فیصلے عدلیہ کے ہوں، پارلیمان کے یا عوام کے؛ فیصلے ہی ہوتے ہیں اور ان کے اثرات نہ صرف فریقین پر بلکہ فیصلے کرنے والوں پر بھی پڑتے ہیں۔ فیصلوں سے نہ صرف سزا اور جزا کا تعین ہوتا ہے بلکہ ان سے فیصلہ کرنے والوں کی ساکھ کا بھی تعین ہوتا ہے۔ فیصلوں کا معیار اگر تو انصاف اور اصولوں پر مبنی ہو تو یہ قوموں کی تقدیر کو عروج پر لے جاتے ہیں اور اگر ان کا معیار کچھ اور ہو تو پھر اس سے بڑا قوموں کا زوال کوئی نہیں ہوتا۔
ریاستوں کو احسن طریقے سے چلانے کے لئے ضابطہ جس کو ریاست کا آئین کہا جاتا ہے، پر پابندی سے ہی ملکی معاملات کو احسن طریقے سے چلایا جاسکتا ہے اور ان سے انحراف کی صورت میں ملک کا نظام درہم برہم ہونے کا خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔
آج کل وطن عزیز میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کو بظاہر تو آئینی بحران کا نام دیا جا رہا ہے مگر درحقیقت یہ معاملہ آئینی نہیں بلکہ اخلاقی بحران کا ہے جس کا حل شاید آئین میں بھی موجود نہیں۔ اس سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جن قوموں کا اخلاق اعلیٰ ہوتا ہے وہ روایات کو بھی اپنا آئین سمجھتے ہیں اور اس سے انحراف کو اپنی سیاسی، قومی اور اجتماعی موت سمجھتے ہیں جیسا کہ برطانیہ میں آپ دیکھ سکتے ہیں۔ اور جن کی اخلاقی حالت گراوٹ کا شکار ہو وہ آئینی مسودہ ہونے کے باوجود ہمیشہ اس سے فرار کی راہیں تلاش کرتے رہتے ہیں اور اپنے آپ کو بدلنے کے بجائے ہمیشہ آئینی مسودے کو ہی بدلنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ جیسا کہ ہماری تاریخ ہے کہ ہم نے 70 سالوں میں کیسے ضابطے بنائے، ختم کئے اور ان میں تحاریف اور ترامیم کرتے رہے اور آج بھی ہماری سوچ وہیں کھڑی ہے۔
ہم اپنے آئینی اختیارات کو ملک و قوم کی امانت نہیں سمجھتے بلکہ ان کو اپنی انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں اور پھر اس انا کو آئین کے تابع لانے کے لئے ہمیں آئین و قانون کو بدلنے کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔ آئینی اصلاحات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے جس کی ایک کڑی اٹھارویں ترمیم تھی اور آج کل چیف جسٹس کے اختیارات پر قانون سازی ہو رہی ہے۔ اس سارے معاملے کی بنیاد آئین میں کسی قسم کی کمی، بہتری یا اصلاح سے کم اور ذاتی خواہشات، مفادات اور ترجیحات سے زیادہ ہے۔
جہاں ہمیں اپنی ضرورت پوری ہوتی ہوئی نظر آتی ہے وہاں ہم آئین کی حکمرانی کی بات کر لیتے ہیں اور جہاں آئین ہماری ضرورت پوری نہیں کر رہا ہوتا وہاں ہم حکمرانی کو ہی آئین بنا لیتے ہیں۔
جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا ہے کہ یہ کوئی آئینی بحران نہیں بلکہ اخلاقی بحران ہے جس کی بنیاد ذاتی مفادات، خواہشات اور ترجیحات کے گرد گھومتی ہوئی ہماری سوچ ہے جو کہ ہماری اکثریت کی عکاس ہے اور اس سوچ کے حامل افراد جہاں بھی بیٹھے ہوتے ہیں وہ اپنے ذاتی مفادات، خواہشات کو قومی اور ملکی مفادات پر ترجیح دیتے ہوئے فیصلے کرتے ہیں جن کا آئین سے تعلق محض موافقت کی حد تک ہوتا ہے۔ اگر موافق آ جائے تو اس کی بہت خوب ترویج کی جاتی ہے اور اگر موافق نہ ٹھہر رہا ہو تو پھر کوئی اور راہ نکال لی جاتی ہے جس کی مثالیں مختلف نظریات کی صورت میں آپ کے سامنے موجود ہیں۔ جیسا کہ نظریہ ضرورت اور قوم و ملک سے غداری کی فرضیہ داستانیں وغیرہ وغیرہ۔
موجودہ حالات کو دیکھیں تو آئین میں واضح درج ہے کہ الیکشن 90 دنوں میں ہونے چاہئیں جس پر کسی کو بھی اعتراض نہیں ہے مگر اس پر عمل درآمد ضد کا شکار ہے اور یہ ضد ایک طرف سے نہیں دونوں اطراف سے ہے بلکہ تینوں اطرف سے ہے۔
تحریک انصاف پنجاب میں الیکشن چاہتی ہے۔ اب اگر سوچا جائے تو ان کو الیکشن کی بنیاد پر زیادہ سے زیادہ پنجاب یا ان دو صوبوں میں ہی حکومت مل سکتی ہے جسے انہوں نے خود اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کی بنیاد پر ختم کیا ہے۔ تو اتنی بڑی مشق اور وسائل کے ضیاع کے بعد حاصل کیا ہو گا؟ بلکہ اگلے مرکزی اور دوسرے صوبوں کے انتخابات میں غیر جانبداری جیسے سوالات جنم لے سکتے ہیں۔
اسی طرح دوسری طرف حکومت بھی الیکشن کروانے میں آئین سے انحراف کرنے کے بندوبست تلاش کر رہی ہے جس کی بنیاد ان کی گرتی ہوئی عوامی مقبولیت ہے یا ان کے کچھ معقول جواز ہوں، بہرحال آئین اس پر شرمندہ ضرور ہو رہا ہو گا۔
اسی طرح عدالت عظمیٰ کے اندر رائے کی تقسیم اور پھر اس پر اختیارات کے بندوبست کے ذریعے سے بنچز بنا کر یہ ضد کرنا کہ ہم مخصوض ججز نے ہی آئین پر عمل درآمد کروانا ہے اور سب کے اعتراضات اور تحفظات کو نظر انداز کرتے ہوئے اور زبردستی آئین و قانون کی خدمت کا تاثر دینے والا منظر نامہ بھی ضد کے خدوخال پیش کر رہا ہے۔ اگر انصاف اور نظام انصاف کی بہتری اور حکمرانی ہی منشا ہو تو پھر بہتر تھا کہ فل کورٹ کے مطالبے کو مان کر تمام فریقین کو سنے جانے کا موقع فراہم کرنے کے بعد فیصلہ سامنے آتا تا کہ کسی کو بھی انگلی اٹھانے کا موقع نہ ملتا۔
مگر ایسا ہوا نہیں اور اب بہت کچھ ہونے کے خدشات جنم لے رہے ہیں۔ ہر کوئی اپنی انا، ضد اور ہٹ دھرمی کو بندوبست کے ذریعے سے پورا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ وہی پرانی تاریخ کو دہرانے کی کوشش کی جا رہی ہے جو انتہائی قابل افسوس ہے۔