آئین میں اٹھارویں ترمیم ہے، اٹھارویں ترمیم میں آئین نہیں

آئین میں اٹھارویں ترمیم ہے، اٹھارویں ترمیم میں آئین نہیں
ادارتی نوٹ: یہ تحریر محض مصنّف کی رائے ہے۔ ادارے کا اس سے متّفق ہونا لازمی نہیں۔




ان دنوں ملک میں اٹھارویں آئینی ترمیم پر بحث ایک بار پھر طول پکڑ رہی ہے۔ اسکے حق اور مخالفت میں دلائل دیے جا رہے ہیں۔ ان حالات میں ضروری ہے کہ اس آئینی ترمیم کا غیر جانبدارانہ جائزہ لیا جائے۔ پاکستانی آئین میں اٹھارویں ترمیم 8اپریل 2010ء کو قومی اسمبلی سے منظور کی گئی تھی۔ اس وقت ملک میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی ، آصف علی زرداری صدر اور سید یوسف رضا گیلانی وزیراعظم تھے۔19اپریل 2010ء کو صدر آصف علی زرداری کے دستخط کے بعد یہ ترامیم آئین کا حصہ بن گئی۔ اٹھارویں آئینی ترامیم کے تحت صدر کو حاصل تمام ایگزیکٹو اختیارات پارلیمان کو منتقل کر دیے گئے۔ چونکہ وزیراعظم قائد ایوان ہوتا ہے لہٰذا وزیراعظم کے پاس اہم اختیارات آ گئے۔ اس آئینی ترمیم کے ذریعے جنرل ضیاء الحق کے دور میں کی گئی تقریباً تمام آئینی ترامیم کا خاتمہ کر دیا گیا جبکہ جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں ستارہویں آئینی ترمیم کے تحت ہونیوالی تبدیلیوں کو بھی ختم کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ پاکستان کے شمال مغربی سرحدی صوبے کا نام تبدیل کرکے خیبر پختونخوا رکھا گیا گیا جبکہ وفاق سے زیادہ تر اختیارات لے کر صوبوں کو دیے گئے جس سے صوبے زیادہ با اختیار ہو گئے۔

18ویں آئینی ترمیم کے تحت دیگر اہم شعبوں کی طرح صحت ، انرجی، تعلیم اور زراعت جیسے اہم شعبوں کو مکمل طور پر صوبوں کے سپرد کر دیا گیا۔ صوبوں کی خود مختاری بجا مگر خود مختاری کے نام پر ریاست اپنی بنیادی ذمے داریوں سے دست بردار نہیں ہو سکتی۔دنیا بھر میں تعلیم کا شعبہ وفاقی حکومت اپنے پاس رکھتی ہے اور نوجوان نسل میں قومی سوچ پیدا کرنے اور یکساں سمت متعین کرنے کیلئے تعلیمی نصاب مرکزی حکومت تیار کرتی ہے۔
دنیا کے تمام ممالک میں انرجی کے وسائل پر صوبوں کا نہیں مرکزی حکومت کاکنٹرول ہوتا ہے،مگر اٹھارہویں ترمیم میں انرجی پر بھی صوبوں کا کنٹرول تسلیم کرلیا گیا ہے جس سے آئے روز مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔

اسی طرح فوڈ سیکیورٹی اور قومی زرعی پالیسیاں تشکیل دینے کے حوالے سے زراعت ایک قومی شعبہ ہے۔ مگر اٹھارہویں ترمیم کے حامیوں نے اسکے مضمرات کا اندازہ کیے بغیر یہ اہم ترین شعبے صوبوں کے حوالے کر دیے۔ پاکستان کی زراعت کو تباہ کرنے کیلئے اٹھارہویں ترمیم نے بھی بڑا کردار ادا کیا ہے۔

امریکا جیسے ملک میں بھی محکمہ زراعت مرکزی حکومت کے پاس ہے جو ریاستی حکومتوں کے ساتھ ملکر زراعت سے متعلق پالیسیاں بناتی ہے۔ لہٰذااس بات کی اشد ضرورت ہے کہ تعلیم ،زراعت اور انرجی کے شعبوں کو اٹھارہویں ترمیم کے شکنجے سے آزاد کرایا جائے اوران اہم شعبوں پر مرکز کی نگرانی بحال کی جائے۔

18ویں آئینی ترمیم کے ذریعے پاکستان کے آئین کی شکل ہی بدل کر رکھ دی گئی اور یہ سوال متعدد حلقوں کی طرف سے بار ہا اٹھایا جا چکا ہے کہ کیا وہ اسمبلی اس بات کا آئینی مینڈیٹ رکھتی تھی یا نہیں ۔ ایسی صوبائی خودمختاری کا کیا کرنا جس سے عام آدمی کے مسائل حل ہونے کے بجائے اس میں اضافہ ہو۔اس ترمیم کے ذریعے صوبوں نے اپنے اختیارات میں بے حد اضافہ تو کر لیا لیکن اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کو یقینی نہیں بنایا، کسی بھی صوبے کی

حکومت بنیادی جمہوریتوں کے نظام یعنی بلدیاتی اداروں کے قیام میں سنجیدہ نظر نہیں آتی جس سے یہ سوالات جنم لینے لگے ہیں کہ یہ سب کچھ ذاتی مفادات کی خاطر تو نہیں کیا گیا تھا۔ اب آپ دیکھیں کہ اٹھارویں ترمیم کے مطابق صوبائی حکومت وفاق یا کسی اہلکار کو اپنا اختیار دیتی ہے تو اس کی اسے صوبائی اسمبلی سے توثیق کروانا لازمی ہوگی، وفاقی حکومت اس صوبے سے مشاورت کی پابند ہوگی جہاں آبی ذخیرہ تعمیر کیا جا رہا ہوگا، صوبوں کا حصہ آخری این ایف سی ایوارڈ سے کم نہیں کیا جا سکے گا، صوبوں کو قومی مالیاتی کمیشن کی مقرر کردہ حد کے اندر مقامی یا بین الاقوامی سطح پر قرضے حاصل کرنے کی اجازت ہوگی۔اس طرح کی کئی ایک شقوں کو دیکھتے ہوئے کہ صوبے مضبوط اور وفاق کمزور ہوا جبکہ وفاق مضبوط ہونا چاہئے نہ کہ صوبے مضبوط اور وفاق کمزور ہو جائے۔

اٹھارویں ترمیم کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ اسے سیاسی مقاصد کیلئے آئین میں شامل کیا گیا ۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کو سیاسی و مالی خود مختاری ملی اور وہ مضبوط ہوئے۔ لیکن اس کے بدلے میں وفاق پر کیا بیتی اس کا ذکر نہیں۔ ایک وفاقی پارلیمانی ملک میں وفاق کی مضبوطی زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ یہاں معاملہ الٹ ہے۔ وفاق کمزور اور صوبے مضبوط ہو رہے ہیں۔پھر صوبوں نے مالی فوائد ملنے کے بعد ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کیا۔ سندھ میں اربوں روپے کی خورد برد کے شواہد سامنے آ چکے ہیں۔ اٹھارویں ترمیم چونکہ حقیقی اتفاق رائے پیدا کرنے کی بجائے فوری جوڑ توڑ کے ذریعے منظور کرائی گئی تھی اس لئے آئین اسے ہضم کرنے کو تیار نہیں۔کئی حوالوں سے یہ ترمیم آئین کی بنیادی روح کے خلاف نظر آتی ہے۔
آئین پاکستان کی سلامتی اور مضبوطی کی علامت ہے۔ اسکی یہ روح برقرار رہنی چاہئے۔ اس روح کو اگر کوئی ترمیم، کوئی عمل یا کوئی رویہ زک پہنچاتا ہے تو اس کی اصلاح یا پھر بیخ کنی کی جانی چاہئے۔