شہباز شریف سے اٹھارویں ترمیم منظور کروانے کے لئے نیب کو شیخ رشید کا ’ٹارزن‘ بننا ہوگا

شہباز شریف سے اٹھارویں ترمیم منظور کروانے کے لئے نیب کو شیخ رشید کا ’ٹارزن‘ بننا ہوگا
دنیا بھر کی طرح پاکستان بھی اس وقت کرونا کی وبا سے دوچار ہے۔ اس  صورتحال کا تقاضہ تو یہ ہے کہ ملک میں قومی یکجہتی دکھائی دے، باہمی مشاورت سے مشترکہ فیصلے ہوں اور قوم کی رہنمائی کی جائے۔ ایسے وبا کے موقع پر کسی بھی قسم کی سیاست کو بالائے طاق رکھ دیا جانا چاہیے۔

دنیا بھر میں تو کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں ابھی بھی سیاسی جنگ ہی دکھ رہی ہے۔ یہاں نہ صرف کرونا سے متعلق لاک ڈاؤن کو لے کر بھرپور سیاست اور الزام تراشی چل رہی ہے بلکہ دیگر معاملات پر سیاسی کھچڑی بھی تیار کی جا رہی ہے، جیسے کرونا کے دوران ہی یکدم اٹھارویں ترمیم کا شوشا اور نیب ترامیم سے متعلق بحث اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔ اس میں ایک بہت دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ اس بحث کا رخ اب کچھ لو اور کچھ دو کی سیاست کی جانب مڑتا دکھ رہا ہے۔ سرگوشیاں اور قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں کہ ملک کی اپوزیشن نے اٹھارویں ترمیم پر نظرثانی کے لئے نیب قانون میں ترامیم کی شرط عائد کر دی ہے۔ گذشتہ ہفتے اچانک ہی نیب ترامیم کا ایک نیا مسودہ سامنے آیا جس میں نیب چیئرمین کے اختیارات کم کرنے کی تجاویز دی گئی تھیں اور حکومت بھی تاحال اپوزیشن کی تجاویز کا انتظار ہی کر رہی ہے۔

دی نیوز کے صحافی عمر چیمہ کی حالیہ خبر کے مطابق مسلم لیگ (ن) نے پیپلز پارٹی کے تعاون سے نیب آرڈننس میں مجوزہ تبدیلیوں کے لئے مسودہ تیار کر کے اسے پاور بروکرز کے ساتھ شیئر بھی کر دیا ہےاور اگر ان تجاویز کو شامل کیا جاتا ہے تو سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز کی سزائیں ختم ہو جائیں گی۔ اس خبر میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ اس معاملے پر تبادلہ خیال کے لئے گذشتہ ماہ ایک ملاقات بھی ہوئی ہے جس میں ن لیگ سے شاہد خاقان عباسی اور پیپلزپارٹی سے فاروق نائیک نے اپوزیشن کی نمائندگی کی ہے۔

وفاقی وزیر برائے ریلوے شیخ رشید نے یہ دعویٰ کیا کہ اٹھارویں ترمیم پر اسد عمر اور اپوزیشن رابطے میں ہیں اور وزیراعظم کو اس کا علم ہے جب کہ شاہد خاقان عباسی کے بقول اس میں کوئی صداقت نہیں ہے اور کسی بھی طرح کی ملاقتیں نہیں ہو رہیں۔



گذشتہ کئی ہفتوں سے ملک میں اٹھارویں ترمیم پر نظرثانی کی بحث چھڑی ہوئی ہے۔ یہ بحث تو موجودہ حکومت کے 2018 میں اقتدار میں آنے کے بعد ہی شروع ہو گئی تھی لیکن وبا کے وقت میں اب اس بحث میں روز بروز تیزی آتی جا رہی ہے۔

ایک طرف اپوزیشن اور بالخصوص مسلم لیگ ن کے کیمپ میں شاہد خاقان عباسی کا کردار متحرک ہوتا دکھ رہا ہے، اس کے ساتھ ہی اپوزیشن لیڈر شہبازشریف بھی مسلسل انٹرویوز دے رہے ہیں جس میں شہبازشریف صاحب ملک میں واپسی کی اصل وجہ، ڈیل کے متعلق خبریں، ملسم لیگ ن کے مستقبل، اس کی سیاست اور مقتدر حلقوں سے تعلقات سے متعلق نئے انکشافات کر رہے ہیں۔ شہباز شریف کی جانب سے ایک کے بعد ایک انٹرویو کو دیکھ کر سیاسی پنڈت ان کے سیاسی مستقبل سے متعلق خدشات کا اظہار بھی کر رہے ہیں ، ستارے گردش میں جاتے نظر آ رہے ہیں، ہواؤں کا رخ بدلا نظر آ رہا ہے۔ کیونکہ یکدم ہی نیب بھی متحرک ہو چکا ہے اور شہباز شریف کو بار بار کے بلاوے بھی بھجوائے جا رہے ہیں۔

کل ہی شہباز شریف صاھب نے تقریباً دو گھنٹے نیب کے سامنے منی لانڈرنگ اور آمدن سے زائد اثاثوں سے متعلق جوابات دیے ہیں اور اب 2 جون کو دوبارہ پیشی کا بلاوہ ہے۔

اس دوران مسلم لیگ میں دھڑے بندی کی افواہیں دم نہیں توڑ پائی ہیں۔ آج بھی یہ بحث ہو رہی ہے کہ مسلم لیگ ن میں ایک کیمپ شہباز شریف کا ہے جب کہ دوسرا میاں نوازشریف کا ہے جو میاں صاحب کے بیرون ملک اور مریم نوازکی خاموشی کے باعث دلچسپ طور پر شاہد خاقان عباسی کی کمان میں ہے۔

بقول وفاقی وزیر شیخ رشید کے شہبازشریف ممکنہ گرفتاری کے ساتھ ہی شاہد خاقان ن لیگ کے صدر بنیں گے اور ان کو مریم نواز کی حمایت ہوگی۔ اس بات میں کتنی صداقت ہے اور کیا واقعی مسلم لیگ ن اٹھارویں ترمیم اور نیب قوانین کو لے کر کوئی ساز باز کر رہی ہے، یہ تو آنے والے چند دن ہی بتا سکتے ہیں۔



یہ بات واضح ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے حوالے سے ملک کی سیاسی قیادت مکمل طور پر بٹی ہوئی ہے۔ تحریک انصاف ہر حال میں اٹھارویں ترمیم کو رول بیک کرنے یا اس پر ’نظرِ ثانی‘ کی حامی دکھتی ہے۔ وزیر اعظم کے بقول تو اس ترمیم نے ملک کو دیوالیہ کر دیا ہے۔ جب کہ پیپلزپارٹی اس معاملے کو چھیڑنے کی سخت مخالف ہے اور مسلم لیگ ن کی سیاست اس معاملے میں بھی بھرپور ابہام کا شکار ہے۔

کبھی مسلم لیگ ن کی جانب سے لچک کا تاثر ملتا ہے تو کبھی اس ترمیم کو چھیڑنے پر سخت اعتراضات کی رائے آ جاتی ہے۔ فی الحال مسلم لیگ ن کی نظر میں اصل مسئلہ اٹھاریوں ترمیم نہیں بلکہ قومی مالیاتی یا نیشنل فائنانس کمیشن ایوارڈ کا ہے جس کے تحت وفاق صوبوں کے فنڈ میں کٹوتی کرنا چاہتا ہے۔ وفاقی حکومت صوبوں کے موجودہ ایوارڈ میں تقریباً 300 ارب روپے کی کٹوتی چاہتی ہے لیکن صوبے اس پر تیار نہیں ہیں۔

مسلم لیگ ن سمجھتی ہے کہ حکومت کو اگر یہ کام کرنا ہے تو اس کے لئے ایک بل پارلیمان میں لایا جائے اور بحث شروع کرائی جائے۔ حکومت کے لئے بھی مسلم لیگ ن ہی وہ واحد جماعت ہے جو اس معاملے میں راستہ ہموار کر سکتی ہے۔ حکومت اس بات سے واقف ہے اور شاید اسی راستے کو تیار کرنے کے لئے حکومت کی جانب سے مسلم لیگ ن کے لئے وہ حالات پیدا کیے جا رہے ہیں جن کے تحت وہ حکومتی حمایت کے لئے مجبور ہو جائے گی۔

یکدم اپوزیشن لیڈر شہبازشریف کی نیب میں پیشیاں شروع ہو گئی ہیں، ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز پر بھی رمضان شوگر ملز کیس میں فرد جرم عائد کرنے کے لئے 12 مئی کی تاریخ طے کر لی گئی ہے، جب کہ بقول وفاقی وزیر شیخ رشید احمد کے، رمضان کے بعد نیب بھی ٹارزن بننے جا رہا ہے۔ کئی سوالات ہیں جن کا جواب ابھی سمجھ نہیں آ رہا لیکن کیا مستقبل کا منظرنامہ ایسا ہی ہوگا اور کیا نیب کو اسی لئے ٹارزن بنایا جا رہا ہے تاکہ اٹھارویں ترمیم پر حکومت اپنی بات منوا سکے؟

مصنفہ سما نیوز پر پروڈیوسر ہیں، اور اس سے قبل مختلف صحافتی اداروں کے ساتھ منسلک رہ چکی ہیں۔