آئندہ ماہ میں پاکستان پیپلز پارٹی وزیراعظم شہباز شریف کی وفاقی کابینہ کا حصہ بننےجارہی ہے جس کے بعد سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کو کسی وزرات کا قلمدان سونپا جائے گا۔ بلاول بھٹو کو دوبارہ سے وزارت خارجہ دے کر اسحاق ڈار کو ڈپٹی پرائم منسٹر بنایا جائے گا۔ یہ کہنا تھا سینئر صحافی اور تجزیہ کار جاوید چوہدری کا۔
صحافی جاوید چوہدری نے اپنے حالیہ وی-لاگ میں بتایا ہے کہ عید کے بعد اسحاق ڈار کو ڈپٹی پرائم منسٹر بنایا جانے کا امکان ہے کیونکہ وہ نواز شریف اور شہباز شریف کے رشتہ دار بھی ہیں اور قریبی بھی ہیں تو انہیں کہیں نہ کہیں ایڈجسٹ کرنا بھی ضروری ہے۔اکثر تو یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ وہی سب کچھ ہیں اور ان کے بغیر حکومت نہیں چل سکتی۔ اور باقی ماندہ وزارتوں میں سے وزارت خزانہ کے علاوہ کوئی وزارت ایسی نہیں جس سے اسحاق ڈار کو اطمینان ملے۔ اس لیے ان کے لیے نائب وزیراعظم کا عہدہ تخلیق کیا جائے گا۔ نائب وزیراعظم بنا کراسحاق ڈار کو موقع دیا جائے گا کہ وہ ملکی معیشت کے امور بھی اپنے ہاتھوں میں لے لیں گے۔ جو بھی معاشی امور وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کے پاس ہیں وہ بھی اسحاق ڈار کنٹرول کریں گے۔
جاوید چوہدری کا کہنا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے وفاقی کابینہ میں شامل ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ کچھ لوگوں کی رائے ہیں کہ پیپلز پارٹی عید کے فوری بعد کابینہ کا حصہ بنے گی تاہم کچھ کی رائے کے مطابق پی پی بجٹ کے بعد کابینہ میں شامل ہو گی۔ کابینہ میں شامل ہونے کی صورت میں پیپلز پارٹی کی دو شرائط ہوں گی۔ پہلی تو یہ کہ بلاول بھٹو کو نائب وزیراعظم بنایا جائے۔ لیکن اگر حکومت اس شرط کو نہیں مانتی تو بلاول بھٹو کو وزیر خارجہ بنایا جائے گا۔ وہ وزیر خارجہ اس لیے بھی بننا چاہتے ہیں کہ اس وزارت میں ایک جہاز اور بہت خطیر رقم بطور وزارت فنڈ موجود ہے جبکہ انہیں دنیا بھر کے دورے کا اور اپنے پورٹ فولیو کو مزید بہت بنانے کا موقع بھی ملے گا۔ گزشتہ 10، 17 ماہ میں بلاول بھٹو نے پوری دنیا دیکھی اور یہ کہا جارہا ہے کہ ملکی تاریخ میں وزرات خارجہ کا بجٹ سب سے زیادہ بلاول بھٹو نے استعمال کیا۔جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ اتنے دورے کیوں کرتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ میں وزیر خارجہ ہوں، وزیر داخلہ تھوڑی ہوں جو گھر میں ہی بیٹھا رہوں۔
تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
صحافی نے کہا کہ بلاول بھٹو کی یہ بات درست بھی ہے کہ وزیر خارجہ کو ہر وقت میدان میں نظر آنا چاہیے اور ہر فورم پر جاکر اپنی آواز اٹھانی چاہیے۔ اس حوالے سے بلاول بھٹو بالکل درست ہیں اور وی انٹرنیشنل فورمز پر جاکر بہت پراعتماد طریقے سے اپنا موقف بتاتے ہیں۔ جبکہ موجودہ وزیر خارجہ اسحاق ڈار عالمی فورمز پر کھل کر بات کرنے میں جھجھک محسوس کرتے ہیں۔
سینئر تجزیہ کار کا کہنا تھا کہ جونہی پیپلز پارٹی وفاقی کابینہ میں آتی ہے تو اگر اسحاق ڈار وزارت خارجہ رکھتے ہیں تو بلاول بھٹو نائب وزیراعظم بنیں گے۔ لیکن اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر بلاول وزیر خارجہ اور اسحاق ڈار ڈپٹی پرائم منسٹر ہوں گے۔ اس سارے لین دین میں دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میں سب سے زیادہ فائدہ پیپلز پارٹی کو ہوا ہے۔ پیپلز پارٹی کا کمال ہے کہ انہوں نے وفاقی کابینہ میں شمولیت اختیار نہیں کی لیکن اس کے بدلے میں انہوں نے حکومت سے کیا کچھ نہیں لیا۔ چیئرمین سینیٹ، صدارت، دو صوبوں میں گورنرشپ، متعدد اداروں کی چیئرمین شپ پیپلز پارٹی لے لی۔ اب ان کا اگلا قدم یہ ہے کہ وہ وفاقی کابینہ میں شریک ہوں گے اور وہاں بھی اپنی شرائط منوائیں گے۔ لہٰذا پیپلز پارٹی پوری گیم میں ہر طرح سے فاتح ہے جبکہ مسلم لیگ ن اس تمام معاملے میں ہار گئی ہے کیونکہ انہوں نے تمام بڑے عہدے پیپلز پارٹی کو دے دیے۔ بہت سارے مطالبات مان لیے اور اب کابینہ میں جگہ بھی دینی پڑ رہی ہے اور وزارتیں بھی ان کی من پسند دینی پڑِیں گی۔
اس ساری صورتحال سے دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ حقیقت میں سمجھ دار کون ہے۔ ایک زرداری واقعی سب پر بھاری پڑ گیا ہے۔