15 سال تک نیا این ایف سی ایوارڈ نہ لانا پارلیمنٹ کی ناکامی ہے

مالی سال 2023-24 کا بجٹ اسمبلی میں پیش کرتے ہوئے محترم فنانس منسٹر اسحاق دار نے قوم کو اطلاع دی کہ صوبوں کے حصے کے وسائل ساتویں این ایف سی ایوارڈ 2009 کے مطابق طے پائے ہیں۔ گویا 2024 میں بھی 2009 کے این ایف سی ایوارڈ پر عمل ہو رہا ہے۔

15 سال تک نیا این ایف سی ایوارڈ نہ لانا پارلیمنٹ کی ناکامی ہے

پاکستان میں مالی سال 2015-2016 سے لے کر جاری مالی سال 2023-2024 تک کے ہر وفاقی بجٹ میں ہر منتخب حکومت نے اس شرمناک حقیقت کو تسلیم کیا کہ صوبوں کے مابین وسائل کی تقسیم ساتویں این ایف سی (نیشنل فنانس کمیشن) ایوارڈ کے مطابق جاری ہے جس پر 30 دسمبر 2009 کو دستخط ہوئے اور صدر پاکستان کے حکم نامہ 5 آف 2010 کے بعد یکم جولائی 2010 کو یہ نافذ ہوا۔ دستور پاکستان کے مطابق اس ایوارڈ کی مدت پانچ سال مقرر تھی جو 30 جون 2015 کو ختم ہو گئی تھی۔ اس کے بعد 10 سال تک ہر وفاقی بجٹ میں دستور پاکستان کی کھلی خلاف ورزی پر کسی منتخب حکومت کو کوئی شرمندگی ہوئی اور نا ہی دستور پاکستان کی عمل داری کا حلف لینے والے اعلیٰ عدلیہ کے محترم جج صاحبان نے اس پر کوئی نوٹس لیا۔ کسی بھی حلقے، بشمول صوبوں اور سول سوسائٹی نے کبھی اس کا تذکرہ تک نہیں کیا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے بھی دستور پاکستان کی اس مسلسل خلاف ورزی کے خلاف کوئی صدائے احتجاج بلند نہیں کی گئی۔

انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کے منشور میں اس کا اشارہ تک نہیں ملتا اور اب جبکہ انتخابات میں محض 5 روز باقی ہیں تو کسی بھی جلسے میں کسی بھی لیڈر نے اس کا ذکر کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا۔ یہ اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ ہمارے سیاسی رہنما اور ریاستی ادارے دستور پاکستان کا کس قدر لحاظ اور ادراک رکھتے ہیں۔

ہم سب فوجی قیادت کو تو سیاست میں بلا جواز مداخلت پر بجا طور پر تنقید کا نشانہ بناتے ہیں مگر سیاسی جماعتوں، قومی رہنماؤں اور اعلیٰ عدالتوں کو دستور پاکستان کی پاسداری نہ کرنے اور اس کی کھلی خلاف ورزی پر ان کے احتساب کا مطالبہ نہیں کرتے۔ کیا پچھلے 10 سال میں نیا این ایف سی ایوارڈ طے نہ کرنے کا الزام بھی اسٹیبلشمنٹ کو جاتا ہے؟ ہماری سیاسی قیادت اور عام انتخابات کے بعد نئی منتحب وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو سنجیدگی کے ساتھ اس کا جائزہ لینا ہو گا کہ وہ دستور کے ہر حکم کے مطابق ریاست کے معاملات چلانا چاہتے ہیں، یا محض اسٹیبلشمنٹ کی چیرہ دستیوں کا رونا روتے رہیں گے۔

تمام سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں کو یاد رکھنا چاہیے کہ دستور پاکستان پر عمل اور عوام کی طاقت اور حمایت سے ہی وہ اسٹیبلشمنٹ یا کسی بھی غیر جمہوری ادارے کا محاسبہ کر سکتے ہیں۔ اگر وہ خود دستور پاکستان کی کھلی خلاف ورزی کے مرتکب ہوتے ہیں اور بنیادی حقوق کا تحفظ نہیں کرتے تو پھر وہ کسی کو بھی قانون کی پاسداری کا درس نہیں دے سکتے۔ جن معاشروں میں قانون کی عمل داری اور پاسداری نہیں ہوتی، وہاں دستور کی بالادستی اور جمہوریت نہیں قائم ہو سکتی۔ جمہوریت عوام کے حقوق کی حفاظت اور قانون کی بالادستی سے مشروط ہے، نا کہ ایک دوسرے سے انتقام اور دشنام طرازی سے۔ کاش ہمارے قومی رہنماؤں اور سیاسی جماعتوں کو احساس ہو کہ دستور اور قانون کی عمل داری اور لوگوں کے حقوق ہی ان کی سیاست کا محور ہونے چاہئیں اور اس کے لئے ان کو اپنے اختلافات کو بالا تر رکھ کر مل کر کام کرنا ہو گا۔

مالی سال 2017-18 کے بجٹ کے خلاصے میں پہلی بار اس بات کا اعتراف کیا گیا کہ 'آٹھواں این ایف سی ایوارڈ 21 جولائی 2010 کو تشکیل دیا گیا لیکن ایوارڈ دیا نہیں گیا۔ نواں این ایف سی 24 اپریل 2015 کو تشکیل دیا گیا اور اس کی پہلی میٹنگ 28 اپریل 2015 کو ہوئی۔ اس کے موضوعات کا جائزہ لینے اور سفارشات پیش کرنے کے لیے چار ورکنگ گروپس بنائے گئے'۔ تاہم نواں این ایف سی ایوارڈ اپنے پیش رو کی طرح ناکام رہا۔ اگرچہ ورکنگ گروپس نے کچھ سفارشات پیش کیں مگر اس کا خاتمہ 27 اپریل 2020 کو بغیر کسی کامیابی کے اپنی مدت پوری ہونے پر ہوا۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

دسویں این ایف سی ایوارڈ کی تشکیل 12 مئی 2020 کو ہوئی جس کو بلوچستان ہائی کورٹ نے 25 جون 2020 کو غیر قانونی قرار دے دیا۔ اس کی تشکیل نو 21 جولائی 2020 کو ہوئی۔ اس کی کئی میٹنگز پاکستان تحریک انصاف کے دور حکومت میں ہوئیں مگر مالی سال 2021 تک کوئی بھی ایوارڈ نہ آ سکا۔ اپریل 2022 میں پاکستان ڈیموکریٹک الائنس کی حکومت قائم ہوئی۔ اس کے 18 ماہ میں دو وفاقی بجٹ پیش ہوئے مگر ساتویں این ایف سی ایوارڈ کے تحت۔ پاکستان ڈیموکریٹک الائنس میں تحریک انصاف کے علاوہ تمام قابل قدر سیاسی جماعتیں موجود تھیں مگر دسویں این ایف سی ایوارڈ کے لئے کوئی قابل ذکر کوشش نہیں کی گئی۔

اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کرنے کے حوالے سے یہ رویہ انتہائی افسوس ناک کارکردگی کا مظہر ہے تاہم کسی نے بھی اسے نوٹ نہیں کیا۔ باخبر اور جاندار میڈیا 'رمضان پیکج' کی فروخت کے لیے شوبازی یا بغداد کے مناظروں کی طرز کے سیاسی مباحثے کرا کے قوم کو مزید تقسیم اور تناؤ کا شکار کرنے میں تو مصروف رہا مگر اس اہم دستوری مسئلے کا کبھی ذکر تک کسی پروگرام میں نہیں ہوا۔

مالی سال 2023-24 کا بجٹ اسمبلی میں پیش کرتے ہوئے محترم فنانس منسٹر اسحاق دار نے قوم کو اطلاع دی کہ صوبوں کے حصے کے وسائل ساتویں این ایف سی ایوارڈ 2009 کے مطابق طے پائے ہیں۔ گویا 2024 میں بھی 2009 کے این ایف سی ایوارڈ پر عمل ہو رہا ہے۔ اس کے باوجود صوبے اس پر خوش دکھائی دیتے ہیں۔

وفاقی محصولات اور ٹرانسفرز میں اُن کا حصہ رواں مالی سال میں 5399 بلین روپے ہے۔ یہ حصہ 2015-16 کے مالی سال، ساتویں این ایف سی ایوارڈ کے آخری سال، کی نسبت 69 فیصد زیادہ ہے۔ بظاہر وفاقی اور صوبائی حکومتیں بنیادی معاشی انصاف اور مرکز اور وفاقی اکائیوں کے درمیان وسائل کی منصفانہ تقسیم کے معاملے کو زیر بحث لانے کی زحمت نہیں کرتیں، حالانکہ یہ عوام کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ناگزیر ہیں۔ 2009 میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے نمائندوں نے ساتویں این ایف سی ایوارڈ پر 'اطمینان' کا اظہار کیا۔ اس پر ہونے والے اتفاق رائے پر خوشی کے شادیانے بجائے گئے۔ یہ ہمارے حکمران طبقوں کا کھوکھلا پن تھا کہ وہ وفاق کو درپیش اصل مسئلے کو سمجھنے میں ناکام رہے۔ یہ ایشوز نا صرف آئین کے آرٹیکل 160 کے تحت اکٹھے کیے گئے محصولات کی تقسیم کا درست فارمولہ طے کرنے کی بابت تھے بلکہ مالیاتی حقوق کا جائزہ لیا جانا بھی درکار تھا۔

30 دسمبر 2009 کو آنے والے ساتویں این ایف سی ایوارڈ کی 2024 تک توسیع آئین پاکستان کے سراسر خلاف ہے کیونکہ آرٹیکل 160(1) کے تحت پانچ سال کی مدت کی حد موجود ہے جو کہتا ہے؛ 'شروع ہونے والے سال کے 6 ماہ کے اندر اور اس کے بعد وقفہ جو پانچ سال سے زیادہ نہ ہو، صدر ایک قومی مالیاتی کمیشن تشکیل دے گا جس میں وفاقی حکومت کے وزیر خزانہ، صوبائی حکومتوں کے وزرائے خزانہ اور ایسے دیگر افراد شامل ہوں گے جنہیں صدر گورنروں کے ساتھ مشاورت کے بعد مقرر کر سکتے ہیں'۔

آئین کا آرٹیکل 160 صوبوں کے مابین وصول شدہ ٹیکسز کی تقسیم کا کوئی مخصوص فارمولا تجویز نہیں کرتا، لیکن یہ وفاق اور صوبوں کے درمیان مساوی تقسیم کا تقاضا کرتا ہے۔ مسئلہ ٹیکسز اور وسائل کی افقی یا عمودی تقسیم کا نہیں جس کے لیے نویں این ایف سی ایوارڈ میں چار ورکنگ گروپ تشکیل دیے گئے تھے بلکہ صوبوں کو مکمل خودمختاری دینے کا ہے تا کہ وہ اپنے دائرہ کار میں آنے والی اشیا اور خدمات پر ٹیکسز لگا سکیں۔ اس وقت مرکز سروسز کی گراس ویلیو پر انکم ٹیکس لگا کر آئینی حقوق دینے سے انحراف کر رہا ہے۔ اس کے بعد حاصل کردہ اُن ٹیکسز، جو دراصل صوبوں کے ہی ہوتے ہیں، میں سے کچھ 'مونگ پھلی کے دانے' انہیں دے کر ٹرخا دیا جاتا ہے۔ یہ افسوس ناک صورت حال ہے جس کا فی الفور تدارک ہونا چاہیے۔

صوبوں کی اپنے وسائل پر دسترس اور پھر انہیں نچلی سطح تک منتقل کرتے ہوئے اپنے شہریوں کی فلاح پر خرچ کرنا وہ اصل مسئلہ ہے جس پر پارلیمنٹ کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ صرف اس طریقے سے ہی کم ترقی یافتہ علاقوں اور وسائل سے محروم افراد کو ترقی اور خوشحالی کی جانب گامزن کیا جا سکتا ہے، نیز حکمرانوں کو من مانی کرنے سے بھی اسی طریقے سے روکا جا سکتا ہے۔

صوبوں کو اپنی پیدا کردہ اشیا پر سیلز ٹیکس عائد کرنے کے حق سے محروم کرنا ہمارے آئین کی بنیادی خامی ہے۔ آزادی سے پہلے صوبے یہ حق رکھتے تھے لیکن 1948 میں دستور ساز اسمبلی نے صوبوں سے یہ کہہ کر حق عارضی طور پر واپس لے لیا کہ جیسے ہی مرکز کی مالی حالت بہتر ہو گی، اُنہیں یہ حق لوٹا دیا جائے گا۔ تاہم یہ وعدہ آج تک پورا نہ ہو سکا اور نا ہی کسی صوبے نے اس کے لیے آواز بلند کی۔ امریکہ، کینیڈا اور بھارت سمیت تمام اہم فیڈریشنز میں وفاقی اکائیاں اپنی اشیا اور خدمات پر ٹیکس لگانے کا اختیار رکھتی ہیں۔ تاہم پاکستان میں سیلز ٹیکس وفاقی ادارہ ایف بی آر وصول کرتا ہے اور اس کی وصولی بھی حقیقی پوٹیشنل سے بہت کم ہوتی ہے۔ من مانی کرتے ہوئے بھاری بھرکم اور غیرمنصفانہ ٹیکسز عائد کرنے اور صوبوں کو اُن کا حق نہ دینے کے باوجود وفاق مالیاتی خسارا کم کرنے کے قابل نہیں ہے۔ اگر صوبوں کو اپنے وسائل خود پیدا کرنے کی اجازت دی جاتی تو موجودہ مبہم صورت حال سے بچا جا سکتا تھا۔

بلوچستان کے پاس اپنی قدرتی گیس اور خیبر پختونخوا کے پاس اپنی بجلی پر سیلز ٹیکس عائد کرنے کا اختیار ہونا چاہیے تھا (یہ صرف دو مثالیں ہیں)۔ اس کی وجہ سے یہ صوبے بہت خوشحال ہو سکتے تھے۔ ان کا سیلز ٹیکس میں موجودہ حصہ بالترتیب 9 اور 14 فیصد ہے۔ ستم یہ ہے کہ یہ صوبے قدرتی وسائل یعنی تیل، گیس اور بجلی کے اعتبار سے مالا مال ہیں لیکن کم آبادی کی وجہ سے وہ اپنی ہی پیدا کردہ چیزوں سے کم حصہ لے پاتے ہیں۔ یہی صورت حال سندھ کے ساتھ بھی درپیش ہے۔ شاید ٹیکسز کی غیر منصفانہ تقسیم کا سب سے زیادہ فائدہ پنجاب کو ہوتا ہے۔ یہ تقسیم کے فارمولے کے تحت 53 فیصد حصہ وصول کرتا ہے (اس کا رواں مالی سال کا حصہ 2 ٹریلین روپے سے زیادہ تک متوقع ہے)۔ اس مستقل عدم توازن نے مرکز اور صوبوں کے مابین مخاصمت اور تناؤ کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔

اگر پاکستان غربت اور قرض کے جال سے نکلنا چاہتا ہے تو آئین میں ترمیم کرتے ہوئے مرکز اور صوبوں کے درمیان وسائل کی منصفانہ تقسیم کا فارمولا طے کیا جانا چاہیے۔ ٹیکسیشن کے حقوق اور وسائل کی درست تقسیم کے بغیر صوبائی خودمختاری کا تصور بے معنی ہے۔ تمام قوم کی خوشحالی اور ہم آہنگی کے لیے صوبوں کے پاس مالیاتی خودمختاری اور اپنے وسائل تک دسترس کا حق ہونا چاہیے۔ مقامی حکومتوں کا مقصد ان وسائل کی عوامی نمائندوں کے ذریعے تقسیم ہوتا ہے اور یہی چیز عوام اور ریاست کے درمیان تعلق کو بڑھا کر ریاست کو مضبوط کرتی ہے۔

امید کی جا سکتی ہے کہ 8 فروری 2024 کے انتخابات کے عمل سے وجود میں آنے والی وفاقی اور صوبائی حکومتیں دسویں این ایف سی ایوارڈ کی جلد از جلد تکمیل کو اہمیت دیں گی اور آئین پاکستان کی خلاف ورزی، جو 2015 سے مسلسل ہو رہی ہے، کا عوام کے بہترین مفاد میں خاتمہ کریں گی۔

مضمون نگار وکالت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ دونوں متعدد کتابوں کے مصنف ہیں اور LUMS یونیورسٹی کی Visiting Faculty کا حصہ ہیں۔