اٹھارہویں ترمیم کا خاتمہ اور ون یونٹ کی بازگشت

اٹھارہویں ترمیم کا خاتمہ اور ون یونٹ کی بازگشت
طاہر القادری پاکستان آتے ہیں اور مینار پاکستان لاہور میں 23 دسمبر 2012 کو سیاست نہیں ریاست بچاؤ کے نعرے کے ساتھ ایک تاریخی جلسہ کرتے ہیں۔ پھر 14 جنوری 2013 کو لاہور سے اسلام آباد تک لانگ مارچ ہوتا ہے۔ 18ویں ترمیم پر یہ پہلا منظم حملہ تھا۔ نواز شریف حکومت بناتے ہیں۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن ہوتا ہے۔ ایک بار پھر طاہر القادری اسلام آباد کی جانب مارچ کرتے ہیں۔ اب کی بار طاہر القادری کے ہمراہ عمران خان بھی ہیں۔ اسلام آباد میں دونوں دھرنا دیتے ہیں۔ دھرنوں کے پس پردہ صدارتی نظام کی موسیقی بھی سنائی دیتی رہتی ہے۔



آرمی چیف راحیل شریف کی مدت ملازمت ختم ہوتی ہے۔ نئے چیف قمرجاوید باجوہ آتے ہیں۔ نیا کھیل شروع ہوتا ہے۔ پانامہ لیکس کا طوفان آتا ہے جو نوازشریف کی وزارت عظمیٰ کے ختم ہونے پر تھم جاتا ہے۔ نئے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی حکومتی مدت کے باقی دن پورے کرتے ہیں۔ عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کی باری تحریک انصاف کو دے دی جاتی ہے۔ وزیراعظم عمران خان بنائے جاتے ہیں۔ نئی حکومت، نیا ڈاکٹرائن اور نئے لوگ، نیا پاکستان کی بازگشت میں وفاق کو مضبوط بنانے کیلئے تین آپشن رکھے جاتے ہیں۔

اٹھارہویں ترمیم کا خاتمہ کر کے صوبوں کو جانے والا حصہ واپس لیا جائے۔ اٹھارہویں ترمیم کے مؤجب وفاق کی مالی پوزیشن کمزور ہو رہی ہے۔ دوسرا اخراجات کم کرنے کے لئے پارلیمانی نظام کی جگہ صدارتی نظام لایا جائے۔ تیسرا صوبائی وحدتیں ختم کر کے ون یونٹ کا قیام عمل میں لایا جائے تاکہ صوبائی حکومتوں پر اٹھنے والے اخراجات ختم ہوں اور ملک کی ترقی میں حائل رکاٹیں دور کی جا سکیں۔



خواص کی زبان میں اس پروگرام یا خواہش کو ڈاکٹرائن کہا جاتا ہے۔ صدارتی نظام تو ابھی کل کی بات ہے۔ ضیاالحق کے بعد جنرل پرویز مشرف ملک کے صدر تھے۔ مطلب صدارتی نظام کا تجربہ تو کئی بار کر چکے ہیں۔ ون یونٹ بھی دیکھا ہے۔ بار بار تجربے کرنے کوئی عقل کی بات لگتی نہیں ہے۔ اب کی بار تو عمران خان کو وزیراعظم بنانے کا تجربہ بھی کر لیا ہے۔ اس میں عوام کا کیا قصور ہے؟ عوام کو سزا کیوں دی جا رہی ہے؟ ہم نے تھوڑا کیا ہے تجربہ۔

خیر سے ایک سائنسدان تو ابھی باقاعدہ حیات ہیں جو عدالتوں کے بلانے پر بیمار ہو جاتے ہیں۔ ملک سے بھاگے ہوئے ہیں۔ ہاں اگر سیاستدان ہوتے تو نواز شریف کی طرح جیل میں ہوتے یا عدالتوں کی پیشیاں بھگت رہے ہوتے۔ پھر کہتے ہیں کہ ملک سیاستدانوں نے تباہ کیا ہے۔ ملک کی جڑوں میں تو تجربے بیٹھے ہیں۔ سیاست دانوں کو کچھ وقت ملتا ہے تو معاملات درست کرتے ہیں۔ آئین کا بگاڑا گیا چہرہ صاف کرتے ہیں۔ ملک کی تھوڑی بہت بہتر صورتحال بننے ہی لگتی ہے تو پھر کوئی نئے تجربے کی ٹھان کر آتا ہے اور سب کچھ ملیا ملیٹ کر دیتا ہے۔



گو حکومت کی جانب سے اس امر کی تردید آئی ہے کہ حکومت اٹھارہویں ترمیم کے خاتمے کا کوئی ارادہ رکھتی ہے۔ اس کے باوجود خطرہ موجود ہے۔ اس صورتحال میں تمام سیاسی جماعتوں کو حکومت کے ساتھ کھڑا ہونے کی ضرورت ہے۔ اب یہ روایت ختم کی جائے کہ محض حکومت کی مخالفت میں غیر جمہوری عناصر کا ساتھ دیا جائے۔ اس معاملے میں حکومت کو بھی ہوش مندی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔

معاملہ فوری پارلیمنٹ میں زیر بحث لایا جائے اور پارلیمنٹ کی حمایت حاصل کرتے ہوئے کسی بھی غیرجمہوری ڈاکٹرائن کو پوری قوت سے مسترد کیا جائے۔ ساتھ آئین اور قانون کی بالادستی کیلئے ملک سے غداری کے مرتکب مفرور پرویز مشرف کو پاکستان لا کر عدالتوں کے سامنے پیش کیا جائے تاکہ اٹھارہویں ترمیم کے خاتمے، صدارتی نظام اور ون یونٹ کے قیام کی بازگشت ختم ہو اور ملک حقیقی جمہوریت کی پٹری پر رواں دواں رہے۔

مصنف ایک لکھاری اور صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے کارکن بھی ہیں۔