بلدیاتی خود حکمرانی اور مالیاتی لامرکزیت کے بغیر معاشی ترقی ممکن نہیں

 ہماری وفاقی اور صوبائی پارلیمان فن لینڈ کی اس اختراع سے سیکھ سکتے ہیں۔ یہ نظام خود حکمرانی  پاکستان کے مقدر کو مختصر وقت میں بدل سکتا ہے۔ ہمارے پاس وسائل ہیں لیکن فن لینڈ اور دیگر ممالک کی طرح خود حکمرانی کا نظام موجود نہیں ہے۔

04:37 PM, 23 Nov, 2024

حذیمہ بخاری، ڈاکٹر اکرام الحق

مالیاتی اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کے تصور کا لازمی جزو ٹیکس اور اخراجات کے اختیارات کو ذیلی سطح کی حکومتوں، یعنی مقامی حکومتوں، کو منتقل کرنا ہے۔ ہمارے سیاق و سباق میں، مقامی حکومتیں وہی ہیں جو آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 140 اے کی واضح ہدایات کے باوجود اب تک سیاسی، انتظامی اور مالیاتی اختیارات کی منتقلی سے محروم ہیں۔

8 فروری 2024 کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے عام انتخابات کے عمل کی تکمیل کے بعد یہ امید کی جا سکتی تھی کہ آئین کے آرٹیکل 140 اے کے نفاذ کا مسئلہ تمام منتخب اراکین، چاہے ان کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو، سنجیدگی اور ہنگامی بنیادوں پر حل کریں گے، مگر تا حال اس پر کوئی بھی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ یہ آرٹیکل، جو آئینی (اٹھارہویں ترمیم) ایکٹ 2010 کے ذریعے آئین میں شامل کیا گیا تھا اور صدرِ پاکستان کی منظوری کے بعد 19 اپریل 2010 کو نافذ ہوا، 14 سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود عملی طور پر نافذ نہیں ہو سکا۔

آرٹیکل 140اے کے مطابق: 'ہر صوبہ قانون کے ذریعے ایک مقامی حکومت کا نظام قائم کرے گا اور سیاسی، انتظامی اور مالیاتی ذمہ داری اور اختیار منتخب نمائندوں کو منتقل کرے گا۔ مقامی حکومتوں کے انتخابات کروانا الیکشن کمیشن آف پاکستان (ECP ) کی ذمہ داری ہے'۔

مقامی حکومتوں کی اہمیت

آئینی نظامِ جمہوریت کے تحت مقامی حکومتوں کا نظام پاکستان کی اشد ضرورت ہے، کیونکہ یہ منتخب افراد کو مالیاتی اختیارات کی منتقلی پر زور دیتا ہے۔ فی الحال، زیادہ تر مالیاتی اختیارات وفاقی حکومت یا صوبائی حکومتوں کے پاس مرکوز ہیں۔

ایک طرف وفاقی حکومت نے صوبوں کے اپنے دائرہ کار (territorial jurisdiction)میں اشیا پر سیلز ٹیکس عائد کرنے کے حق کو غصب کر رکھا ہے، جو آزادی سے پہلے ان کو گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 کے تحت حاصل تھا۔ دوسری طرف، صوبے آئین کے آرٹیکل 140 اے کے مطابق مقامی حکومتوں کو سیاسی، انتظامی اور مالیاتی اختیارات منتقل کرنے سے گریزاں ہیں۔ ہماری آئینی عدالتوں نے بھی آرٹیکل 140 اے کے نفاذ کے ضمن میں دائر کیسز میں عدم دلچسپی کا مظاہرہ کیا، اور اب معاملہ 26 ویں آئینی ترمیم  کے بعد آئینی بنچوں کے اختیار میں ہے۔ اختیارات کی غیر آئینی مرکزیت کے نتیجے میں عوامی جمہوری نظام اور فلاحی ریاست کا قیام پاکستان میں جڑ نہیں پکڑ سکا۔

اس وقت زیادہ تر وسیع البنیاد (broad based)ٹیکس لگانے کے اختیارات آئینی طور پر وفاقی حکومت کے پاس ہیں۔ مجموعی ٹیکس آمدنی میں صوبوں کا حصہ صرف 7.7 فیصد ہے، جبکہ مجموعی قومی آمدنی (ٹیکس اور غیر ٹیکس آمدنی) میں ان کا حصہ محض 7.2 فیصد ہے۔ اس صورت حال نے صوبوں کو قابل تقسیم محاصل کے لیے وفاقی حکومت پر شدید انحصار کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔

ہم ان ممالک سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں جنہوں نے مالیاتی اختیارات کی مقامی منتخب حکومتوں کو منتقلی اور اس کی لامرکزیت کا ہدف کامیابی سے حاصل کیا ہے۔ مثال کے طور پر فن لینڈ میں بلدیاتی ادارے اپنے منتخب شہریوں کے ذریعے مکمل مالی آزادی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ان بلدیاتی اداروں کو لوکل گورنمنٹ ایکٹ 1995 کے تحت میونسپل ٹیکس عائد کرنے کا حق حاصل ہے۔ مقامی بلدیاتی حکام وہ تمام فرائض انجام دیتے ہیں جو انہیں قانون کے تحت خودمختاری کے طور پر تفویض کیے گئے ہیں۔ اس قسم کا مقامی حکومتوں کا خود حکمرانی کا نظام دستور پاکستان کے آرٹیکل 140اے کی خلاف ورزی کے سبب، مکمل طور پر ناپید ہے۔

فن لینڈ میں مقامی خود حکمرانی کے مخصوص دائرے میں آنے والے وسیع فرائض میں تعلیم، صحت کی دیکھ بھال اور سماجی بہبود کی خدمات شامل ہیں۔ مزید براں، بلدیات ان معاملات کی ذمہ دار ہیں جو رہائشیوں کے فارغ وقت، تفریح، رہائش، اور ان کے رہائشی ماحول (یعنی سڑکیں، گلیاں، پانی کی فراہمی اور نکاسی آب) کے انتظام اور دیکھ بھال سے متعلق ہیں۔ نیز اراضی کے استعمال کی منصوبہ بندی اور فنکشنل میونسپل ڈھانچے (muncipal structures) بھی ان کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔

ٹیکس کی آمدنی فن لینڈ میں بلدیاتی مالیات میں اہم کردار ادا کرتی ہے، جبکہ ہمارے بلدیاتی ماڈل میں اس کی کمی واضح ہے۔ ٹیکس عائد کرنے اور جمع کرنے کا اختیار مقامی خود حکمرانی  کی بنیادوں میں سے ایک ہے۔ یہ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ بلدیات ان فرائض کو مؤثر طریقے سے انجام دے سکیں جنہیں انجام دینے کے لیے انہیں منتحب کیا گیا ہے یا جن کے وہ قانون کے تحت ذمہ دار ہیں۔

فن لینڈ میں سب سے اہم ٹیکس میونسپل ٹیکس ہے۔ 2023 میں فن لینڈ کے مین لینڈ میں میونسپل ٹیکس کی شرح 4.36 فیصد سے لے کر 10.86 فیصد تک تھی۔ اوسط میونسپل ٹیکس کی شرح% 7.38 تھی۔ 2023 میں میونسپل ٹیکس کی کل وصولی € 16 ارب یورو تھی۔ کارپوریٹ انکم ٹیکس €6 ارب یورو سے تھوڑا زیادہ، اور رئیل اسٹیٹ تقریباً €4 ارب یورو تھا۔ یہ پاکستان کے وفاقی بورڈ آف ریونیو(FBR ) کے مالی سال 2023-24 میں مجموعی ٹیکس وصولی 9311ارب روپے سے زیادہ ہے!

فن لینڈ میں مقامی خود حکمرانی  سے متعلق ایک مرکزی آئینی اصول یہ ہے کہ جب نئی ذمہ داریاں بلدیات کو تفویض کی جاتی ہیں تو ریاست کو یہ بھی یقینی بنانا ہوتا ہے کہ ان کے پاس انہیں پورا کرنے کے لیے ضروری وسائل موجود ہوں۔ فن لینڈ میں ریاست اور مقامی حکام کے درمیان ایک مضبوط اور مؤثر تعلق ہے، نیز ایک ریاستی سبسڈی سسٹم موجود ہے جو بلدیاتی وسائل اور رہائشیوں کو خدمات تک یکساں رسائی فراہم کرتا ہے۔

 ہماری وفاقی اور صوبائی پارلیمان فن لینڈ کی اس اختراع سے سیکھ سکتے ہیں۔ یہ نظام خود حکمرانی  پاکستان کے مقدر کو مختصر وقت میں بدل سکتا ہے۔ ہمارے پاس وسائل ہیں لیکن فن لینڈ اور دیگر ممالک کی طرح خود حکمرانی کا نظام موجود نہیں ہے۔ نتیجتاً، حقیقی سیاسی اور مالی طاقت مراعات یافتہ طبقات کے پاس ہے نہ کہ عوام کے پاس۔ فن لینڈ کی طرح ہمیں فلاحی ریاست کے ماڈل کی طرف بڑھنا ہوگا، جو زیادہ تر اس خیال پر مبنی ہو کہ بلدیات (muncipalities)خدمات کے پیدا کنندہ اور فراہم کنندہ ہیں۔

بدقسمتی سے پاکستان میں وفاقی حکومت نے بے رحمی سے صوبوں کے حقوق پر تجاوز کیا ہے، جیسے کہ 2001 کے انکم ٹیکس آرڈیننس کے تحت خدمات پر فرضی (presumptive)ٹیکس عائد کرنا، گیس، بجلی اور ٹیلی فون خدمات پر سیلز ٹیکس اور کئی خدمات پر ایکسائز ڈیوٹی — مرکز اور صوبوں کے درمیان ہم آہنگی: مالی حقوق کی منصفانہ تقسیم کی ضرورت، بزنس ریکارڈر، 13 مارچ 2006

ٹیکس کے معاملات میں وفاقی ناانصافی نے صوبوں کو ان کے آئینی حقوق سے محروم کیا ہے اور انہیں مالی طور پر مفلوج کر دیا ہے۔ یہاں تک کہ ساتویں نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ  نے بھی صوبوں کے وفاق پر انحصار کے مسئلے کو حل نہیں کیا کیونکہ ایف بی آر نے سال ہا سال متوقع ٹیکس جمع کرنے میں مکمل طور پر ناکامی کا سامنا کیا ہے۔ 

 ہمیں کینیڈا اور بھارت، جو ہماری طرح کے وفاقی نظام والے ممالک ہیں، کی طرح اشیا (goods)اور خدمات(services ) پر ہم آہنگ سیلز ٹیکس (HST ) یا مربوط سیلز ٹیکس (unified sales tax) متعارف کرانا ہوگا۔ ٹیکس وصولی کی تقسیم البتہ آئین کے آرٹیکل 160 کے تحت منصفانہ اور جائز طریقے سے ہی ہو گی۔ یہ یاد دہانی کے طور پر بیان کرنا لازم ہے کہ آزادی کے وقت اشیا پر سیلز ٹیکس عائد کرنے کا حق صوبوں کے پاس تھا۔ وفاقی حکومت نے غیر منصفانہ ٹیکس عائد کر کے اور صوبوں کو ان کے جائز حصے سے محروم کر کے اس حق کو غصب کیا، مگر وہ مالیاتی خسارہ پورا کرنے میں پھر بھی ناکام رہی، جو موجودہ مالی سال کے آخر میں 8.5 کھرب روپے کی خوفناک سطح تک پہنچ جائے گا۔

آزادی کے بعد سے مرکزیت پسند ذہنیت نے کبھی صوبوں کو اپنی آمدنی کے وسائل پیدا کرنے کی اجازت نہیں دی، خصوصاً اشیا پر سیلز ٹیکس کے ذریعے۔ اس کے نتیجے میں اقتصادی افراتفری پیدا ہوئی ہے۔ ہم اسے ایک معقول اور ترقی پر مبنی ٹیکس پالیسی اپنانے کے ذریعے بچا سکتے تھے، جس میں وفاقیت پر مبنی ٹیکس وصولی کا نظام ہو۔ ایف بی آر کا یہ دعویٰ کہ صوبوں کے پاس سیلز ٹیکس مؤثر طریقے سے وصول کرنے کے لیے انفراسٹرکچر نہیں ہے، ایک ایسا رویہ ہے جو نوآبادیاتی سوچ کا عکاس ہے۔

 ایک طرف ہم نے صوبوں کو اپنے وسائل پر خودمختاری کے حق سے محروم کر دیا، اور دوسری طرف وہ پیسہ جو ان کا تھا، وفاقی ٹیکس کے طور پر دھوکہ دہی سے جمع کیا گیا، جیسے کہ خدمات پر فرضی (presumptive)ٹیکس اور وفاقی ایکسائز ڈیوٹی، جس میں سے بعد میں ان کو حصہ ساتویں نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ کے تحت سخاوت کے طور پر دیا گیا۔ یہ زیادتی پر مزید زیادتی کے مترادف تھا اور اب تک جاری ہے۔

صوبوں کو اپنی حدود میں پیدا ہونے والی اشیا اور خدمات پر بالواسطہ ٹیکس عائد کرنے کا حق ہونا چاہیے اور انہیں مقامی بلدیاتی حکومتوں کو بھی مالیاتی اختیارات تفویض کرنے چاہئیں تاکہ مقامی رہائشیوں کے لیے خدمات فراہم کی جا سکیں۔ صوبوں کا بلدیاتی نظام اور صوبائی مالیاتی کمیشن قائم نہ کرنا اور منتخب عوامی ارکان کو مالیاتی اختیارات نہ دینا 18 ویں آئینی ترمیم سے کھلا گریز ہے۔

اس کے علاوہ صوبوں کی زرعی آمدنی (agricultural income) پر دستور پاکستان کے آرٹیکل 260 میں درج شدہ تعریف(definition ) کے مطابق ٹیکس جمع کرنے کی کارکردگی بھی انتہائی ناقص ہے۔ یہ ایک عمومی مسئلہ ہے جو وفاقی اور صوبائی سطح پر ایک جیسا دکھائی دیتا ہے کیونکہ طاقتور اور امیر طبقے سے انکم ٹیکس وصول کرنے کی سیاسی خواہش(political will ) کا فقدان ہے — موجودہ صوبائی قوانین کے باوجود زرعی آمدنی پر ٹیکس کی کم وصولی ایک سنگین مسئلہ ہے۔

دستور پاکستان میں ترمیم ضروری ہے کہ آمدنی، بشمول زرعی آمدنی، پر ٹیکس عائد کرنے کا اختیار وفاقی حکومت کے پاس ہو۔ اس ترمیم کی عدم موجودگی میں عالمی مالیاتی فنڈ (IMF) نے پاکستان سے تقریباً 7 بلین امریکی ڈالر کا 37 ماہ کی مدت کا توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) معاہدہ کی کامیابی کو صوبائی زرعی انکم ٹیکس کے مروجہ قوانین میں قانون سازی کے ذریعے وفاقی انکم ٹیکس میں شخصی اور کارپوریٹ انکم ٹیکس کی لاگو شرح کے ساتھ مکمل ہم آہنگی سے مشروط کر دیا ہے۔ صوبوں نے اس ضمن میں قانون سازی کی 31 اکتوبر2024 کی معیاد اور یکم جنوری 2025 سے نافذ العمل ہونے کی شرط کو پورا نہیں کیا۔

ایک طرف تو صوبے 18 ویں آئینی ترمیم کے بعد امیر طبقات پر بلاواسطہ ٹیکسز نافذ کرنے سے گریزاں ہیں اور دوسری طرف وفاقی حکومت حقیقی ٹیکس وصولی کی صلاحیت کو پوری طرح سے استعمال کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہے، جو صرف وفاقی سطح پر جی ڈی پی کے 15 فیصد کے حساب سے 20 کھرب روپے سے کم نہیں ہے۔ ایف بی آر پچھلے سال 9415 ارب روپے تک بھی جمع نہیں کر سکا، جو بجٹ میں دیا گیا اصل ہدف تھا۔

ایف بی آر کی حقیقی ٹیکس صلاحیت کو حاصل کرنے میں ناکامی پاکستان کا اصل مسئلہ ہے۔ ایف بی آر کی خراب کارکردگی صوبوں پر منفی اثر ڈالتی ہے کیونکہ وہ مکمل طور پر اس بات پر انحصار کرتے ہیں کہ وفاقی حکومت کیا جمع کرتی ہے اور انہیں قابل تقسیم پول سے کتنا منتقل کرتی ہے۔ وفاقی حکومت صوبوں کو ان کے جائز ٹیکس کے حقوق دینے کو تیار نہیں ہے، جبکہ وہ خود اتنی کم رقم جمع کرتی ہے کہ صوبوں کی مجموعی مالی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہے۔ تقسیم شدہ پول کا سائز اتنا چھوٹا ہے کہ قرضوں سے نجات پانے اور عوام کی فلاح کے لیے مناسب خرچ کرنے کے لیے کچھ بھی قابل ذکر نہیں کیا جا سکتا، چاہے وہ ملک کے کسی بھی حصے میں رہتے ہوں۔

ایف بی آر کا ریکارڈ یہ ظاہر کرتا ہے کہ اگلے تین سالوں میں 15 کھرب روپے تک جمع کرنے کی توقع بہت کم ہے تاکہ وفاق اور صوبوں کو موجودہ اقتصادی بحران سے نکلنے کے لیے کافی مالی گنجائش مل سکے، اس طرح غریبوں کے ساتھ ساتھ تجارت اور صنعت کو بھی کچھ ریلیف ملے۔ دیے گئے منظرنامے کے تحت، وفاق اور صوبوں کے درمیان ٹیکس کے مسائل حل نہیں ہوں گے اور مقامی حکومتوں کے ذریعے مزید ٹیکس لگانا کوئی مفید مقصد پورا نہیں کرے گا — لوگوں کو کوئی ریلیف نہیں ملے گا، بلکہ ٹیکس کا بوجھ کئی گنا بڑھ جائے گا۔

اگر بنیادی ڈھانچہ جاتی اصلاحات نہیں کی جاتیں تو پاکستان قرضوں کی غلامی میں پھنسا رہے گا اور زیادہ سے زیادہ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے چلے جائیں گے۔ اگر ہم اس بحران سے نکلنا چاہتے ہیں، تو پارلیمنٹ کو وفاق اور صوبوں کے مابین اور صوبوں کو اپنے اور مقامی حکومتوں کے درمیان موجودہ آئینی معاہدے پر نظرثانی کرنی ہو گی۔ صوبائی خودمختاری اور بلدیاتی خود حکمرانی، بغیر ٹیکس کے حقوق، فلاحی ریاست کے قیام،طاور آمدنی و دولت کی منصفانہ تقسیم، بے معنی ہیں۔

ہم معاشی اور سیاسی بحرانوں پر قابو نہیں پا سکتے جب تک کہ صوبوں کو حقیقی خودمختاری نہ دی جائے؛ تمام وسائل پر ملکیت کا حق، اپنی آمدنی پیدا کرنے کا اختیار اور اسے اپنے رہائشیوں کی فلاح کے لیے استعمال کرنے کا خصوصی حق نہ دیا جائے۔ مالیاتی لامرکزیت (fiscal decentralisation) اور بلدیاتی خود حکمرانی (self-governance)کو ایک ایسی سماجی پالیسی سے جوڑا جانا چاہیے جو تمام رہائشیوں کے لیے سماجی فوائد اور خدمات تک رسائی کے اصول پر مبنی ہو۔ ٹیکس لگانے کا حق بغیر نمائندگی کے، اس بات کا انکار بھی ہے کہ آئین کے تحت ضمانت دیے گئے بنیادی حقوق کے لیے اخراجات فراہم ہی نا کیے جائیں — بلدیاتی خود حکمرانی، بزنس ریکارڈر، 19 جولائی 2013

فن لینڈ میں بلدیاتی نظام کے ذریعے نافذ کی جانے والی اختراع یونیورسل انٹائٹلمنٹس (universal entitlements ) کی پالیسی کو پڑھنا قابلِ غور ہے۔ سول سوسائٹی کو پاکستان کی صوبائی اسمبلیوں پر دباؤ ڈالنا چاہیے تاکہ وہ آئین کے آرٹیکل 140 الف کے تحت وہ قوانین منظور کریں جن کی بات اوپر بیان کردہ سماجی پالیسی میں کی گئی ہے — اب تک انہوں نے صرف پرانے اور غیر مؤثر قوانین کی نقل کی ہے، جن میں کہیں کہیں کچھ اضافی ترامیم کی گئی ہیں۔

حکومتی طبقات عوام کو خود حکمرانی کے ذریعے مضبوط دیکھنا نہیں چاہتے۔ وہ وسائل پر مکمل کنٹرول رکھنا چاہتے ہیں۔ مقامی حکومتیں اور بلدیاتی نظام تب ہی مؤثر ہوں گے جب انہیں قومی اقتصادی پالیسی کے تحت اپنے مناسب مالی وسائل ملیں گے، جنہیں وہ اپنے اختیارات کے دائرے میں آزادانہ طور پر عوامی فلاح کے لیے خرچ کر سکیں۔

مختصراً، مالیاتی لامرکزیت کے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے مقامی حکومتوں کے مالی وسائل کو آئین اور قانون کے مطابق دی گئی ذمہ داریوں کے ساتھ ہم آہنگ ہونا چاہیے تاکہ لوگوں کی فلاح کی ضمانت دی جا سکے اور نچلی سطح پر پائیدار ترقی کو یقینی بنایا جا سکے۔ مقامی حکومتوں کے مالی وسائل کا ایک حصہ مقامی ٹیکسوں سے حاصل کیا جانا چاہیے اور اسے بنیادی ضروریات (یونیورسل انٹائٹلمنٹ) اور ترقی کے لیے خرچ کیا جانا چاہیے۔ پاکستان کو فن لینڈ جیسے فلاحی ریاستوں کے ماڈل کی پیروی کرنی چاہیے، جہاں خود حکمرانی کے اصول پر مبنی مقامی حکومتوں اور بلدیاتی اداروں کو دستیاب وسائل اتنے متنوع اور مضبوط ہیں کہ وہ اپنے کاموں کے اخراجات میں حقیقی ارتقا کے ساتھ ہم آہنگ رہ سکیں۔

مزیدخبریں