گذشتہ ہفتہ پاکستان کی سیاسی اور پارلیمانی تاریخ میں ایک اہم اور ہنگامہ خیز دور کی حیثیت سے جانا جاتا رہے گا، کیونکہ جس طریقے سے ان ترامیم کے پیکج کو خفیہ انداز میں رکھ کر منظور کرانے کی کوشش ہوتی رہی وہ خود ناصرف قابل تشویش ہے بلکہ پارلیمانی جمہوریت کے لئے نقصان دہ بھی سمجھی جائے گی۔
مبینہ ترامیم کے پیکج کے ڈرافٹ کو اس قدر خفیہ رکھا گیا کہ پارلیمان کی دو بڑی جماعتوں پاکستان تحریک انصاف اور جمعیت علماء اسلام فضل الرحمان گروپ کے پاس پڑھنے کے لئے مسودہ ہی نہیں تھا کہ وہ اس کو پڑھ کر اس پر بحث کر سکیں اور ترمیم میں مناسب تبدیلیاں پیش کر سکیں۔ حکومتی اتحاد میں شامل دوسری بڑی پارٹی پیپلز پارٹی کے پاس ترامیم کا مسودہ اور مولانا فضل الرحمان کو ملاقاتوں میں پیش کیا جانے والا مسودہ ایک دوسرے سے مختلف تھے جس سے کئی سوالیہ نشان کھڑے ہو گئے کہ یہ دونوں مسودے آخر آئے کہاں سے؟
اس صورت حال میں تحریک انصاف کے بانی عمران خان جو آج کل اڈیالہ جیل میں قید و بند کی صعوبتیں کاٹ رہے ہیں، ان کا وہ مشہور ویڈیو بیان یاد آ گیا جس میں وہ کہتے پائے گئے کہ 'ہمیں بل پاس کرانا ہوتا تھا تو منتیں کرنی پڑتی تھیں، ہمیں ایجنسیوں کو کہنا پڑتا تھا کہ انہیں اسمبلیوں میں لے کر آؤ ووٹ کرانے کے لئے'۔ وہ کلپ آج بھی سوشل میڈیا پر تقسیم کیا جا رہا ہے کہ ملک میں آئین سازی اور قانون سازی کس طرح کی جاتی رہی یا پھر کی جا رہی ہے۔
مبینہ طور پر 26 ویں آئینی ترمیم کے پیکج میں 50 تجاویز شامل تھیں جن میں سے زیادہ تر کا تعلق عدلیہ سے متعلق بتایا جاتا ہے، اور ان میں اہم ترین سپریم کورٹ کے متوازی ایک وفاقی آئینی عدالت کا قیام تھا، جس کا کام صرف آئینی معاملات کو دیکھنا، آئینی درخواستوں کو نمٹنا اور آئین کی تشریح کرنا ہوگا۔ جبکہ وفاقی آئینی عدالت کے ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر 65 سال کے بجائے 68 سال کرنے کی تجویز تھی جس نے یہ عندیہ دیا کہ یہ سب موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کو ایکسٹینشن دے کر ان کو نئی وفاقی آئینی عدالت میں برقرار رکھ کر ان کی مدد سے تحریک انصاف اور اس کی باغی لیڈرشپ سے نمٹا جائے۔ عمران خان نے تو جیل میں میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے یہ الزام لگا ہی دیا کہ آئینی ترامیم ان کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کے لئے کی جا رہی ہیں۔
وفاقی آئینی عدالت اگر قائم ہو جاتی ہے تو پاکستان ان 77 ممالک کی فہرست میں شامل ہو جاتا ہے جہاں یہ عدالتیں پہلے ہی کام کر رہی ہیں۔ انٹرنیشنل کونسل آف جیورسٹس کے لئے جنوبی ایشیا کی مشیر اور ممتاز قانونی اور آئینی تجزیہ نگار ریما عمر نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر لکھا؛ "ان ممالک کے قانونی نظام اور تاریخ کو سمجھیں جہاں مخصوص آئینی عدالتیں ہیں، وہ پاکستان سے بہت مختلف ہیں۔ پاکستانی نظام کی بنیاد common law ہے۔ ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ بااختیار 'آئینی عدالتوں' کے طور پر موجود ہیں۔ ہمارے تناظر میں عدالتی نظام میں اس ریڈیکل تبدیلی کا کیا مقصد ہے؟"
ان کا یہ بھی کہنا تھا؛ "بہت سے ممالک میں transition کے دوران authoritarianism کا مقابلہ کرنے کے لیے آئینی عدالتیں قائم کی گئیں کیونکہ عام عدالتیں کمزورتھیں۔ پاکستان میں جہاں عدالتیں پہلے ہی بااختیار ہیں ہم سپریم کورٹ کو کمزور کرنے اور authoritarianism کی سہولت کاری کے لیے آئینی عدالت قائم کر رہے ہیں"۔
اب یہاں دو سوال پیدا ہوتے ہیں کہ کیا آئینی ترمیم کے پیکج پر عوامی رائے عامہ کو ہموار کیا گیا تاکہ اس کے حق میں عوامی رائے کو ہموار کیا جا سکے؟ اور دوسرا اہم سوال کہ آخر کیا موجودہ حکمران جماعتیں یہ ترامیم چاہتی ہیں یا پھر ان کے پیچھے خفیہ ہاتھوں کی یہ خواہش ہے، جو صرف اور صرف منتخب لیڈرشپ کے بجائے حقیقی اقتدار اور وسائل پر اپنی گرفت مزید مضبوط کرنا چاہتے ہیں؟
مؤثر قانون سازی اور کسی بھی قانون پر عوامی آرا انتہائی اہمیت کی حامل ہے، جس سے قوانین کے نکات کو مؤثر بنا کر بہترین طریقے سے ان پر عمل کیا جا سکتا ہے جس میں عوامی خواہشات اور ان کی ریاست سے توقعات شامل ہوتی ہیں۔ شفافیت اور احتساب پر بھروسہ کے ساتھ ساتھ حکومت اور ریاست پر عوامی اعتماد میں اضافہ ہوتا ہے کہ ان کی منتخب کردہ لیڈرشپ ان کی امیدوں اور خواہشات کے مطابق قانون سازی ان کے لئے کر رہی ہے۔
معروف مغربی سیاسی مفکر جان لاک عمرانی معاہدے یا سوشل کنٹریکٹ تھیوری میں کہتا ہے؛ "حکومتیں حکمرانی کا اختیار اپنے رعایا کی رضامندی سے حاصل کرتی ہیں، اور نمائندگان کے رویہ سے عوام کی مرضی نظر آنی چاہیے۔ جبکہ قانون سازی پر عوامی بحث سے قانون میں عوام کی حمایت نظر آتی ہے"۔
اتنی اہم قانون سازی اور آئین کے بنیادی ڈھانچے کو ہی جڑ سے تبدیل کرنے والے آئینی پیکج کو اسمبلی میں پیش کرنے سے پہلے ہی شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا کہ دو تہائی اکثریت جو کسی بھی ترمیم کی منظوری کے لئے ہر صورت درکار ہوتی ہے اس کے لئے دو تین دن تک کراچی اور کوئٹہ سے لے کر اسلام آباد تک رابطوں، ملاقاتوں، جوڑ توڑ اور مبینہ شرائط کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری رہا۔ اس ساری صورت حال میں سب سے اہم ملاقاتیں اور رابطے مولانا فضل الرحمان اور ان کی جماعت کی کابینہ اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والے اختر مینگل سے ہوئے جن کی رضامندی کے بغیر دوتہائی اکثریت حاصل کرنا ناممکن تھا۔
توقع کی جا رہی تھی کہ مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کے بعد آئینی ترمیم کا پیکج قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پیش کر دیا جائے گا۔ ہفتے کے روز دونوں ایوانوں کے اجلاس کے ٹائم بار بار تبدیل ہونے کے باوجود، جے یو آئی ایف کے ترجمان مولانا عبدالغفور حیدری نے بتایا کہ جب انہیں ترامیم کے پیکج کا مسودہ ملا ہی نہیں تو وہ کیسے اس پر اپنا مؤقف دے سکتے ہیں یا اس کے حق میں ووٹ ڈال سکتے ہیں؟ اجلاس دوسرے دن یعنی اتوار کے روز دوبارہ بلانے کے بعد ملتوی ہوا، تاہم اتوار کو حکومتی اتحاد کے اس دعوے کا بھانڈا پھوٹ گیا کہ ان کے نمبرز پورے ہیں۔ اتوار کو سینیٹ اور قومی اسمبلی کے ہونے والے اجلاس چند تقریروں کے بعد غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی ہو گئے۔
وکلا برادری نے تو مبینہ ترمیم کو یکسر مسترد کر دیا اور حکومت سے آئین کا بنیادی ڈھانچہ بدلنے کی کسی بھی کوشش سے باز رہنے کا مطالبہ کیا۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر شہزاد شوکت نے مجوزہ ترامیم کے مسودے کو خفیہ رکھنے پر حیرت کا اظہار کیا اور کہا کہ اس کو کسی بھی فورم پر بحث مباحثے کے لئے پیش نہ کرنے سے پوری قوم قیاس آرائیوں میں مبتلا ہوئی۔
سپریم کورٹ بار کے سابق صدر اور چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک اور فیصل قریشی نے تو یہاں تک مطالبہ کر ڈالا کہ قاضی فائز عیسیٰ کو 25 اکتوبر کو اپنے عہدے سے الگ ہو کر چارج سینیئر ترین جج منصور علی شاہ کے حوالے کر دینا چاہیے جبکہ مجوزہ وفاقی آئینی عدالت کا عہدہ بھی قبول نہیں کرنا چاہیے۔
لاہور میں ہونے والے وکلا کنونشن نے بھی جسٹس منصور علی شاہ کے چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے کے لئے نوٹیفکیشن جاری کرنے کا مطالبہ کر دیا۔
گو کہ ترمیمی پیکج کا حتمی مسودہ اب تک سامنے نہیں آیا، لیکن میڈیا میں جن ڈرافٹس اور ان میں تفصیلات پر بحث جاری ہے یا وزیر قانون نے جن کی اسمبلی کے فلور پر تصدیق کی ہے اس کی راہ میں الجہاد ٹرسٹ کیس فیصلہ سب سے بڑی رکاوٹ بنے گا۔اس کو لے کر ترامیم کے پیکج کے خلاف آئینی درخواستیں ڈالی جائیں گی، جس کا اشارہ وکلا تنظیموں اور تحریک انصاف نے تو دے دیا ہے۔
1990 کی دہائی میں یہ تاثر عام تھا کہ حکومتِ وقت اپنی صوابدید کے مطابق کسی بھی ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ کے جج کو چیف جسٹس مقرر کر سکتی ہے۔ ججوں کی تقرری کے کیس میں یہ طے کر دیا گیا کہ سب سے سینیئر جج ہی ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ کا چیف جسٹس ہو گا۔ اس وقت کی وزیر اعظم بینظیر بھٹو نے اپنے وزیر قانون سے کہا تھا کہ پارٹی کے ایک لیڈر جہانگیر بدر جو کہ پارٹی لیڈر ہونے کے ساتھ ساتھ قانون کی ڈگری بھی رکھتے تھے، کو چیف جسٹس بنا دیا جائے۔ اسی طرح مسلم لیگ ن پر بھی یہی الزام لگایا جاتا تھا کہ وہ اپنے 'ہمدرد' جج صاحبان کو اعلیٰ عدلیہ میں مقرر کرتے ہیں۔
1996 میں الجہاد ٹرسٹ کیس میں یہ مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ ججوں کی تقرری کے سلسلے میں آئین اور قانون میں ایک غیر مبہم طریقہ کار موجود ہونا چاہیے۔ اس سے قبل صدر متعلقہ چیف جسٹس صاحبان سے مشاورت کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان اور چاروں صوبائی چیف جسٹس صاحبان کی تقرری کرتے تھے۔ اس تقرری میں آئین میں دیے گئے لفظ 'مشاورت' یا Consultation پر محض رسمی طور پر عمل ہوتا تھا۔ حکومت اپنی مرضی کے ججز اور چیف جسٹس صاحبان کی تقرری کرتی تھی۔
اس فیصلے میں آئین میں دی گئی اصطلاح Consultation کی از سر نو تشریح کی گئی اور یہ کہا گیا کہ مشورہ یا Consultation بامعنی ہونی چاہیے۔
الجہاد ٹرسٹ کی دائر کردہ درخواست پر سپریم کورٹ کے فل بینچ نے ججوں کی تقرری کا ایک واضح طریقہ کار طے کیا اور یہ قرار دیا گیا کہ ججوں اور چیف جسٹس صاحبان کی تقرری کیلئے Meaningful consultation ہو گی۔ ججز تقرری کیس میں یہ بات طے کی گئی کہ ججوں کی تقرری کس طرح ہو گی اور اس طے شدہ طریقہ کار سے انحراف نہیں ہو گا۔
چیف جسٹس کی تقرری صرف سنیارٹی کی بنیاد پر ہو گی اور اس سے بھی انحراف نہیں کیا جا سکتا۔ Meaningful Consultation کی اگر واضح تشریح کریں تو اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ اس میں تمام سٹیک ہولڈرز شامل ہوں، مشاورت واضح، بامقصد اور شفاف ہو، مشاورت کے شرکا کو اطلاعات تک برابری کی بنیاد پر مکمل رسائی حاصل ہو، فیصلہ سازی ایمانداری کے ساتھ اور بامقصد ہونی چاہیے تاکہ کسی بھی فیصلے پر پہنچنے میں کسی قسم کا ابہام نہ رہ جائے۔
الجہاد ٹرسٹ کیس عدلیہ کی آزادی اور برتری کو یقینی بنانے کے لئے اہم ترین فیصلہ سمجھا جاتا ہے جسے نظیر کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
اب رہا پارلیمنٹ کی قانون سازی کا اختیار تو پارلیمان بیشک قانون سازی کرنے میں آزاد ہے، تاہم آئین کے بنیادی ڈھانچے، ضروری خصوصیات، جن میں عدلیہ کی آزادی شامل ہے، کو دبانے یا اس پر قدغن لگانے کا اختیار نہیں رکھتی۔
آخری خبریں آنے تک 26 ویں ترمیم کا معاملہ اتنا الجھ گیا ہے کہ اب پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور جے یو آئی کے مولانا فضل الرحمان کی پارٹیاں بل کا اپنا اپنا ڈرافٹ لانے کا اشارہ دے چکی ہیں جس سے لگتا ہے کہ بل آئندہ ہفتے بھی شاید پارلیمان میں پیش نہ ہو سکے۔
پارلیمان کی مضبوطی ہو یا عدلیہ کی آزادی یا پھر انتظامیہ کا با اختیار ہونا؛ ریاست کے ان تینوں اہم ستونوں کو آئین کی بالادستی ہی عوامی احترام کے قابل بناتی ہے۔