور اگر عدالت کے فیصلوں سے اس طرح سلوک ہونے لگ گیا تو پھر اس کے نتائج انتہائی پریشان کن ہو سکتے ہیں۔

سپریم کورٹ کے اندر اس طرح کے معاملات سے ادارے کی ساکھ ہی متاثر نہیں ہو رہی بلکہ اس سے عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد نہ ہونے کے سبب عوام کے اندر ایک تذبذب پیدا ہو رہا ہے اور ریاست کے اندر عدلیہ اور انتظامیہ کے اندر اس کشمکش سے ریاست کا امن، انصاف اور انتظام کے سبوتاژ ہونے سے ریاستی رٹ خراب ہوتی جا رہی ہے۔ جس نظام انصاف پر عوام کا اعتماد اٹھنا شروع ہو جائے یا اس کے فیصلوں پر عمل درآمد نہ ہونے کی روایت شروع ہو جائے تو پھر ریاست کا نظام انصاف ہی نہیں بلکہ قانون کی حکمرانی اور انسانی حقوق کی پاسداری بھی متاثر ہو جاتی ہے جس کو ختم کرنا ریاست کے ہر ذمہ دار پر فرض ہے کہ وہ اپنے آئین سے وفاداری کے حلف کو پورا کرتے ہوئے اپنے آپ کو اس کے تابع رکھے۔ اس کی حکمرانی کو یقینی بنائے تاکہ اس طرح کے تنازعات پیدا ہی نہ ہوں۔

ریاست کے ادارے ایک دوسرے کے دست و بازو ہوتے ہیں اور سب مل کر ریاست کو تقویت بخشتے ہیں۔  اگر ان کے اندر مطابقت نہ رہے تو اسے اعضا کے مفلوج ہونے کے خطرے کی علامت کے طور پر لیا جاتا ہے اور اس کی بروقت تشخیص ضروری ہوتی ہے تا کہ کسی بڑے مرض سے دوچار ہونے سے قبل ہی علاج کو ممکن بنا کر خطرے سے بچا جا سکے اور اگر طبیب ہی مریض کی جان کے درپے ہو جائے تو پھر سلامتی ناممکن بن جاتی ہے۔

مزیدخبریں