کرونا کی عالمی وبا کے دوران اٹھارویں ترمیم کا مقدمہ

کرونا کی عالمی وبا کے دوران اٹھارویں ترمیم کا مقدمہ
کورونا وائرس ایک عالمی وبا کے طور پر سامنے آئی ہے، جس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اس وبا کے حوالے سے مختلف سازشی نظریے جنم لے رہے ہیں، جو کے کچھ عرصے بعد کھل کر سامنے آ ئیں گے جب پوری دنیا اس وبا سے نمٹنے میں کامیاب ہو پائے گی۔ کیوں کے ابھی تک تو تقریبا پوری دنیا اس سےنکلنے کی کوشش میں مصروف ہے اور مزے کی بات کہ امریکا جیسی دنیا کی سپر پاور، جس نے پوری دنیا کے اندر اپنی دھونس بنائے رکھی تھی اور جو ایٹمی طاقت کے نشے میں مدہوش رہا اس کے پاس بھی کرونا سے بچنے کا ابھی تک کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا۔ اگر ظاہری طور پر دیکھا جائے تو کورونا کی بنیاد چین کا شہر ووہان تھا، لیکن اس حوالے سے بھی مختلف باتیں سامنے آرہی ہیں، جس حوالے سے روس نے کورونا وبا پھیلانے کا امریکہ کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ اسی طرح ایران کا بھی روس سے ہی ملتا جلتا موقف سامنے آ چکا ہے اور عبداللہ ہارون کا حیران کن موقف بھی منظرعام پر آ چکا ہے۔ لیکن چین ابھی تک اس حوالے سے خاموشی اختیار کرکے بیٹھا ہے اور نظر یہ ہی آ رہا ہے کہ چین کوئی کچی گولی کھیلنے کے موڈ میں بالکل نہیں ہے۔ کورونا وا ئرس چاہے کہیں سے بھی پھیلا ہو، بہرحال اس نے جو پوری دنیا کے اندر تباہی مچائی ہے، اس سے نہ تو کوئی ترقی یافتہ ملک بچ سکا ہے اور نہ ہی پاکستان جیسا معاشی طور پر کوئی کمزور ملک۔

پاکستان میں بقول سرکاری بیانیے کے ابھی تک وائرس کے جتنے بھی کیس رپورٹ ہوئے ہیں، وہ چین نہیں بلکہ ایران کے قُم شہر سے زا ئرین کے ذریعے پاکستان پہنچے ہیں۔ اس وبا کا پاکستان بیشک براستہ ایران ہی شکار بنا ہو، لیکن اس کے پیچھے پاکستان کی حکومتوں کی لاپرواہی کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
جب زائرین کی اتنی بڑی تعداد ایران سے لوٹ رہی تھی تو بجا ئے ان کو بغیر ٹیسٹ کیے اپنے صوبوں اور شہروں کی طرف بھیجنے کے، ان کو بہتر طریقے سے چیک کرنے اور تفتان میں ہی قرنطینہ سینٹرز کا قیام عمل میں لانا چاہیے تھا۔ لیکن اگر یہ ممکن نہیں تھا، تو کم از کم سارے زائرین کو بہت احتیاط کے ساتھ اپنے صوبوں اور شہروں میں واپس لاکر انہیں قرنطینہ کرنے کا بندوبست کرنا چاہیے تھا، جو کہ بدقسمتی سے نہیں ہوا۔ جس کے بہت برے نتائج نکلے جن کو ہم ابھی تک بھگت رہے ہیں۔ بہرحال اس ساری صورتحال میں ایک چیز سب سے نمایاں رہی اور آج بھی نمایاں ہے، وہ ہے وفاق اور صوبوں کا فیصلے لینے میں ایک دوسرے سے تضاد۔
پاکستان کا شمار دنیا کے ان چند ممالک میں ہوتا ہے جہاں پر وفاقی نظام حکومت رائج ہے۔ ویسے تو دنیا کے اندر وفاقیت کی مختلف اشکال نظر آتی ہیں، لیکن دنیا کے ان ممالک میں وفاقیت کے حوالے سے ایک مماثلت واضع نظر آتی ہے کہ مرکز اور صوبوں کے بیچ پاور کی تقسیم کے لیئے وفاقی نظام کا ہونا بہت ضروری ہوتا ہے۔ اسی تناظر میں اگر مشترکہ ہندوستان میں مسلم لیگ کی سیاست اور ہندوستان کی تقسیم کے بعد پاکستان کی تشکیل کو دیکھا جائے تو مشترکہ ہندوستان میں مسلم لیگ کی ساری لڑائی کا محور ہی مسلم اکثریتی علاقوں اور صوبوں کے لیئے خودمختاری کی مانگ تھی، جو مانگ پوری نہ ہونے کی صورت میں ہی پاکستان میں شمولیت اختیار کرنے کے لیئے چھوٹے صوبوں نے ہامی بھری۔ لیکن ملک بننے کے بعد ساری صورتحال تبدیل ہوکر رہ گئی۔
پاکستان بننے کے بعد نہ صرف زبردستی اردو کو ملک کی واحد قومی زبان بنانے کے ساتھ ساتھ پاکستان کو ایک کثیرالاقوامی ملک ماننے سے انکار کیا گیا، بلکہ پاکستان کو صرف برائے نام ہی وفاقی ملک بنانے کی کوشش کی گئی۔

مثلاْ قرارداد مقاصد سے لے کر ملک کے پہلے آئین تک ملک کو وفاقی ملک تو کہا گیا، لیکن 1956 کے آئین سے ایک سال پہلے ملک میں ون یونٹ نافذ کرکے اس وقت کے مغربی پاکستان کے صوبوں کے وجود کو ہی ماننے سے انکار کردیا گیا۔ پھر 1962 والے آئین میں تو پاکستان کو وفاقی ملک ماننے سے ہی گریز کرتے ہوئے صدارتی نظام رائج کردیا گیا۔ اگرچہ 1973 کے آئین میں پاکستان کو وفاقیت کا درجہ دینے کے ساتھ ساتھ سی سی آئی کا قیام عمل میں لانے سمیت صوبوں کو یہ اختیار دینا کے وہ اپنی مرضی سے صوبے کے اندر کسی بھی زبان کو قومی زبان کا درجہ دے سکتے ہیں، لیکن اس کے باوجود کنکرنٹ لسٹ کو شامل کرنے سے صوبائی خودمختاری کے معاملے میں صوبوں کو کافی حد تک نقصان ضرور پہنچا۔
صوبائی خودمختاری کے تناظر میں اٹھارویں آئینی ترمیم کی حتیٰ کہ بہت اہمیت ہے لیکن اس پر بھی عمل کرنے کے حوالے سے کافی سوالات اٹھتے رہتے ہیں۔ حالانکہ اگر دیکھا جائے تو پاکستان جیسے ملک جہاں پر آج تک جمہوریت کبھی پروان چڑھ ہی نہیں سکی، کیوں کے جس ملک میں حکمران بھی عوام کی بجائے کوئی اور قوت چنتی ہو، وہاں کیسی جمہوریت؟  بھرحال اٹھارویں ترمیم کے لیئے سارے صوبوں خاص طور پر پنجاب اور ساتھ میں وفاق کو راضی کرنا اتنا آسان یقینناْ نہیں تھا، بھرحال اس سب کے باوجود بھی ترمیم کا اتفاق رائے کے ساتھ پاس ہونا پی پی سمیت ساری سویلین قوتوں کی جیت تھی۔ جب ترمیم پاس ہوئی تو اس کو عمل میں لانے کے حوالے سے بحث نے جنم لیا اور یہ عمل بڑے عرصے تک نظر نہیں آتا رہا۔ لیکن اب کورونا وائرس جیسی وبا کا سامنا کرنا جو کے وفاقی حکومت کے لیئے اکیلے ممکن نہیں تھا، اس صورتحال کا فائدہ اٹھانے کے لیئے سندھ نے اٹھارویں ترمیم کا خوب استعمال کیا ہے۔
کورونا جہاں تک ایک عالمی وبا ہے تو وہیں پر وہ ایک علاقائی وبا بھی ہے، کیوں کے یہ وبا ہر خطے کو ایک ہی طرح سے نقصان نہیں پہنچاتی، بلکہ اس کا کہیں پر اثر کم ہے تو کہیں پر زیادہ۔ اسی طرح پاکستان میں شروع میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والا صوبہ سندھ تھا، کیوں کے وہاں پر اس وقت ایران سے آنے والے زائرین کی تعداد زیادہ تھی۔ اسی لیئے یے بہت ضروری تھا کے جتنا جلد ہوسکتا تھا سندھ کو حفاظتی انتظامات لینے تھے، جس کے لیئے انہیں سب سے پہلے لاک ڈاؤن کی طرف جانا تھا، لیکن وفاق کی طرف سے اس معاملے میں سندھ کی حمایت کرنے سے مکمل انکار کیا گیا۔ جس کے نتیجے میں سندھ کو اٹھارویں ترمیم کا سہارا لیتے ہوئے خود فیصلے کرنے پڑے۔ مثلاْ تعلیمی ادارے مئی کے مہینے تک بند رکھنے کا اعلان سب سے پہلے سندھ نے کیا۔ اسی طرح لاکڈاؤن سے لیکر ایسے ایسے اقدامات جن کے لیئے وفاقی حکومت قطعی طور پر راضی نہیں تھی، وہ اقدامات بھی سندھ حکومت نے اٹھائے، جن کی بعد میں نہ صرف باقی صوبوں بلکہ وفاق کو بھی تائید کرنی پڑی۔

حالانکہ اگر دیکھا جائے تو ایسے مشکل حالات میں ملک کے اندر اختلافات کی بجائے اتفاق قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، جس حوالے سے سب سے پہلا قدم اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کے اختیارات کو مدنظر رکھتے ہوئے وفاق کو آگے آنا چاہیے کیوں کے وزیراعظم پورے ملک کا ہوتا ہے، جس کو پورے ملک کی عوام کی فلاح و بحبود کے بارے میں سوچنا چاہیے۔

 

  1.  مصنف نے حال ہی میں چائنا کی شنگھائی یونیورسٹی سے پی ایڇ ڈی مکمل کی ہے اور ان کا پی ایڇ ڈی تھیسز کا موضوع سندھ اور بلوچستان کی بائیں بازو اور قومپرست تحریکیں رہی ہیں۔ اس سے قبل قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے کیے گئے ان کے ایم فل کے تھیسز کا موضوع بھی سندھ کی بائیں بازو کی تحریکوں کی تاریخ رہا ہے.)