تکنیکی بندوبست کا عدالتی رائے پر حاوی ہونا قابل افسوس امر ہے

تکنیکی بندوبست کا عدالتی رائے پر حاوی ہونا قابل افسوس امر ہے
سپریم کورٹ کے تمام ججز اہلیت اور حیثیت کے اعتبار سے برابر ہوتے ہیں اور ان کی قانونی رائے اور فیصلے بھی برابر وزن رکھتے ہیں۔ ان میں کسی کو تھوڑی یا کسی کو زیادہ اہمیت نہیں دی جا سکتی۔ ہاں اکثریت کی رائے وزن کے اعتبار سے حاوی ضرور ہوتی ہے۔

حالیہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو اگر غور سے ملاحظہ کیا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے تکنیکی بندوبست کو عدلیہ کے جوڈیشل مائنڈ پر حاوی کرنے کی کوشش کی گئی ہو۔ جیسا کہ الیکشن پر سوموٹو پر 9 ججز کا لارجر بنچ بنایا گیا جس پر پہلے دن سے ہی اعتراضات، تحفظات اور مطالبات اٹھنے شروع ہو گئے اور یوں 2 ججز نے رضاکارانہ طور پر اپنے آپ کو بنچ سے علیحدہ کر لیا جبکہ 2 کو ان کی رائے کی پاداش میں الگ کر دیا گیا اور اس طرح بنچ سکڑ کر 5 کا رہ گیا اور یہ سب کچھ ڈرامائی انداز میں ہوا۔ تحفظات، اعتراضات اور مطالبات بھی کسی حد تک سکڑے مگر فیصلے سے متعلق پیش گوئیاں آخر میدان جیت گئیں۔ جیسا کہ فیصلے سے ایک دن قبل تک اس بات کی پیش گوئی حرکت میں تھی کہ تین دو کی اکثریت سے فیصلہ آنے والا ہے جس کی بنیاد ججز کا دوران سماعت آرا کا اظہار تھا جو سچ ثابت ہوا اور یوں اب ایک عدالتی فیصلہ اپنی آئینی طاقت سے آئین پر عمل درآمد کے لئے آئینی اداروں کو مجبور کرتا ہوا متحرک ہو چکا ہے۔

اب دیکھتے ہیں کہ جس طرح حکومت کی طرف سے بھی ایک تکنیکی بندوبست پہلے سے ہی الیکشن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھا اسی کی طرز پر سپریم کورٹ کے بندوبست نے اب اس کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔ آئین میں تو واضح لکھا ہوا ہے کہ اسمبلیوں کی مدت ختم ہونے یا معطل ہونے کی صورت میں 90 دن کے اندر الیکشن کروائے جائیں گے اور اس کا طریقہ کار اور اختیارات کا حل بھی دیا گیا ہے مگر حکومت اپنی یہ ذمہ دار پوری کرنے میں کچھ مشکلات کا سامنا ہونے کے پیش نظر اس کو طول دیتی ہوئی نظر آ رہی تھی۔

اب فیصلہ تو بہت ہی واضح اور سادہ ہے۔ سپریم کورٹ نے الیکشن کروانے بارے اپنے فیصلہ میں تین ججز کی رائے سے تاریخ کا اعلان کرنے کا اختیار واضح کر دیا ہے لیکن اپنے اختیار سماعت پر اٹھنے والے سوالات ابھی بھی جوابات ڈھونڈنے سے قاصر ہیں جن کی نشاندہی پر سوموٹو لیا گیا۔ ان کو شدید تنقید کی زد میں آ جانے کی وجہ سے بنچ سے اپنے آپ کو علیحدہ کرنا پڑا اور دو ججز نے جیسا کہ میں نے پہلے بھی ذکر کیا ہے جن میں جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنے اختلافی نوٹ میں سوموٹو اختیار کو ہی ناقابل سماعت لکھا جس کی بنیاد پر وہ بھی بنچ کا حصہ نہ رہ سکے مگر ان کی آرا کو ججمنٹ کا حصہ کہا گیا ہے اور ان کی آرا سے ہی اتفاق کرتے ہوئے دو ججز نے اختلافی نوٹ لکھا ہے۔

بہرحال اب فیصلہ آ چکا ہے جو حتمی ہے۔ حکومت اس پر عمل کروانے کی پابند ہے اور اس پر من و عن عمل ہونا بھی چاہئیے مگر حکومت کی اپنی مجبوریاں ہیں جن کا بندوبست ہر حال میں حکومت کو ہی کرنا ہے جن میں مالی اور سکیورٹی مسائل بھی بہت بڑا بندوبست ہے جس کا الیکشن سے پہلے ہر حال میں پورا ہونا بھی بے حد ضروری ہے۔ جن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حکومت تعطل کا جواز پیش کر سکتی ہے مگر اس کی پاداش میں ہو سکتا ہے ان کو کچھ قربانیاں بھی دینی پڑیں۔

اس سوموٹو کے دوران کچھ اور بھی پہلو زیرغور آئے جن میں سے چند تو جن کا پہلے بھی ذکر کیا گیا ہے ججز کا ختلافی نوٹ ہے جو چار کی تعداد میں تین ججز کے فیصلے کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھ رہا ہے اور پھر آئینی اور قانونی آرا بھی ہیں جن کی بنیاد صدر پاکستان کے اپنے وکیل کا اعتراف کہ صدر پاکستان الیکشن کروانے کی تاریخ دینے کا اختیار نہیں رکھتے اور ہائی کورٹس کے زیر التوا پٹیشنز اور کئی ایک اور بھی ایسے نکات ہیں جن سے اس فیصلے پر تنقید کے دروازے ابھی بھی کھلے ہیں جو اس پر عمل کروانے میں حائل ہونے کا کوئی قانونی اور آئینی جواز تو نہیں رکھتے مگر اخلاقی اعتبار سے یہ اپنے وجود کو بہرحال محسوس ضرور کروائیں گے۔

اب اسی فیصلے پر حکومت سمجھتی ہے کہ یہ فیصلہ تین چار کی نسبت سے آیا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ اس پر نظرثانی کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ جبکہ دوسری طرف سے یہ آواز آ رہی ہے کہ چیف جسٹس صاحب نے دو تین کی اکثریت سے الیکشن کروانے کا حکم صادر کیا ہے۔ اب اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ حکومت 90 دنوں میں الیکشن نہ کروا کر حکم عدولی کر رہی ہے تو ان کو پھر سے عدالت سے رجوع کرنا پڑے گا اور اس صورت حال میں سپریم کورٹ کو دوبارہ سے اس پر اپنی رائے دینی پڑے گی۔ جس پر دوبارہ تمام فریقین اپنا اپنا مؤقف رکھنے کا حق رکھتے ہیں اور پھر اس پر بھی بنچ بننے کا دوبارہ سے مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے۔

بنچز کی تشکیل کا اختیار پہلے سے ہی اعتراضات کی زد میں آ چکا ہے اور اس پر خود عدالت کے سینیئر ترین جج، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ جو اگلے چیف جسٹس ہوں گے نے سوال اٹھا دیے ہیں اور اس پر رجسٹرار سپریم کورٹ کو طلب کر کے ان سے اس بابت میں پالیسی بھی پوچھی ہے جس پر وہ لاجواب رہے اور انہوں نے کل اپنی عدالت کو وکلا سے معذرت کرتے ہوئے برخاست کر دیا کہ اس طرح بنچز کے توڑ موڑ سے سوالات جنم لیتے ہیں جو انصاف کے ہوتے ہوئے دکھنے میں رکاوٹ کا سبب ہیں۔ اس بات کا اظہار وہ پہلے بھی چیف جسٹس کے نام خط میں کرتے رہے ہیں اور اب یہ معاملہ عدالت میں نوٹسز تک پہنچ چکا ہے۔

جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے کہ اس معاملے پر دو ہائی کورٹس میں بھی پٹیشنز زیر التوا ہیں اور ان کا فیصلہ آنے تک حکومت انتظار کرے گی اور اس کے آنے کے بعد وہ اپنے اگلے لائحہ عمل کا اعلان کرے گی۔ البتہ الیکشن کمیشن ابھی سے اس پر عمل پیرا ہوتے ہوئے متعلقہ اختیاراتی عہدوں سے مشاورت شروع کر دے گا اور الیکشن کے انعقاد کے لئے اپنے فرائض کی ادائیگی میں لگ جائیں گے مگر ان کو فنڈنگ اور وسائل مہیا کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے جو الیکشن کے انعقاد کے لئے ناگزیر ہیں اور الیکشن کمیشن وسائل کے بغیر الیکشن کا انعقاد نہیں کروا سکتا۔

یہ الیکشن فوبیا جو ایک خاص طبقے کے حواس پر طاری ہے وہ موجودہ معاشی بدحالی کی صورت حال میں ہمارے مسائل کا حل قطعاً بھی نہیں کہا جا سکتا جس کی وجہ یہ ہے کہ ان دو صوبوں میں پہلے بھی پی ٹی آئی کی ہی حکومت تھی اور مرکز میں وہ دو ووٹوں کے فرق کے ساتھ موجود تھے اور اگر وہ اپنی اس پارلیمانی طاقت سے پہلے کوئی فائدہ یا کوئی معاشی حل دینے میں کامیاب نہیں ہو سکے تو اب کون سی ان کے پاس گیدڑ سنگھی آ جائے گی جس سے وہ بہتری کی یقین دہانی کروا سکتے ہیں۔ صوبوں میں چند ماہ پہلے حکومت بن جانے سے قومی الیکشن میں پھر سے ایک آئینی بحران کا خدشہ بھی وجود پا سکتا ہے۔ پہلے بھی اسمبلیوں کو توڑنے والی اس ناکام حکمت عملی نے آئینی بحران کو ہوا دی ہوئی ہے۔

آئین ہر ادارے کو اختیار دیتا ہے اور ان اختیارات کا استعمال بھی اس کا صوابدیدی اختیار ہے۔ کوئی اور ادارہ اس پر قدغن نہیں لگا سکتا۔ پارلیمان، الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ سب آئینی ادارے ہیں اور سب کے اختیارات اپنی اپنی جگہ پر موجود ہیں اور کسی کو بھی دوسرے کے اختیارات کے اندر دخل اندازی نہیں کرنی چاہئیے اور وہ بھی آئین کی روح کے خلاف بندوبست کے ذریعے سے۔

اداروں کے آئینی اختیارات کے استعمال میں بھی آئینی روح سے زیادہ کوئی اور روح بولتی ہوئی نظر آتی ہے اور یہ سب کچھ اسی آئین کی موجودگی میں زمانے کی آنکھ نے دیکھا ہے جس کے شواہد چیخ چیخ کر دہائی مچا رہے ہیں مگر ان پر کوئی کان دھرنے کے لئے تیار ہی نہیں ہے۔ جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس فائز عیسیٰ بھی اسی عدالت کے قابل احترام ججز ہیں اور ان کی آرا بھی عوام کے سامنے ہیں۔ اسی طرح پچھلے 75 سالوں کے فیصلے اور خاص کر پچھلے پانچ چھ سال کے فیصلے بھی عوام کے سامنے ہیں جن پر نظام عدل کے اندر سے شہادتیں موجود ہیں جن کی آج تک کسی بشر نے نفی نہیں کی جو کسی نادیدہ، ناقابل بیان اور غیر آئینی بندوبست کی دلیل ہیں۔

تو پھر کہا جا سکتا ہے کہ اداروں کے آئینی اختیارات اپنی جگہ مگر ان کے استعمال کے پیچھے نادیدہ طاقتوں کے بندوبست سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا جس کی بنیاد پر ادارے اپنے آئینی اختیارات کو استعمال کرنا باعث شرف سمجھتے ہیں اور اگر اس بار بھی یہ بندوبست کامیاب نہ ہو سکے تو ممکن ہے کہ پھر سے اسی نادیدہ طاقت کو ہی کوئی بندوبست تجویز کرنا پڑے۔

ایسے تکنیکی بندوبست جو آئینی اختیارات کے نام پر وجود پاتے ہیں ان کے آئینی اور قانونی ہونے سے انکار تو نہیں مگر ان کا آئین کی روح اور اکثریتی جوڈیشل رائے سے متصادم اور اس پر حاوی ہوتا ہوا دکھائی دینا قابل افسوس ضرور ہے۔