آج کل حکومتی و اپوزیشن جماعتوں کے درمیان آئین میں اٹھارہویں ترمیم کو لے کر ایک کشمکش جاری ہے۔ اپوزیشن کے مطابق تحریک انصاف اس ترمیم کو بدلنا چاہتی ہے جس کے لئے ملک میں اس کے خلاف منفی رائے عامہ ترتیب دی جا رہی ہے۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ مخلوط حکومت آئین میں کوئی ترمیم کر ہی نہیں سکتی کیونکہ اس کے پاس دو تہائی اکثریت موجود ہی نہیں جو اس وقت کی حکومت کے پاس تھی۔ اٹھارہویں ترمیم میں جہاں صدر کے اختیارات کو کم کیا گیا وہاں انتظامی اور خزانے کی تقسیم میں صوبوں کو خودمختار بنایا گیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس اہم ترمیم کی وجہ سے ملکی سیاست پر کیا اثر ہوا تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ وزیراعظم کے اختیارات میں اضافہ ہوا، اسمبلیاں اپنی مدت پوری کر کے تحلیل ہوئیں جبکہ صدر کے اختیارات بالکل ختم ہو گئے۔ صوبے بہت حد تک خود مختار ہوئے جبکہ خزانے کی تقسیم میں صوبوں کا ایک بڑا اختیار سامنے آیا۔
https://www.youtube.com/watch?v=cZA6ejutZXY
مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اسی دور میں قومی خزانے کو بے دریغ خالی کیا گیا، غیر ترقیاتی اخراجات ہوئے اور ملک قرضوں کی دلدل میں دھنستا چلا گیا۔ صوبوں کے درمیان محاصل کی تقسیم کا فارمولا مسلسل اختلافات کا شکار ہوتا ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ حال ہی میں ایک دفعہ پھر قومی محاصل کی صوبوں میں تقسیم کا فارمولا طے کرنے کیلئے قائم نویں قومی مالیاتی کمیشن کے پہلے اجلاس میں وفاق اور صوبوں کے درمیان این ایف سی کے نئے فارمولے پراختلافات کا انکشاف ہوا ہے۔ ہم ایک ترقی پذیر ملک ہیں جہاں بجٹ میں اخراجات کو آمدن کے ساتھ کنٹرول کیا جانا چاہیے تاکہ غیر ترقیاتی اخراجات پر پیسہ برباد کرنے کی بجائے وفاق کی مرضی اور صوبوں کی جائز ضرورت کے مطابق خزانے کا استعمال ہو۔
https://www.youtube.com/watch?v=xgfLVt3MlL8
اٹھارہویں ترمیم پر اگر روشنی ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ اس ترمیم کی وجہ سے آئین میں بہت ساری اہم تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ آئین کے اہم آرٹیکلز میں کی گئی ترامیم کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے۔ صدر کو وزیر اعظم کی مشاورت سے اسمبلی تحلیل ہونے یا اپنی مدت پوری کرنے پر عام انتخابات منعقد کروانے ہوں گے اور وہی نگران کابینہ تعینات کریں گے۔ آرٹیکل 58(2) بی کی بابت کہا گیا ہے کہ صدر کے پاس سے اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار واپس لے لیا گیا ہے۔ وفاق اور صوبوں کے درمیان تمام کنکرنٹ لسٹ ختم کی جانے کی سفارشات بھی شامل ہیں۔ صوبائی گورنر اسی صوبے کا ہی رہائشی تعینات کیا جا سکتا ہے اور صوبائی اسمبلی کا سپیکر گورنر کی غیر موجودگی میں قائم مقام گورنر ہوگا۔ صوبائی حکومت وفاق یا کسی اہلکار کو اپنا اختیار دیتی ہے تو اس کی اسے صوبائی اسمبلی سے توثیق کروانا لازمی ہوگی۔ وزیر اعظم مشترکہ مفادات کونسل کے چیئرمین، چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اراکین جبکہ وفاقی حکومت کے تین اراکین شامل ہوں گے۔ وفاقی حکومت اس صوبے سے مشاورت کی پابند ہوگی جہاں آبی ذخیرہ تعمیر کیا جا رہا ہوگا۔ صوبوں کا حصہ ترمیم سے پہلے کے این ایف سی ایوارڈ سے کم نہیں کیا جا سکتا جبکہ صوبوں کو قومی مالیاتی کمیشن کی مقرر کردہ حد کے اندر مقامی یا بین الاقوامی سطح پر قرضے حاصل کرنے کی اجازت ہے۔ تیل و گیس جیسے قدرتی وسائل کا اختیار صوبے اور وفاق کے درمیان مشترکہ کر دیا گیا۔ ہنگامی حالت کے نفاذ کے لئے صوبائی اسمبلی کی قرارداد صدر کو بھیجی جائے گی۔ اگر صدر خود ہنگامی حالت نافذ کرتا ہے تو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے سامنے توثیق کے لئے پیش کرنے کا پابند ہوگا۔ ترمیم کی رو سے لوکل گورنمنٹس کو مزید مضبوط، خود مختار اور فعال بنایا جائے گا تاکہ ریاستی تشخص کو مزید بہتر ڈھنگ سے مضبوط کیا جا سکے۔
https://www.youtube.com/watch?v=0WPbzGZX4h4
اگر دیکھا جائے تو سیاسی و انتظامی طور پر صوبوں کی خودمختاری میں اضافے سے امور حکومت بہتر ہوئے ہیں اور عام آدمی کی سیاست و انتظامی ڈھانچے تک رسائی یقینی ہو سکی۔ مگر دوسری طرف خزانے پر کنٹرول کی وجہ سے صوبے اکژ اپنے بجٹ میں ایسے اخراجات کو اہمیت دیتے ہیں کہ جس سے ملکی آمدنی میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا اور یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اکثر بجٹ کا استعمال کیا ہی نہیں جاتا اور سال کے اختتام پر یہ بجٹ ضائع ہو جاتا ہے۔ خزانے کی تقسیم پر ہر این ایف سی ایوارڈ، ڈیم کی تعمیر و پانی کی تقسیم پر اختلافات سامنے آتے رہتے ہیں۔ موجودہ دور حکومت میں بھی این ایف سی ایوارڈ کے موقع پر اختلافات سامنے آنے شروع ہو گئے ہیں۔
حال ہی میں اس حوالے سے اسد عمر کی زیر صدارت اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں وفاقی سیکرٹری خزانہ عارف خان نے مالیاتی صورتحال پر بریفنگ دی جبکہ صوبوں کی جانب سے بھی اپنے اپنے صوبے کی مالیاتی صورتحال کے بارے میں تفصیلی برفنگ دی گئی۔ اجلاس میں ملک کی ترقی اورعوامی فلاح و بہبود کے لئے وفاق اور صوبوں کے وسائل بڑھانے کی ضرورت پر زرو دیا گیا ہے تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ این ایف سی اجلاس میں وفاق اور صوبوں کے درمیان این ایف سی کے نئے فارمولے پر اختلافات بھی سامنے آئے ہیں اور اجلاس میں صوبوں نے اشیا پر سیلز ٹیکس وصولی کا اختیار مانگ لیا ہے جبکہ فاٹا کو تین فیصد حصہ دینے کے فیصلے کی بھی مخالفت کردی ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ این ایف سی سے سندھ کو 104 ارب روپے کم فراہم کیے گئے، فاٹا کا سارا بوجھ صوبوں پر نہیں ڈالا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ فاٹا وفاق کی ذمہ داری ہے جبکہ فاٹا کے پی میں ضم ہو چکا ہے، کے پی اور وفاق کوہی اس کو ڈیل کرنا پڑے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ فاٹا کے سلسلے میں صوبوں سے مزید وسائل کی توقع نہیں کرنی چاہیے۔ وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر کا کہنا تھا کہ صوبوں کوآئی ایم ایف سے مذاکرات میں شامل کیا جائے گا جب تک ٹیکس آمدن نہیں بڑھتی وفاق اورصوبوں کا حصہ نہیں بڑھ سکتا ہے۔
این ایف سی اجلاس میں وزیر خزانہ نے اٹھارہویں ترمیم پر پالیسی بیان دیتے ہوئے کہا کہ18ویں ترمیم کو تسلیم کرتے ہیں۔ اٹھارہویں ترمیم صوبوں اور این ایف سی کی درست سمت میں قدم ہے اوراٹھاہرویں ترمیم کو رول بیک کرنے کی کوئی پالیسی نہیں ہے۔ وزیرخزانہ کا کہنا تھا کہ این ایف سی میں صوبوں کے حصے کی آئینی گارنٹی ہے اس کو کم نہیں کیا جا سکتا۔ اجلاس میں صوبوں نے ایف بی آر کی کارکردگی پرتحفظات کا اظہار کیا اورایف بی آر پالیسی میں اپنا اختیار مانگ لیا۔ اجلاس میں فاٹا کے امور سے متعلق تجاویز تیار کرنے کے لئے چھ ذیلی گروپ تشکیل دے دیے گئے ہیں۔ یہ گروپ فاٹا کے امور، کاروبار کو آسان بنانے، بڑے معاشی معاملات اور وسائل کی افقی اور عمودی تقسیم کے حوالے سے تجاویز پیش کریں گے۔ اجلاس میں نئے قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ کے تحت قومی وسائل کی بہتر انداز میں تقسیم کے حوالے سے سفارشات کا جائزہ لیا گیا۔ اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیر خزانہ و این ایف سی میں پنجاب کے نمائندے ڈاکٹر سلمان شاہ نے بتایا کہ اجلاس میں ملک کے اخراجات اور آمدن پر تفصیلی بات چیت ہوئی ہے۔ آنے والے سالوں میں ریونیو میں اضافے کے زیادہ امکانات ہیں اس سے صوبوں اور وفاق کو فائدہ پہنچے گا۔ سندھ کے وزیراعلیٰ کے برعکس ان کا کہنا تھا کہ فاٹا پورے پاکستان کی ذمہ داری ہے اورہمیں کہیں نہ کہیں سے فاٹا کی تعمیر نو کرنا ہوگی۔ فاٹا وفاق اور صوبوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔