اٹھارہویں ترمیم کا معاملہ: شہباز شریف کے ہاتھ میں کچھ نہیں ڈیل کرنی ہے تو ہمارے ساتھ کریں، مریم نواز کا مقتدر قوتوں کو پیغام

اٹھارہویں ترمیم کا معاملہ: شہباز شریف کے ہاتھ میں کچھ نہیں ڈیل کرنی ہے تو ہمارے ساتھ کریں، مریم نواز کا مقتدر قوتوں کو پیغام
اٹھارہویں ترمیم پر سودے بازی کی دوڑ میں مسلم لیگ ن کے دونوں دھڑوں نے اسٹیبلشمنٹ سے رابطہ کر لیا۔ مریم نواز گروپ کی جانب سے پنڈی والوں کے ساتھ رابطہ قائم کر لینے کے بعد شہبازشریف نے بھی پاور بروکرز سے ملاقات کا وقت مانگ لیا ہے۔ مبصرین کے نزدیک دونوں لیگی دھڑوں نے اس اہم سیاسی مرحلے پر خود کو نون لیگ کی سی بی اے یونین یعنی اجتماعی سودا کار ایجنٹ منوانے کی دوڑ لگ گئی ہے۔

ذرائع کے مطابق اٹھارہویں آئینی ترمیم کے معاملے پر سیاسی سودے بازی کے حوالے سے اب جبکہ اسٹیبلشمنٹ کو اپوزیشن، بالخصوص مسلم لیگ (نواز) اور پیپلز پارٹی کے تعاون کی ضرورت پڑی ہے تو سب سے بڑی اپوزیشن جماعت مسلم لیگ ن کے دونوں گروپوں کے درمیان قیادت اور پارٹی پر اپنی گرفت ثابت کرنے کی دوڑ تیز ہوگئی ہے، اسی لئے مریم نواز نے اپنے گروپ کی اس وقت سب سے نمایاں شخصیت کے ذریعے پہلی بار اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ خود رابطہ قائم کر کے پیغام دیا ہے کہ پارٹی کے آفیشل صدر کے ہاتھ میں کچھ نہیں، پارٹی پر حقیقتاً ہماری گرفت ہے، لہٰذا کوئی ڈیل کرنی ہے تو ہمارے ساتھ بات کریں۔

دوسری طرف پارٹی صدر شہباز شریف جنہیں ایک روز قبل نیب کی مزید تفتیش کے لئے لمبی تاریخ دلاتے ہوئے، اس دوران اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ معاملہ کرنے کے لئے معقول مہلت دے دی گئی ہے، انہوں نے یہ مہلت ملتے ہی خواجہ آصف کے ذریعے پاور بروکرز کے ساتھ رابطہ کر کے پیغام بھیجا ہے کہ شہباز شریف ان کے ساتھ ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔

واضح رہے کہ شہباز شریف اپنے 2 حالیہ انٹرویوز میں واضح اشارہ دے چکے ہیں کہ وہ پارٹی قائد اور ان کی بیٹی مریم نواز کے بیانیہ سے قطعاً متفق نہیں اور دو ٹوک کہہ چکے ہیں کہ وہ تو فوج اور عدلیہ سمیت تمام ریاستی اداروں کو ساتھ لے کر چلنے پر یقین رکھتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق مقتدر قوتوں نے ریاستی معاملات آگے بڑھانے کی غرض سے اپنی ضرورت کے تحت کپتان کی خواہش کے برعکس اپوزیشن کو مزید رگڑا لگانے سے انکار کر دیا ہے، بلکہ عالمی تقاضوں اور بارڈر کی نازک صورتحال کے پیش نظر اپوزیشن سمیت ملک کی تمام سیاسی قوتوں میں یکجہتی پیدا کرنے کی کوششیں شروع کر دی ہیں تاکہ اٹھارہویں ترمیم کی جزوی یا کلی واپسی سے قومی سلامتی کے ذمہ دار اداروں اور ملکی دفاعی ضروریات کے لئے خاطرخواہ فنڈز دستیاب ہو سکیں۔ دوسری طرف پاک انڈیا سرحدی کشیدگی کے تناظر میں مسلح افواج کو اپنی پشت پر بھرپور قومی و عوامی حمایت حاصل ہو۔

باخبر حلقوں کا کہنا ہے اگرچہ اسٹیبلشمنٹ شریف فیملی اور زرداری سمیت ملک کی دونوں بڑی اپوزیشن پارٹیوں کی قیادت کو رگڑا لگانا چاہتی تھی جیسا کہ وزیراعظم عمران خان کی خواہش اور اولین ترجیح ہے، جنہیں مبینہ طور پر اصل میں اسی مینڈیٹ کے تحت اقتدار میں لایا گیا تھا۔ تاہم عالمی برادری اور بارڈر کے حالات کے پیش نظر ریاستی اداروں کے لئے مزید احتساب احتساب کھیلنا ممکن نہیں رہا۔

سنجیدہ حلقوں کا کہنا ہے کہ ان حالات میں مقتدر حلقوں کے لئے اتنی بڑی اپوزیشن کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں رہا، فرض کریں کل کو آئی ایم ایف ہی کہہ دے کہ آپ کی اپوزیشن تو آپ کے ساتھ ہی نہیں، قومی انتشار اور سیاسی عدم استحکام کی اس صورتحال میں ہم آپ کے ساتھ نہیں چل سکتے اور مزید قرض نہیں دے سکتے، بلکہ اب تک دیے گئے قرضے کی واپسی کا تقاضا کر دے تو ہم کیا کریں گے؟