ججوں کی تعیناتی بارے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خط کی بازگشت ابھی جاری تھی کہ اس کی توثیق کرتے ہوئے ایک اور معزز جج جسٹس سردار طارق مسعود نے بھی خط لکھتے ہوئے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے طرز عمل کو غیر جمہوری قرار دیدیا ہے۔
جسٹس سردار طارق مسعود نے اپنے خط میں سپریم کورٹ کی پریس ریلیز کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ پانچ ارکان کی اکثریت نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی جانب سے 4 ججوں کی نامزدگیوں کو مسترد کر دیا تھا۔
جسٹس سردار طارق مسعود کی جانب سے خط چیف جسٹس اور جوڈیشل کمیشن کے ارکان کو لکھا گیا ہے۔ انہوں نے خط میں انکشاف کیا کہ جوڈیشل کمیشن اجلاس شروع ہوا تو چیف جسٹس نے اپنے نامزد کردہ ججوں کے بارے میں بتایا تو جسٹس ریٹائرڈ سرمد جلال عثمانی نے 4 ججوں کے حق میں جبکہ ایک جج کی تقرری کیخلاف رائے دی۔ تاہم جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس اعجاز الاحسن نے چیف جسٹس کے ناموں کی منظوری دی۔
جسٹس سردار طارق مسعود نے خط میں لکھا کہ میں نے بھی اپنی رائے دیتے ہوئے اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سپریم کورٹ میں تقرری کا کہا۔
https://twitter.com/AsadAToor/status/1552999270990680064?s=20&t=MrKy5g4-JbFVPIn6iBsYWA
انہوں نے خط میں لکھا کہ جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کے دوران میں نے بھی سندھ ہائیکورٹ کے 3 جبکہ لاہور ہائیکورٹ کے ایک جج کی نامزدگی کو نامنظور کیا اور کہا کہ جسٹس اطہر من اللہ سینئر ترین جج ہیں۔ اس پر وزیر قانون، اٹارنی جنرل اور بار کونسل کے نمائندے نے اس سے اتفاق کرتے ہوئے 4 نامزد ججوں کی تقرری نامنظور کی۔
جسٹس سردار طارق مسعود نے خط میں انکشاف کیا کہ جسٹس فائز عیسیٰ نامنظوری کی وجوہات بتا رہے تھے کہ اس دوران چیف جسٹس نے انتہائی غیر جمہوری عمل کا مظاہرہ کیا اور اجلاس سے ہی اٹھ کر چلے گئے۔
جسٹس طارق مسعود کا کہنا تھا کہ معاملہ واضح ہو گیا تھا کہ جوڈیشل کمیشن کے 5 ارکان نے نامزدگیوں کو نامنظور کر دیا تھا تاہم اس کے بعد سپریم کورٹ کی جانب سے جو پریس ریلیز جاری کی وہ حقائق کے برعکس ہے۔ یہ اجلاس 3 گھنٹے جاری رہا لیکن کسی نے بھی موخر کرنے کا نہیں کہا۔ سپریم کورٹ ترجمان جوڈیشل کمیشن ممبر ہے نہ سیکرٹری۔ چیف جسٹس فوری طور پر جوڈیشل کمیشن اجلاس کے درست منٹس جاری کریں۔ جوڈیشل کمیشن کے تفصیلی منٹس پبلک کرنے سے ہی افواہوں کا خاتمہ ہوگا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا خط
جمعرات کو ہونے والے سپریم جوڈیشل کمیشن کے اس اجلاس کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا ایک خط بھی سامنے آیا تھا جو کہ انھوں نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے علاوہ اس کمیشن کے دیگر ارکان کو تحریر کیا۔
جسٹس قاضٰ فائز عیسیٰ کے اس خط میں کہا گیا ہے کہ ان کے علاوہ جسٹس سردار طارق مسعود، وزیر قانون، اٹارنی جنرل کے علاوہ پاکستان بار کونسل کے رکن نے چیف جسٹس کی طرف سے پیش کیے گئے چار ججز کے نام مسترد کر دیے ہیں ان میں سندھ ہائی کورٹ کے تین جبکہ لاہور ہائی کورٹ کا ایک جج شامل ہے۔
خط کے مطابق پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نہ تو سینئیر جج یا اور نہ ہی ملک کی دیگر ہائی کورٹس کے دیگر چیف جسٹس صاحبان سے سینئیر ہیں، اس لیے فیصلہ کیا گیا کہ اس بارے میں مزید معلومات اور دیگر ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان کا ڈیٹا بھی طلب کیا جائے گا۔
اپنے خط میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ اجلاس کے دوران چیف جسٹس نے اپنے فیصلے ڈکٹیٹ نہیں کروائے اور جلدی میں اجلاس چھوڑ کر چلے گئے جبکہ ان کے پیچھے جسٹس اعجاز الااحسن بھی اجلاس سے چلے گئے۔ انھوں نے کہا کہ عوام کی نظریں جوڈیشل کمیشن کے اجلاس پر تھیں اور یہ ان کا آئینی حق ہے کہ انھیں معلوم ہو کہ اجلاس میں کیا فیصلے ہوئے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی طرف سے اس بات پر زور دیا گیا کہ سپریم جوڈیشل کمیشن کے سیکرٹری جو آج کل چھٹیوں پر ہیں، ان کی جگہ قائم مقام سیکرٹری مقرر کیا جائے، جو اس اجلاس کے منٹس لکھ کر میڈیا کے ذریعے عوام کو آگاہ کریں۔
خیال رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی طرف سے اس سے قبل بھی 25 جولائی کو چیف جسٹس کو خط لکھ کر درخواست کی گئی تھی کہ چونکہ وہ بیرون ملک ہیں اس لئے سپریم جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کو کچھ دنوں کے لئے ملتوی کر دیا جائے تاہم ان کی اس استدعا کو منظور نہیں کیا گیا تھا۔
جوڈیشل کمیشن کے اس اجلاس میں شریک رکن کے مطابق اٹارنی جنرل اشتر اوصاف جو کہ بیرون ملک تھے اور وطن واپس آرہے تھے، اس اجلاس کا سن کر وہ بھی لندن میں رک گئے اور سکائپ کے ذریعے اس اجلاس میں شریک ہوئے۔
اجلاس میں اکثریت نے بھی اس تجویز سے اختلاف کیا کہ سپریم کورٹ کے کسی جج کی ریٹائرمنٹ سے پہلے ہی ان کی جگہ کسی دوسرے جج کے تعینات کرنے کے لئے کسی جج کے نام پر غور کیا جائے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بھی اپنے اس خط میں اس بات کا ذکر کیا کہ ملکی آئین اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ کسی شخص کی ریٹائرمنٹ سے پہلے ہی اس جگہ کو فل کرنے کے لیے کسی کے نام کو زیر بحث لایا جائے۔
وکلا تنظیمیں بھی اس بات کا مطالبہ کرتی آ رہی ہیں کہ اعلی عدلیہ میں ججز کی تعیناتی میں سنیارٹی کو اہمیت دی جائے اور اس کے علاوہ چیف جسٹس کے پاس جو نام پیش کرنے کا استحقاق ہے وہ واپس لیا جائے۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، پاکستان بار کونسل سمیت مختلف بار ایسوسی ایشنز کا مشترکہ اعلامیہ
دوسری جانب اعلیٰ عدلیہ میں جج صاحبان کی تعیناتیوں کے معاملے پر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، پاکستان بار کونسل سمیت مختلف بار ایسوسی ایشنز کے مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ سینیارٹی اصول کے برخلاف مسلسل تعیناتیوں کے سبب عدلیہ کی ساکھ متاثر ہوگی۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ میں پانچ جج صاحبان کی نامزدگی مسترد ہونے کے اکثریتی فیصلے کیساتھ کھڑے ہیں۔ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اور اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے وزیراعظم کی ہدایت پر جوڈیشل کمیشن میں اصولی موقف اختیار کیا۔
پاکستان بار کونسل اور دیگر ایسوسی ایشن نے اپنے مشترکہ اعلامیہ میں کہا کہ سپریم کورٹ کے معزز جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا سینیارٹی اصول کے تحت رائے دینا قابل ستائش ہے۔ اعلیٰ عدلیہ میں جج صاحبان کی تعیناتیاں سنیارٹی اصول کے مطابق کی جائیں۔
جن ناموں کو مسترد کر دیا جائے وہ دوبارہ کسی کمیشن میں نہیں نامزد کیے جا سکتے
یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ جن ناموں کو مسترد کر دیا جائے وہ دوبارہ کسی کمیشن میں نہیں نامزد کیے جا سکتے۔ لیکن مؤخر ہونے کی صورت میں دوبارہ ناموں کو سامنے لایا جا سکتا ہے۔ یہاں 4 کے مقابلے میں 5 کی اکثریت سے ججز کے نام مسترد ہو گئے لیکن چیف جسٹس صاحب نے چار ناموں کو مؤخر تصور کر لیا یعنی وہ دوبارہ انہی ناموں کو سامنے لانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
چیف جسٹس کو اپنے گھر میں ہی عدم اعتماد کا سامنا کرنا پڑ گیا
کچھ لوگوں نے تبصرہ کیا کہ چیف جسٹس کو اپنے گھر میں ہی عدم اعتماد کا سامنا کرنا پڑ گیا ہے لیکن ایسا پہلی بار نہیں ہوا۔ اس سے پہلے بھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس پر نظرِ ثانی میں انہیں سپریم کورٹ میں 4 کے مقابلے میں 6 ججز کے فیصلوں سے شکست ہوئی تھی۔ البتہ اس وقت وہ چیف جسٹس نہیں تھے۔ یاد رہے کہ ابھی تو جسٹس سجاد علی شاہ نے ان کے حق میں فیصلہ دیا ہے لیکن 14 اگست کو یہ ریٹائر ہو رہے ہیں اور جلد ہی ان کی جگہ جوڈیشل کمیشن میں جسٹس منصور علی شاہ لے لیں گے اور وہ بھی ماضی میں سنیارٹی کے اصول کی پابندی پر زور دے چکے ہیں۔