سینئر صحافی سہیل وڑائچ کو دیئے گئے انٹرویو میں شہباز شریف نے انکشاف کیا کہ انہیں حالیہ الیکشن سے ایک ماہ پہلے تک وزیراعظم بنائے جانے کی یقین دہانی کرائی گئی تھی اور وہ مقتدر لوگوں کے ساتھ اپنی کابینہ طے کر رہے تھے۔ اپنی باتوں اور انکشافات سے بظاہر وہ اپنی دوراندیشی، وفاداری، اپنی ناتمام حسرتوں اور اس کی راہ میں حائل ہونے والی "خاندانی" رکاوٹوں کا شکوہ کرتے نظر آئے۔ ان کی اس گفتگو کا مقصد دراصل اپنی پارٹی اور لیڈرشپ یعنی نواز شریف اور مریم نواز وغیرہ کو یہ باور کرانا مقصود تھا کہ ان کا اختیار کیا ہوا راستہ مسلم لیگ ن کو اقتدار سے بہت دور لے گیا اور اگر ان کی بات مان لی جاتی یا اب بھی ان کے مشورہ کو صائب مانا جائے تو پھر سے آسانیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔
ویسے تو یہ دعویٰ کسی مہذب معاشرے میں کیا جانا ناممکن یا بہت خفت کا باعث ہوتا لیکن کیونکہ ہمارا معاشرہ ہر سطح پر گل سڑ جانے کے عمل میں ہے لہذٰا یہاں اس نکتہ پر غور کرنا بھی قارئین کیلئے تعجب کا باعث ہوگا۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کے تناظر میں بظاہر دو وجوہات کی بنیاد پر شہباز شریف کی رائے صائب نظر آتی ہے. ایک وجہ تو یہ ہے کہ پاکستان میں جمہوری نظام بہت کمزور ہے۔ اس پر کبھی سرعام اور کبھی خفیہ شب خون مارے جاتے ہیں لہذا اس جمہوری پودے کو بارآور درخت بننے تک احتیاط سے چلا جائے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ مسلم لیگ ن ایک مقبول جماعت ضرور ہے لیکن وہ اس طرح منظم نہیں کہ کسی ناانصافی اور زیادتی پر منظم طریقہ سے ایسا احتجاج یا تحریک چلا سکے کہ مقتدر حلقے پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوجائیں اور یہ وہ جماعت ہے جو ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کی ٹی ٹیم رہی اس لئے اس کا ووٹر بھی اسی پرانی طرز سیاست کا حامی ہے۔
شہباز شریف اس دفعہ اور اس سے پہلے بھی ہمیشہ یہ باور کراتے رہے ہیں کہ دراصل ان کا راستہ ہی نجات کا راستہ ہے۔ لیکن ان کے اس استدلال کو مان لینے کے باوجود اب تک یہی دیکھا گیا ہےکہ چاہے حالیہ الیکشن متنازعہ ہی سہی لیکن ایک کروڑ بیس لاکھ ووٹ لینے والی جماعت کا صدر ناقابل یقین سمجھوتوں، بہت ساری زیادتی اور وعدہ خلافیوں کے باوجود چند معمولی رعایتوں کے علاوہ اب تک کچھ حاصل نہیں کر سکا۔ وہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے کبھی نواز شریف کی پیٹھ میں چھرا نہیں گھونپا لیکن ساتھ ہی یہ بھی ہر دفعہ ثابت ہوا کہ ان کا بیانیہ ن لیگ کیلئے فکری تقسیم اور کمزوری کا باعث بنا ہے. اتنی بڑی پارٹی کا صدر ہونے کے باوجود ماضی قریب گواہ ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ سے کبھی اچھی ڈیل نہیں کر سکے۔ وہ بارہا ن لیگ کے ووٹ کے دباؤ کو اپنے ہی حق میں بھی استعمال کرنے میں بری طرح ناکام ہوئے اور اپنے بیانیہ کے مُطابق کوئی اچھی ڈیل کی بجائے کچھ معمولی رعایتوں پر ہی راضی ہوتے نظر آئے . جب نوازشریف نے اپنی نااہلی کے بعد جی ٹی روڈ کے ذریعے جانے کا فیصلہ کیا تو شہبازشریف نے اپنے آپ کو اس تمام سرگرمی سے دور رکھا۔ ہو سکتا ہے انہیں اس فیصلے سے اختلاف ہو لیکن جب فیصلہ ہو گیا تو نوازشریف کے جانشین کے طور پر یا بہتر ڈیل کیلئے ان کا ساتھ ہونا ضروری تھا لیکن انہوں نے "فرمانبردار" ہونے کا ثبوت دیا لہذا سوچ کی واضح تقسیم نہ نواز شریف کے کام آئی اور نہ ہی شہباز شریف کوئی آشیرباد حاصل کر سکے۔
نیب عدالت کے فیصلہ کے بعد جب نواز شریف نے وطن واپس آنے کا فیصلہ کیا تو ان کو اس فیصلے پر عملدرآمد سے روکنے کیلئے شہباز شریف سمیت کئی پیغام رسانوں نے اپنے تئیں کوشش کی لیکن وہ نواز شریف کو نہ روک سکے. نواز شریف کا الیکشن کے دوران واپس آنا مقتدر قوتوں پر دباؤ بڑھانے کیلئے تو بہت بڑا اقدام تھا ہی لیکن شہباز شریف کی ڈیل کیلئے بھی ایک طاقتوربنیاد کی فراہمی تھی. لیکن اس وقت بھی شہباز شریف نے یہ سنہری موقع ضائع کیا اور فرمانبرداری کو ہی عافیت جانا۔ ایک تو انہوں نے باقاعدہ کوشش سے نواز شریف کے استقبال کیلئے آنے والی عوام کو ائرپورٹ پہنچنے نہ دیا۔ دوسرا یہ کہ پارٹی صدر کے طور پر انہوں نے نوازشریف کی لازمی گرفتاری کے بعد کی صورتحال کیلئے پارٹی کی سطح پر کوئی پلان بی تشکیل نہ دیا۔ نتیجتاً ن لیگ کے دباؤ کا خوف بھی گیا۔ نواز شریف اور مریم نواز کو ایک طویل اور تکلیف دہ قید کا بھی سامنا کرنا پڑا۔
آج بھی شہبازشریف ضرور یہ سوچتے ہوں گے کہ اگر وہ نوازشریف کے استقبال کو کسی کےکہنے پر سبوتاژ نہ کرتے تو وہ اس کی بدولت بہتر شرائط پر سمجھوتہ کر سکتے تھے۔ قدرت کی ستم ظریفی دیکھئے کہ ن لیگ کو الیکشن میں ووٹ حاصل کرنے کیلئے سہارا پھر بھی نواز شریف کے بیانیہ کا لینا پڑا۔ شہبازشریف گروپ کے ایک اہم رہنما نے دلچسپ انکشاف کیا کہ میں چھوٹے میاں صاحب کی رائے سے متفق ہوں لیکن یہ حقیقت ہے کہ اپنے حلقہ میں ہم مریم نواز کے موقف کی حمایت کرکے ہی کامیاب ہو سکے۔ نواز شریف اور مریم نواز کےجیل جانے کے بعد شہباز شریف ان کیلئے جیل میں چند سہولتوں کیلئے بھاگ دوڑ کرتے ہی نظر آئے۔حالانکہ اگر وہ اپنا زیادہ زور نواز شریف اور مریم نواز کی دو چار پیشیوں پر پانچ دس ہزار کارکن اکٹھے کرنے پر کرتے تو آج وہ مسلمہ لیڈر بھی ہوتے اور ان سے سودے بازی کرنے والے کہیں زیادہ دے کر ان کو راضی رکھنے کی کوشش کرتے۔ جس میں سب سے پہلا قدم نوازشریف کی سزا معطلی اور دونوں باپ بیٹی کی حمزہ شہباز سمیت رہائی ہوتی۔
شرمناک سہی لیکن اگر واقعی ان کے وزیر اعظم بننے کا فیصلہ ہو چکا تھا تو کیا وہ کبھی سوچنا پسند کریں گے کہ اگر وزیراعظم ان کو ہی بنایا جانا تھا تو یہ سودے بازی نوازشریف کے مانے بغیر کیسے ممکن تھی؟ کیا یہ معاملہ اتنا سادہ تھا کہ جس شریف خاندان کے خلاف اتنا عرصہ بیانیہ تشکیل دیا گیا اسی خاندان کے دوسرے فرد کو اقتدار دے دیا جاتا جبکہ اس پر بھی ماڈل ٹاؤن کیس کی تلوار موجود تھی۔ کیا پی ٹی آئی کو اس لئے طاقتور کیا گیا, کیا ن لیگ کے بطن سے جنوبی پنجاب محاذ کی پیدائش شہبازشریف کیلئے کی گئی؟ کیا مختلف فرقوں کی بنیاد پر تازہ تازہ بننے والی جماعتیں ن لیگ کی نوکری کیلئے بنی تھیں۔ کیا یہ سب عمران خان ٹھنڈے پیٹ برداشت کر لیتا۔ یہ سچ ہے کہ الیکشن سے پندرہ دن قبل تک سیٹوں کی تقسیم اس طرح کی گئی تھی کہ عمران کی جگہ پی ٹی آئی کے کسی اور رہنما کو مخلوط حکومت کے شریک کاروں کے مطالبہ پر وزیراعظم بنا دیا جاتا۔ ظاہر ہے اس منصوبے میں پیپلزپارٹی شامل تھی۔ پھر شہبازشریف کے مقابلے میں عمران خان کو داد دینی پڑے گی کہ سازش کی بو سونگھتے ہی اس نے لاہور کے جلسہ میں یہ کہہ کر ایسے منصوبے کے امکان کو بھی ختم کر کے رکھ دیا کہ اگر انہیں مکمل اکثریت نہ ملی تو وہ اپوزیشن میں بیٹھیں گے۔
اس تقریر کے کچھ دن بعد ایک مقتدر شخصیت نے کسی کو یہ بتایا کہ اب پچھتر نہیں ایک سو پندرہ بیس سیٹوں پر شرط لگا لو۔ یہ بات بڑی دلچسپ ہے کہ شہباز شریف کی جماعت جو سیٹیں جیت گئی وہاں جیت کا بنیادی عنصر شہباز شریف کی سوچ نہیں بلکہ نواز شریف اور مریم نواز کا بیانیہ ثابت ہوأ. پھرشہبازشریف تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر دھاندلی کے خلاف اجتماعی طور پر استعفیٰ بھی نہ دے سکے کیونکہ وہ اور زرداری پھر سے طفل تسلیوں کے سہارے چل رہے تھے۔ لیکن اگر وہ ایسا کر لیتے تو دوبارہ کسی کو پولیٹیکل انجینئرنگ کی ہمت نہ ہوتی۔ اس تمام تابعداری کے باوجود نواز شریف کی جیل تو ایک طرف شہبازشریف اپنے آپکو بھی جیل جانے سے نہ بچا پائے کیونکہ پھرعمران خان کی فرمائش ان سے طاقتور ثابت ہوئی۔
ان کے چہیتے افسروں سمیت حمزہ شہباز اوران کے بھتیجے کو بھی جیل جانا پڑا اور باقی خاندان نے لندن پناہ حاصل کرکے اپنی جان بچائی۔ پھر اس کے بعد تو تانتا بندھ گیا, رانا ثناءاللہ سے لے کر شاہد خاقان عباسی تک سب کو جیل دیکھنا پڑی۔ شہبازشریف کو قدرت نے اچھی ڈیل کا ایک اور موقع فراہم کیا جب چیئرمین نیب اپنے ہی ادارے کی ملزمہ کے ساتھ قابل اعتراض ویڈیو سامنے آئی. شہباز شریف سے زیادہ کس کو ادراک ہوگا کہ چیئرمین نیب کن لوگوں کا نمائندہ ہے لیکن وہ اس وقت بھی کوئی موقف لینے سے گھبرا گئے۔ احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی ویڈیو ٹیپ کے ریلیز ہونے پر وہ بادل نخواستہ موجود تھے لیکن جب امریم نواز اور مسلم لیگ کے لوگوں کو ایف آئی اے اور مختلف اداروں کے ذریعے نشانہ بنایا گیا تو اس کی وجہ بھی شہبازشریف کی لیڈرشپ کی کمزوری تھی.
اس معاملے میں وہ نہ تو نواز شریف کو انصاف دلا سکے اور نہ ہی اپنے کارکنان اور ان کے جان و مال کو تحفظ دلا سکے حالانکہ اس وقت مقتدر قوتیں اپنی اخلاقی کمزوری کی آخری حد پر تھیں اور ذرا سا بہتر دباؤ اور شرائط نواز شریف کو جیل سے باہر نکال سکتے تھے۔ چیئرمین سینٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک ہو یا اپوزیشن کو متحد رکھنے کی کوشش ہو شہباز شریف بھی زرداری کی طرح اپنی اس قوت کو چھوٹی چھوٹی رعایتوں کے عوض ختم کرتے نظر آئے۔
بھلا ہو مولانا فضل الرحمن کے اعلان کردہ دھرنے کا جس نے پستی ہوئی اپوزیشن کے جسم میں نئی روح پھونک دی.یہ شہبازشریف ہی تھے جن کی وجہ سے مسلم لیگ ن اس دھرنے کی مکمل امداد اور بھرپور شرکت کے وعدہ کے باوجود پھر چند معمولی رعایتوں اور وعدہ فردا کے عوض اس دھرنے سے بھاگ نکلی.اب کوئی مانے یا نہ مانے یہ دھرنا اور نواز شریف کی علالت ہی تھی جس سے حکمرانوں کے ہاتھ پاؤں پھول گئے جس کے باعث نواز شریف اور مریم نواز کی جیل سے رہائی ممکن ہوئی اور دوسری طرف شہبازشریف کی لیڈرشپ کی کمزوری اور دوغلا پن عام لوگوں پر آشکار ہوا۔
.اس سب کے عوض شہبازشریف کے ذمہ یہی کام لگا کہ وہ خاندان کے دباؤ کے ذریعے نواز شریف کو باہر جانے پرآمادہ کریں اواس کے بدلے نواز شریف کی ہسپتال سے گھر اور برطانیہ روانگی پر "سرکاری" پروٹوکول حاصل کریں لیکن ساتھ ہی مریم نواز کو خاموش کروا کے گھر میں بٹھاہا گیا. حالانکہ سب کو پتہ تھا کہ زندہ نواز شریف کو باہر بھیجنا سب سے زیادہ کس کے مفاد میں تھا.
آنے والے دنوں میں چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں بھی شہباز شریف دور سے ہی ہاتھ ہلاتے نظر آئے. جنرل قمرباجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کی آئینی ترمیم کی حمایت میں شہباز شریف نے کس طرح اپنے بھائی کو راضی کیا اور جیسے اپنی پارٹی کو سختی سے ہدایات جاری کیں کہ کسی ترمیم کی تجویز تو کیا اس ترمیم پر بحث بھی نہیں کرنی ہے. اب کی بار لگا کہ اس دفعہ واقعی شہباز شریف کی سوچ جیت گئی اور اب کی بار بہت کچھ طے کیا گیا ہوگا. اب ترمیم کے بعد مولانا فضل الرحمن کے ساتھ کئے گئے وعدہ پر مارچ میں بس عمل ہوأ ہی چاہتا ہے اور اگلے تمام معاملات میں شہبازشریف کو مرکزی حیثیت حاصل ہوگی. لیکن نتیجہ پھر وہی ڈھاک کے تین پات. پھر وہی پارٹی رہنماؤں کے بے سروپا مقدموں میں نیب اور جیل کے چکر اور شہبازشریف کیلئے وہی دائرے کا سفر۔ اگر اس کھیل میں کوئی حقیقت تھی بھی سہی تو اس کی جان کرونا کی وبا نے نکال دی لیکن اس کے باوجود شہبازشریف بڑے طمطراق سے پاکستان پہنچے لیکن آتے ہی ان سمیت ن لیگ کے کئی رہنماؤں کو نیب کے نوٹس آنا شروع ہو گئے ہیں.ان کے خاندان کے مالی معاملات پر پھر سے نئی نئی کہانیاں میڈیا پر آنا شروع ہو گئی ہیں۔
حالات گواہی دے رہے ہیں کہ عمران خان ابھی کہیں نہیں جا رہا لیکن ایسے لگتا ہے شہبازشریف کو نئی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا گیا ہے. قرائن بتاتے ہیں اب کی بار ان سے اٹھارویں ترمیم کو ٹھکانے لگانے کا کام ذمہ لگایا گیا ہے اور اس کے بدلے انہیں پھر تسلی دی جا رہی ہے کہ نیب کے قوانین کو ان کی منشاء کے مطابق بدل دیا جائے گا۔
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
شہبازشریف کو یہ سوچنا ہوگا کہ ملک کی ترقی کیلئے اسٹیبلشمنٹ کو ساتھ لے کر چلنا اور بات اور اسٹیبلشمنٹ کے ذریعے اقتدار حاصل کرنا یا ان کو سیاست کی باگ ڈور حوالے کرنا بالکل دوسری بات ہے. شہبازشریف کو سمجھ آ جانی چاہئے کہ مقتدر قوتوں کو بھی علم ہے کہ ووٹ بنک صرف نواز شریف کا ہے اورمستقبل میں یہ ووٹ بنک شہبازشریف کی بجائے مریم نواز کو منتقل ہوگا۔ جب شہبازشریف ذاتی طور پر کسی فیصلہ کی پوزیشن میں ہی نہیں تو ان قوتوں کو عمران خان بہتر لگے گا کیونکہ اس کی پارٹی اسی کے فیصلوں کے تابع ہے۔
شہبازشریف کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ وہ سمجھوتوں کی سیاست میں بھی اپنے آپ کو عمران خان کے ہم پلہ نہیں بنا سکے. جب بھی کسی ڈیل کا موقع آیا تو شہبازشریف بہت چھوٹی رعایتیں حاصل کرنے کیلئے پارٹی کے موقف کو قربان کرتے نظر آئے.وہ کسی پلان بی میں تو شاید اپنا نام لکھوانے میں کامیاب ہوگئے ہوں لیکن فی الحال انہیں کبھی کوئی چھوٹی سی خوشخبری پر خوش کیا جاتا ہے اور اگلے ہی لمحے انہیں خوفزدہ کرنے کا مسلسل عمل بھی جاری ہے۔
اسی وجہ سے وہ ایک اچھے ایڈمنسٹریٹر تو سمجھے جاتے ہیں لیکن باوقار سیاسی رہنما کی منزلت نہیں پا سکے۔ ایسے سیاسی رہنما جو عوام کی بجائے گھٹنوں میں بیٹھ کر اقتدار مانگ رہے ہوں وہ اس مشن میں کامیاب ہو بھی جائیں تو یہ سفر بہت مختصر ہوتا ہے. بلکہ جب یہ حالات ہوں کہ ایسے اور بہت سارے پہلے سے لائن میں کھڑے ہوں یا اقتدار میں ہوں تو صرف طفل تسلیوں کے ہی کام چلتا ہے اور پھر کچھ ہی عرصہ میں ایسا نظام اپنے خالقوں سمیت خالق حقیقی سے جا ملتا ہے.عمل کرنے کی امید تو موہوم ہے لیکن شہبازشریف کو مولانا فضل الرحمن سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے اور پاکستان کی تمام مقبول سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ اپنی پارٹیوں کو نظریاتی بنیادوں پر کم از کم مذہبی سیاسی جماعتوں کی طرح منظم کریں تاکہ سیاست نہ بھی سہی وہ ڈیل تو باعزت طریقے سے کر سکیں۔