نئے اٹارنی جنرل جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ریفرنس پر رائے قائم کرنے سے پہلے اپنا دماغ استعمال کریں: جسٹس عمر عطا بندیال

نئے اٹارنی جنرل جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ریفرنس پر رائے قائم کرنے سے پہلے اپنا دماغ استعمال کریں: جسٹس عمر عطا بندیال
آج سپریم کورٹ کی پارکنگ میں داخل ہوتے ہوتے 11 بج کر 32 منٹ ہو چکے تھے اور بھاگتے بھاگتے کمرہ عدالت میں داخل ہوا تو سماعت شروع ہو چکی تھی۔ دس رکنی فل کورٹ کے سامنے دلائل کے لئے مختص وکلا کے روسٹرم پر وفاقی وزیرِ قانون بیرسٹر فروغ نسیم دلائل دے رہے تھے جبکہ نئے اٹارنی جنرل خالد جاوید اور بائیں ہاتھ ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان کھڑے تھے۔ نئے اٹارنی جنرل خالد جاوید نے فل کورٹ کو بتایا کہ وہ مفادات کے ٹکراؤ کی وجہ سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں دلائل دینے سے معذرت کرتے ہیں لہٰذا کوئی دوسرا اس کیس میں دلائل دے گا۔

وفاقی وزیرِ قانون فروغ نسیم نے بنچ سے استدعا کی کہ ہو سکتا ہے میں خود اِس کیس میں دلائل دوں۔ فل کورٹ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے جواب دیا کہ انہیں کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن تاخیر نہ کی جائے کیونکہ چھ ماہ سے ان کے ذہن میں اِس کیس پر بہت مواد جمع ہے اور وہ چاہیں گے کہ حکومتی ٹیم انہیں جواب دے۔



یہ بھی پڑھیے: اٹارنی جنرل کے دلائل پر ججز سخت برہم اور بُلند آواز میں اٹارنی جنرل سے مُکالمہ







وفاقی وزیرِ قانون نے درخواست کی کہ انہیں اور اٹارنی جنرل کو ایک کیس میں 15 مارچ سے مشترکہ دلائل دینے ہوں گے اور امکان ہے کہ وہ کیس 15 سے 20 مارچ تک چلے گا۔ وفاقی وزیرِ قانون بیرسٹر فروغ نسیم نے عدالت سے استدعا کی کہ 20 مارچ کے بعد کی کوئی سماعت مقرر کر دی جائے۔ حکومت کی درخواست سن کر جسٹس عمر عطا بندیال نے اپنے بائیں ہاتھ بیٹھے جسٹس منظور ملک کی طرف جھک کر ان سے مشاورت شروع کر دی اور پھر فل کورٹ کے سربراہ کے دائیں ہاتھ بیٹھے جسٹس مقبول باقر بھی سرگوشیوں کی صورت مشاورت میں شامل ہو گئے۔



ججز میں یہ مشاوت جاری تھی کہ فوجداری مقدمات کے ماہر لیکن دائیں طرف سب سے آخر میں بیٹھے اِس بنچ کے نسبتاً کم گو جج جسٹس قاضی محمد امین احمد نے وفاقی وزیرِ قانون سے سوال پوچھا کہ آپ اِس کیس میں دلائل دینے کے لئے کیا وزارتِ قانون سے استعفا دیں گے؟ وفاقی وزیرِ قانون بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ نہیں میں وزیرِ قانون رہتے ہوئے ذاتی حیثیت میں دلائل دینا چاہوں گا۔ جسٹس قاضی محمد امین احمد نے ریمارکس دیے کہ اگر وزیرِ قانون رہتے ہوئے دلائل کی اجازت مِل جائے تو انہیں حیرت ہوگی۔

ججز میں مختصر مشاورت ختم ہوئی تو فل کورٹ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال گویا ہوئے کہ ٹھیک ہے ہم مزید مہلت دے دیتے ہیں لیکن فروغ نسیم آپ صرف اپنے دلائل دیں گے اور اگر اٹارنی جنرل اِس کیس میں دلائل نہیں دینا چاہتے تو پھر آپ اس کیس کی پیروی کمٹڈ وکیل کو دیں گے جو صرف یہی کیس دیکھے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے اِس موقع پر ریمارکس دیے کہ 30 مارچ کے بعد اِس کیس میں مزید التوا نہیں دیا جائے گا اور اگر حکومت کو کوئی وکیل نہیں ملتا تو ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان اِس کیس کیس سماعت کے لئے دلائل دیں کیونکہ وہ پہلے دِن سے اِس کیس کی ہر سماعت پر موجود تھے۔

اِسی دوران سپریم کورٹ بار اور پاکستان بار کونسل کے نمائندے وکلا کے دلائل کے لئے مختص روسٹرم پر آ گئے اور اعتراض کیا کہ وفاقی وزیرِ قانون کو دلائل کی اجازت دینے سے پہلے بار کو سنا جائے کیونکہ بار کونسل کے ضابطہ اخلاق کے تحت وہ ایسا نہیں کر سکتے۔

جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ انہوں نے ابھی اِس پر فیصلہ کرنا ہے۔ اِسی دوران وفاقی وزیرِ قانون بیرسٹر فروغ نسیم بھی اٹھ کر روسٹرم پر آ گئے اور انہوں نے وضاحت کی کہ وہ صرف جِس کیس میں فریق بنائے گئے ہیں اس میں ذاتی حیثیت میں دلائل دینا چاہتے ہیں۔ بار کے نمائندے نے فل کورٹ سے استدعا کی کہ صرف فریق کی حیثیت سے بیرسٹر فروغ نسیم کو سنا جائے ورنہ جب تک یہ لائسنس بحال نہیں کرواتے ان کو مت سنا جائے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے بار کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے وزیرِ قانون کو بتا دیا ہے کہ دلائل صرف لائسنس لائیں گے تو دے سکیں گے۔ وفاقی وزیرِ قانون بیرسٹر فروغ نسیم نے فل کورٹ کو یقین دہانی کروائی کہ وہ فریق کی حیثیت سے صرف ذاتی حیثیت میں دلائل دیں گے۔



یہ بھی پڑھیے: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں حکومتی دلائل: اٹارنی جنرل نے فل کورٹ کو برہم کر دیا







اب نئے اٹارنی جنرل خالد جاوید نے فل کورٹ سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ وہ آج تیاری کر کے نہیں آ سکے جِس کی وجہ سے معزز عدالت کو وقت کے زیاں کی تکلیف اٹھانی پڑی۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے فوری جواب دیا کہ آپ معذرت مت کریں، ہم جانتے ہیں آپ بہت محنتی وکیل ہیں اور آج کی سماعت پر آپ تیاری کر کے نہیں آ سکتے تھے۔ اِس موقع پر دس رکنی فل کورٹ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال جو اب سپریم جوڈیشل کونسل کے تیسرے رکن بھی ہیں نے اٹارنی جنرل کو اہم ترین ہدایت دی کہ وہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ریفرنس کا مطالعہ کرتے ہوئے اپنا ذہن استعال کر کے بھی رائے دیں۔ یعنی بظاہر وہ نئے اٹارنی جنرل کو بتا رہے تھے کہ اِس ریفرنس کو اب آپ ایک خودمختار ذہن سے دیکھ کر حکومت کو بتائیں کہ یہ چلانے کے قابل بھی ہے یا نہیں۔

فل کورٹ برخاست ہونے کی تیاری کر رہا تھا تو پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین عابد ساقی روسٹرم پر آ گئے اور انہوں نے استدعا کی کہ پاکستان بار کونسل نے ججز کی مبینہ جاسوسی پر حکومت کے خلاف توہینِ عدالت کی ایک درخواست دی ہے، پہلے اسے سنا جائے۔

اب جسٹس عمر عطا بندیال نے عابد ساقی کو جواب میں قرآن کی مقدس آیات کے حوالے دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں درگزر کرنے اور معاف کرنے کا درس دیا گیا ہے تو پاکستان بار کونسل بھی درگز سے کام لے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے پِچھلی سماعت کا بھی ذِکر کیا اور ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل کے غیر مناسب الفاظ کی وجہ سے میری آواز بلند ہو گئی تھی جس کا مجھے میرے ساتھیوں نے بعد میں مجھے بتایا۔ جسٹس عمر عطا بندیال کا مزید کہنا تھا کہ انہیں اپنی آواز بلند ہونے کا افسوس ہے۔



جسٹس عمر عطا بندیال نے پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین عابد ساقی سے کہا کہ یہ تو گمان ہے کہ جاسوسی کی جارہی تھی اِس لئے وہ گمان پر معاف کر دیں لیکن اگر کوئی ٹھوس مواد ہوا تو پھر بےشک آ جائیں، فل کورٹ ان کو سنے گا۔ پاکستان بار کونس کے وائس چیئرمین عابد ساقی نے اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے لئے یہ بڑا سوال ہے کہ کیا ججز کی جاسوسی ہو رہی ہے اور یہ اِس ملک میں ہو کیا رہا ہے؟

عابد ساقی کا مزید کہنا تھا کہ اگر اِس ملک کی سب سے اعلیٰ ترین عدالت کے ججز کی جاسوسی ہو سکتی ہے تو پھر یہ ججز کو ہراس کرنے کے زمرے میں آتا ہے اور اگر ہمارے معزز ججز کو ہراس کیا جا سکتا ہے تو پھر کل عوام میں سے کوئی ہم سے انصاف لینے نہیں آئے گا۔ پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ہم نے تیس سے چالیس سال اِس ملک میں قانون اور عدالت کی سربلندی کے اصول کے لئے جدوجہد کی ہے، ہمارا کوئی ذاتی مفاد یا عناد نہیں۔

عابد ساقی نے پرجوش لہجے میں کہا کہ اگر ججز کی جاسوسی کی جاتی ہے یا بلیک میل کیا جاتا ہے تو یہ صرف ججز یا بار کا نہیں پوری قوم کا مسئلہ ہے۔



جسٹس عمر عطا بندیال نے مسکرا کر پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین عابد ساقی کو تنبیہ کی کہ وہ آواز آہستہ رکھیں۔ عابد ساقی نے جواب دیا کہ ان کے ڈی این اے کا مسئلہ ہے ان کی آواز تھوڑی اونچی ہے اور وہ ایسا ہرگز عدالت کی توہین کے لئے نہیں کر رہے۔

اب جسٹس عمر عطا بندیال نے عابد ساقی کے جذباتی لیکن پراثر دلائل کو سن کر ریمارکس دیے کہ وہ پاکستان بار کونسل کی درخواست کو سماعت کے لئے منظور کر کے نمبر لگا رہے ہیں اور 30 مارچ کو ان کو بھی سنیں گے۔ فل کورٹ کے بنچ کے سربراہ کے ریمارکس کے بعد جسٹس مقبول باقر نے بھی عابد ساقی کو مخاطب کر کے کہا کہ وہ یقین رکھیں عدالت اور ججز اپنی خودمختاری یقینی بنائیں گے۔

اِس موقع پر نئے اٹارنی جنرل خالد جاوید نے فل کورٹ کو مخاطب کر کے اپنے وژن سے آگاہ کیا اور بتایا کہ ان کا کام صرف وفاق کی نمائندگی نہیں ہوگا بلکہ وہ عدالت اور ججز کی خود مختاری یقینی بنانے کے لئے بھی کام کریں گے۔ اٹارنی جنرل نے اپنے وژن کا اختتام انتہائی اہم بات پر کیا کہ اگر انہیں یعنی کہ اٹارنی جنرل کو کسی بھی موقع پر ایسا گمان بھی ہوا کہ ان کے وژن سے ہٹ کر کچھ ہو رہا ہے تو عدالت انہیں اٹارنی جنرل کے منصب پر نہیں دیکھے گی۔