مقتدر حلقوں نے اٹھارہویں آئینی ترمیم کی واپسی کے لئے اپوزیشن کے علاوہ حکومت کی اتحادی جماعتوں کے ساتھ بھی درپردہ مذاکرات شروع کر دیے ہیں۔ تاہم اس پر پارلیمانی پیش رفت کا آغاز نیب قانون میں ترامیم بارے اہم قانون سازی عمل میں آ جانے کے بعد ہو گا جبکہ نیب لا کے "سانپ" کا ڈنک نکال دینے والے مجوزہ قانونی ڈرافٹ کی لڑائی پر حکومت نے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔
جہاں پوری قوم کرونا وائرس کی ہلاکت خیز وبا اور اس کی بنا پر ملک گیر لاک ڈاؤن کے عذاب سے گزرتے ہوئے سماجی دوری کے مرحلے سے گز رہی ہے وہیں ذرائع کے مطابق اسلام آباد میں مقتدر قوتوں کے لوگ خفیہ طور پر پارلیمنٹ میں وجود رکھنے والی سیاسی قوتوں کے لوگوں کے ساتھ 18ویں ترمیم پر سودے بازی کے لئے سر جوڑے بیٹھے ہیں۔ ذرائع کے مطابق گذشتہ 48 گھنٹوں کے دوران دارالخلافہ میں اہم شخصیات کے اپوزیشن کی پارلیمانی قوتوں کے ساتھ ساتھ حکومت کی اتحادی پارٹیوں کے لوگوں کے ساتھ خفیہ اجلاس ہوئے ہیں، جن میں ق لیگ، ایم کیو ایم، جے یو آئی ف اور اے این پی شامل ہیں۔ ان خفیہ مذاکرات میں این ایف سی ایوارڈ سمیت قومی محاصل میں صوبوں کا حصہ کم کرنے اور وفاق کے لئے فنڈز زیادہ کرنے سے متعلق اٹھارہویں آئینی ترمیم کی بعض شقوں پر نظرثانی کرنے پر اہم بات چیت عمل میں آئی ہے۔ جس میں اٹھارہویں ترمیم پر نظرثانی کر کے اس میں سے ایسی شقیں حذف کر دینے یا ان میں کلیدی نوعیت کی ترامیم عمل میں لانے اور اس کے بدلے اپوزیشن و اتحادی جماعتوں کو سیاسی فوائد دیے جانے پر بحث ہوئی ہے۔ تاہم ان مذاکرات میں ہونے والی کسی افہام و تفہیم کے عملی نتائج کا مرحلہ نیب آرڈیننس مجریہ 1999 میں کلیدی ترامیم کے لئے ضروری قانون سازی کا مرحلہ عبور کر لیے جانے کے بعد آئے گا۔
دریں اثنا ذرائع کے مطابق حکومت نے نیب لا میں تجویز کی گئیں وہی ترامیم قبول کر لی ہیں جن پر پرائم منسٹر ہاؤس کے مبینہ شدید تحفظات اور اس کی بنا پر مقتدر حلقوں کے ساتھ اختلاف رائے کی وجہ سے ترامیم کا مسودہ قانون یکایک آؤٹ کروا دیا گیا تھا تاکہ اس ضمن میں ضروری قانون سازی کا پراسیس فی الحال روکا جا سکے۔ مسودے میں شامل بعض ترامیم سے لامحدود اختیارات رکھنے والا نیب ایک قدرے بے ضرر ادارہ بن کے رہ جائے گا جبکہ آصف زرداری اور شریف فیملی سمیت بڑی اپوزیشن پارٹیوں کی اعلیٰ قیادت کو ان ترامیم سے غیر معمولی ریلیف مل سکے گا۔
ذرائع کا خیال ہے کہ یہ مقصد حاصل کرنے کی غرض سے پرائم منسٹر ہاؤس کو ڈرایا گیا ہے کہ اس عمل میں رکاوٹ ڈالنے پر 2017 کی تاریخ دہرائی جاسکتی ہے اور اعلیٰ سیاسی شخصیت کو دوسرا نواز شریف بنا دیا جائے گا، جن کے وزیراعظم ہوتے ہوئے ریاستی اداروں کے ذریعے انہیں کٹہرے میں لا کھڑا کرنے اور بعد ازاں عملی صعوبتوں کے ساتھ ساتھ بھاری سیاسی قیمت چکانے پر مجبور کر دیا گیا تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کپتان کو باور کروا دیا گیا ہے کہ بدعنوانی کے سنگین الزامات میں لتھڑے ان کی ٹیم کے بہت سے ارکان (وزرا) پر ہاتھ ڈالا گیا تو ٹیم کا کپتان بھی بچ نہیں پائے گا۔