' ایف بی آر کو رواں مالی سال کے پہلے چار ماہ میں پہلے ہی 189 ارب روپے کے ریونیو شارٹ فال کا سامنا ہے۔ اندازہ ہے کہ رواں مالی سال کی پہلی ششماہی میں ریونیو کا یہ شارٹ فال 321 ارب روپے تک پہنچ جائے گا۔ ایف بی آر کا خیال ہے کہ حکومت کو آئی ایم ایف کو 12,913 بلین روپے کے ریونیو اکٹھا کرنے کے ہدف کو کم کرنے کے لیے قائل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے جو کہ معمولی معاشی نمو، خاص طور پربڑے صعنتی شعبہ اور درآمدات میں کمی کی وجہ سے ہوئی ہے۔ تاہم، آئی ایم ایف ایف بی آر کے کم ہدف کے لیے اپنی حمایت میں توسیع نہیں کر سکتا' - منی بجٹ یا اخراجات میں کمی کا انتخاب کرنے کے لیے: حکومت آئی ایم ایف کے اجلاسوں سے قبل حکمت عملی بنائے گی، دی نیوز، نومبر 8، 2024
'لافر کرو (Laffer Curve )، ویسے، میں نے ایجاد نہیں کیا تھا۔ اس کی ابتدا کافی برسوں پہلےہوئی تھی۔ مثال کے طور پر، مسلم فلسفی ابن خلدون نے اپنی چودھویں صدی کی تصنیف The Muqaddimah میں لکھا ہے: 'یہ معلوم ہونا چاہیے کہ بادشاہت کے آغاز میں، ٹیکس لگانے سے چھوٹے تخمینوں سے بہت زیادہ محصول حاصل ہوتا، مگر اس کی اختتام پر، ٹیکس لگانے سے بڑی تشخیص سے تھوڑی سی آمدنی ہوتی' - ڈاکٹر آرتھر بی لافر، جسے لافر کرو کی ایجاد کرنے کے لیے جانا جاتا ہے، نے یہ مشاہدہ اپنی کتاب، ریٹرن ٹو پراسپرٹی: ہاو امریکہ کین ریگین اس اکنامک سپر پاور اسٹیٹس (2010) میں کیا ہے، جس میں اسٹیفن مور شریک مُصنّف ہیں۔
پریس اور میڈیا رپورٹس کے مطابق، رواں مالی سال کی پہلی ہی سہ ماہی میں پانچ میں سے دو مالی شرائط جو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے7 ارب ڈالر کا37ماہ کا توسیعی فنڈ سہولت (EFF) قرضہ پروگرام کی تحت عائدکیں، کو پورا کرنے میں ناکامی کے تناظر میں منی بجٹ کی تیاریاں جاری ہیں۔ اس سہولت کو 27 ستمبر 2024 کو آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ نے منظور کیا تھا۔
مبینہ طور پر " آئی ایم ایف سے طے شدہ مالیاتی خسارے اور بنیادی سرپلس کے اہداف کو حاصل کرنے میں توازن قائم کرنے کے لیے اخراجات کو کم کرنے" کے لیے متبادل تجاویز بھی موجود ہیں۔ حکومت نے ارادہ ظاہر کیا تھا کہ نیتھن پورٹر کی سربراہی میں پاکستان میں آئی ایم ایف مشن کے ہنگامی دورے [نومبر 11-15، 2024] سے پہلے ایسی تجاویز کے بارے میں اپنی پوزیشن مستحکم کر لی جائے گی۔
فیڈرل بورڈ آف ریونیو ( ایف بی آر) کی اعلیٰ سطح پر نااہلی کے نتیجے میں ناکافی محصولات جمع ہوئے، جو رواں مالی سال (2024-25) کی پہلی سہ ماہی کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ طے شدہ اہداف سے کم ہیں۔ ایف بی آر نے نئے سیکٹرز اور ممکنہ ٹیکس دہندگان کو شامل کرنے کی بجائے وفاقی بجٹ 2024-25 میں موجودہ ٹیکس دہندگان پر ٹیکسوں اور ڈیوٹیوں کے سونامی کا بوجھ ڈالنے کا آسان حل تلاش کیا۔
ایک اخباری خبر کے مطابق، ’’اب یہ معاشی ٹیم کا امتحان ہے کہ وہ منی بجٹ کی نقاب کشائی کرکے معیشت کا مزید دم گھٹنے کی بجائے، حکومت کو اپنے اخراجات کم کرنے کے لیے کس طرح مجبور کر سکتے ہیں‘‘۔ خدشہ یہی ہے کہ آخر کار کفایت شعاری کی بجائے مزید ٹیکسز ہی نافذ ہوں گئے اور وہ بھی بالواسطہ، قوم اور خاص طور پر غریبوں کو کچلنے والے۔
ہماری ریاستی اشرافیہ اپنی ٹیکس سے مبرا ان گنت مراعات کو کبھی بھی ترک نہیں کرے گی— مالی سال 2023-24 میں ٹیکس اخراجات (tax expenditures)، ایف بی آر کے اپنے اعتراف کے مطابق 3.879 ٹریلین روپے تھے۔ یہ اب بھی بہت کم ظاہر کیے گئے ہیں، اور ان کو مرتب کرنے کا طریقہ کار بھی قابل اعتراض ہے۔
ٹیکس اخراجات کے ساتھ اگر ہم غیر رسمی معیشت اور جرائم سے حاصل ہونے والی آمدنی کو بھی شامل کرتے ہیں تو اصل ٹیکس بیس (tax base) تقریباً 2000 ٹریلین روپے سے کم نہیں، اور اس پر 10 فیصد کےشرح پر محض انکم ٹیکس کا ہدف۔ 20 ٹریلین روپے بنتا ہے۔
ظالمانہ بلاواسطہ ٹیکسوں اور ڈیوٹیوں کے نفاذ کے پورے عمل میں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سمیت کسی کو بھی پاکستان کے کم مراعات یافتہ طبقے کی کوئی فکر نہیں ہے کہ ان کی زندگی اور کتنی اجیرن ہو سکتی ہے۔ پالیسی ساز، قرض دہندگان کے آخری سہارے (Lender of Last Resort) کو مطمئن کرنے اور اس کے مطالبات کی تعمیل کے لیے عوام پر ٹیکسوں کی نئی لہر کے ساتھ مزید بوجھ ڈالنے پر، تلے ہوئے ہیں۔
حکمران اشرافیہ کے فکری اور اخلاقی دیوالیہ پن کی وجہ سے ہمارے مخصوص ماحول میں آئی ایم ایف نیو ایسٹ انڈیا کمپنی بن کر ابھری ہے۔ اس نے ہماری ریونیو انتظامیہ کو اسی طرح سنبھالنے کا فیصلہ کیا ہے جس طرح برصغیر میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے کیا تھا جس کی وجہ سے ایک طویل نوآبادیاتی دور شروع ہوا، جہاں مٹھی بھر غیر ملکیوں نے لاکھوں لوگوں کو محکوم بنایا۔
پاکستان میں آئی ایم ایف کے آپریشنز اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے نوآبادیاتی دور میں محصولات کی وصولی میں نمایاں مماثلتیں ہیں۔ دونوں جابر، ظالم اور عوام دشمن ہیں۔ آئی ایم ایف کی طے شدہ پالیسیاں برطانوی دور کی یاد تازہ کرتی ہیں جب ایسٹ انڈیا کمپنی کے حواری اور گماشتہ کسانوں کے ٹھکانوں پر جا کر ان کی زیادہ تر پیداوار چھین لیتے تھے۔
بہت سے مورخین کے مطابق ایسٹ انڈین کمپنی کے ٹیکس جمع کرنے والے فصلوں کا نصف سے دو تہائی حصہ لے جاتے تھے۔ اس لیے نوآبادیاتی دور میں کسانوں کی زندگی سب سے زیادہ دکھی تھی۔ موجودہ حکومت نے زرعی اشیاء پر بھاری سیلز ٹیکس لگا کر ایسٹ انڈیا کمپنی کے دن پھر سے زندہ کر دیے ہیں۔
ریاست کی خودمختاری کا اندازہ اس طاقت سے لگایا جاتا ہے جو اسے اپنے لوگوں پر محصولات لگانے میں حاصل ہے۔ ان ٹیکسوں کو کم مراعات یافتہ طبقے کے فوائد اور تمام شہریوں کی عمومی فلاح و بہبود کو یقینی بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس ہماری یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتیں ہماری منڈیوں کو غیر ملکی اشیاء کے لیے کھولتی رہی ہیں تاکہ ہماری مقامی صنعت مفلوج ہو جائے۔ حیرت ہوتی ہے کہ پاکستان میں اس وقت کے حکمران کیسے کام کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ وہ اپنی حکمرانی کو قائم رکھنا چاہتے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ یہ صرف اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب وہ اپنے غیر ملکی آقاؤں کی دھنیں بجائیں اور ان کے حکام کی بجا آوری کریں۔
غیر ملکی آقا ہمیں قرض داری (debtoctacy) کے چنگل میں پھانس کر معاشی فائدے حاصل کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ وہ اب قوموں کو جسمانی طور پر محکوم بنانے میں مزید دلچسپی نہیں رکھتے۔ ان کا خیال ہے کہ انہیں ہم جیسے ’’ بے وقت افراد ‘‘ کی براہ راست ذمہ داری نہیں لینا چاہیے۔ یہ بات تکلیف دہ ہے کہ ٹیکس کے معاملات میں اصل (de facto) قانون ساز ایف بی آر نے اپنے غیر ملکی آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے ٹیکس کا جابرانہ ڈھانچہ نافذ کیا ہے، جس نے پاکستان کی غربت کے مسئلے کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔
ایشین ڈویلپمنٹ بینک کی ایک تحقیق کے مطابق، پاکستان کا انکم ٹیکس نظام، جو 1990 تک ترقی پسند تھا، 1991 میں انکم ٹیکس کے قانون میں ودہولڈنگ کی دفعات کو مکمل اور حتمی ذمہ داری (مفروضہ ٹیکس) کی ادائیگی کے طور پر متعارف کرانے کے ساتھ رجعت پسند نظام میں تبدیل ہو گیا تھا۔ انکم ٹیکس میں ایسے ٹیکسز کو آسانی سے دوسروں پر منتقل کیا جا سکتا ہے، اور پھر 2019 میں ان کو presumtive کے ساتھ minimum بھی کر دیا گیا!
نتیجہ یہ ہے کہ 33 سالوں (1991-2024) کے دوران، غریب ترین گھرانوں پر ٹیکس کا بوجھ 48 فیصد بڑھنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے، جب کہ امیر ترین گھرانوں کے لیے اس میں 52 فیصد کمی آئی ہے۔ یہ ٹارگٹ اورینٹڈ (target-oriented) FBR کے خود ساختہ دانشمندوں (stalwarts) کے لیے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے! اپنے غیر ملکی آقاؤں کو غیر حقیقی اور بلند سطح اعداد و شمار دکھانے کے جنون میں انہوں نے پاکستان کے غریبوں پر ٹیکسوں کا نا قابل برداشت اضافی بوجھ ڈال دیا ہے۔ تاریخ ان کو اس بے حسی پر کبھی معاف نہیں کرے گی۔
بجٹ کتابوں میں مصنوعی توازن پیدا کرنے، مالیاتی خسارے پر قابو پانے کے نام پر زیادہ ٹیکس لگانے اور دیگر نمبر گیمز کے لیے پاکستان میں یکے بعد دیگرے آنے والی سول اور ملٹری حکومتوں کے وزرائے خزانہ کی طرف سے دہائیوں سے اپنایا جانے والا روایتی طریقہ کار اب ترک کر دینا چاہیے۔ مزید روزگار پیدا کرنے کے لیے ہمیں اعلیٰ، پائیدار اور جامع اقتصادی ترقی کی ضرورت ہے۔ صرف ہمارے نوجوانوں کو ہر سال 60 لاکھ ملازمتوں کی ضرورت ہے۔
چودہ سال پہلے، ڈاکٹر آرتھر بی لافر اور اسٹیفن مور نے اپنی کتاب 'خوشحالی کی طرف واپسی' میں تجویز کیا کہ کیوں کم شرح کے ٹیکس معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ قرضوں میں کمی اور واپسی کے لیے ضروری ہیں۔ انہوں نے کم اخراجات والی کم حجم حکومتیں، کھلی اور دانشمندانہ تجارتی اور مالیاتی پالیسیاں اور دیگر سازگار حالات جیسا کہ کاروبار کرنے میں آسانی اور کاروبار کرنے کی لاگت میں کمی پر زور دیا — جس کی ہمیں آج پاکستان میں اشد ضرورت ہے۔
اگر ہماری حکومتوں نے ان اقدامات کو اپنایا ہوتا، تو ہم تیز رفتار اور پائیدار ترقی حاصل کر سکتے تھے، خاص طور پر برآمدات پر مبنی اور درآمدی متبادل صنعتوں کے ذریعے، جس سے بہتر ٹیکس وصولی، قابل انتظام مالیاتی خسارہ اور طویل مدتی، کم سود والے قرضے حاصل کیے جاسکتے تاکہ آمدنی والے اثاثے پیدا کیے جاسکیں—بنیادی ڈھانچے میں بہتری اور سب سے بڑھ کر تربیت یافتہ انسانی سرمایہ۔
بدقسمتی سے، کوئی بھی جدت پسندانہ اقدامات تجویز کر کے نان ٹیکس ریونیو بڑھانے کی بات نہیں کر رہا ہے۔ ماہرین کو وزیر اعظم کو بتانے کی ضرورت ہے کہ منی بجٹ میں مزید بے جا اور جابرانہ ٹیکسوں کا غلط نسخہ خاص طور پر موجودہ حالات میں ہمارے مسائل کا ہر گز حل نہیں ہے۔اس سے ترقی کی رفتار مزید کم ہو جائے گی۔
وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو انفراسٹرکچر کی بہتری کے لیے زیادہ سے زیادہ رقم حاصل کرنے اور خرچ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مزید روزگار کے مواقع پیدا ہوں اور زیادہ ترقی کو یقینی بنایا جا سکے، عوامی منصوبوں کو بروقت مکمل کرنے کے لیے نجی شعبے کو مسابقتی بنیادوں پر ٹھیکے دئیے جائیں۔ اس سے معیشت میں تیزی کا آغاز ہو جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ، حکومتوں کو فضول خرچی کو کم کرنے، اپنی مشینری کے بڑے سائز کو درست کرنے، بیوروکریسی کے تمام مراعات کو منیٹائز (monetized) کرنے اور ٹیکسوں کو آسان اور کم شرح بنانے کی ضرورت ہے۔
مہنگی ریاستی زمینیں جو شہروں کے بیچوں بیچ واقع ہیں اور اشرافیہ کے قبضے میں ہیں، صنعتی، کاروباری اور تجارتی منصوبوں کے لیے لیز پر دی جائیں جس سے بہت بھاری رقوم حاصل ہوں گی۔ اس سے ٹیکس آمدنی میں بھی خاطر خواہ اضافہ گا (عوامی نیلامی کے ذریعے ٪10 انکم ٹیکس کو مکمل اور حتمی ٹیکس کے طور پر لاگو کرنے سے اربوں کی آمدنی ہوگی) اور تیز رفتار اقتصادی ترقی میں سہولت ہوگی۔
ورلڈ بینک نے اپنی رپورٹ پاکستان ریونیو موبلائزیشن پراجیکٹ میں نوٹ کیا:
"پاکستان کی ٹیکس آمدن کی صلاحیت جی ڈی پی کے 26 فیصد تک پہنچ جائے گی، اگر ٹیکس کی تعمیل کو 75 فیصد تک بڑھایا جائے، جو کم درمیانی آمدنی والے ممالک (LMICs) کے لیے تعمیل کی ایک حقیقت پسندانہ سطح ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ملک کے ٹیکس حکام اس وقت آمدنی کی اس صلاحیت کا صرف نصف حصہ حاصل کر رہے ہیں، یعنی اصل اور ممکنہ وصولیوں کے درمیان فرق 50 فیصد ہے۔ ٹیکس کے فرق (gap) کا سائز ٹیکس کے شعبے کے لحاظ سے مختلف ہوتا ہے۔ خدمات کے شعبے میں ٹیکس کا فرق مینوفیکچرنگ سیکٹر سے زیادہ ہے (بالترتیب 67 فیصد بمقابلہ 46 فیصد) اور یہ جی ایس ٹی/جی ایس ٹی ایس کے لیے انکم ٹیکس (بالترتیب 65 فیصد بمقابلہ 57 فیصد) سے بڑا ہے"۔
ورلڈ بینک نے ٹیکس کے خلا کا ذکر کرنے سے پہلے ٹیکس کی بلند شرحوں، ٹیکس کی تنگ بنیاد، متعدد ودہولڈنگ پروویژنز (withholding provisions)، بھاری بالواسطہ (جابرانہ) ٹیکس لگانے سے غریبوں اور تنخواہ داروں اور دیگر مقررہ آمدنی والے گروہوں اور ٹیکسوں کی کٹوتی پر مناسب تحقیق یا مطالعہ نہیں کیا ہے۔ وفاقی اور صوبائی سطح پر ادارے کی نا اہلی اور بہتات کم ریونیو اکٹھا کرنے کی بڑی وجہ ہیں۔
ان بنیادی مسائل کو ایک تحقیق بعنوان ' ہموار،کم شرح، وسیع اور متوقع ٹیکسز' [پرائم انسٹی ٹیوٹ، اسلام آباد، دوسرا نظرثانی شدہ ایڈیشن (نومبر 2020)] میں ایک مکمل حل کے ساتھ اجاگر کیا گیا ہے۔ اس کا تیسرا نظر ثانی شدہ ایڈیشن (اکتوبر 2024) 14 نومبر 2024 کو اسلام آباد میں خوشحالی فورمکے موقع پر کیا گیا۔
پاکستان میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے کارکردگی میں بہتری، مساوات کے حصول اور معاشی ترقی کو فروغ دینے کے لیے ملک کے ٹیکس نظام کی تشکیل نو میں بے حسی کا مظاہرہ کیا ہے۔ پیچیدہ ٹیکس قوانین اور طریقہ کار، آسانی سے جمع کیے جانے والے بالواسطہ ٹیکسوں پر انحصار، کمزور نفاذ، نااہلی اور بدعنوانی ٹیکس کی کم وصولی کے اہم عوامل ہیں۔
ٹیکس اصلاحات جو آج تک کی گئی ہیں، بنیادی طور پر پیچ ورک (patchwork) رہی ہیں، اور یہ ایک بیکار مشق ثابت ہوئی ہیں۔ نظام کی اصلاح کے لیے بنائے گئے ٹیکس اصلاحاتی کمیشن اور مشاورتی کمیٹیاں ناکام ثابت ہوئی ہیں کیونکہ وہ حقیقی وجوہات پر توجہ دینے کی بجائے لاعلاج یا بصورت دیگر علامات کے علاج کے لیے علاج تجویز کرتی رہی ہیں۔
بامعنی تبدیلی کے لیے واحد قابل عمل آپشن یہ ہے کہ موجودہ ٹیکس نظام کو سادہ، کم شرح والے ٹیکس کے ساتھ بدل دیا جائے جو وسیع بنیاد پر، عملی اور معاشی ترقی کی طرف راغب ہو۔ اس طرح کے نظام کے قائم ہونے سے، جو لوگ ٹیکس نیٹ میں نہیں ہیں یا جو درست انکشافات سے گریز کرتے ہیں، ان کی حوصلہ افزائی کی جائے گی کہ وہ رضاکارانہ، ایمانداری اور تندہی سے ٹیکس ادا کریں۔ یہ بہتر تعمیل کے لیے ترغیبات پیدا کرے گا اور تیز اقتصادی ترقی کا باعث بنے گا۔
مزید سرمایہ کاری کی ترغیب دینے، ترقی کی رفتار تیز کرنے اور معاشرے کے تمام افراد کو فائدہ پہنچانے والے ملک کے لیے معاشی خوشحالی کو یقینی بنانے کے لیے ٹیکس کے پورے نظام کی تشکیل نو کے لیے ایک مثالی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ مجموعی طور پر معاشرے کی فلاح و بہبود کے لیے ٹیکس دہندگان کی رقم کو شفاف اور معیاری خرچ کرنا چاہیے اور ہر فرد کی ترقی اور معاشی بہبود کو ترغیب دینا چاہیے۔
پاکستان کا اصل مخمصہ فرسودہ، نوآبادیاتی طرز کے انتظامی اور عدالتی ڈھانچے، غلامی، لالچ اور شکاری اشرافیہ (predatory elites) کی طرف سے بدعنوانی ہے۔ بیوروکریٹس طفیلی ہیں اور چونکہ rent seeking کو ایک معمول کے طور پر قبول کیا جاتا ہے، یہاں تک کہ نجی شعبہ بھی ترقی کا محرک نہیں ہے اور نہ ہی اختراعات کے لیے تیار ہے۔ ہمارے پاس پرائیویٹ سیکٹر میں rent seekingکے متلاشی افراد کے لیے رائج کرونی کیپٹلزم (crony capitalism) موجودہے — تفصیلی مطالعہ کے لئے دیکھیں :
ہمیں اشرافیہ اور rent seeking کے متلاشی معاشی نظام کو ختم کرنے کے لیے بنیادی ڈھانچہ جاتی اصلاحات کرنا ہوں گی [نئے ٹیکس ماڈل کی ضرورت ہے، بزنس ریکارڈر، 26 فروری 2021]۔ رضاکارانہ ٹیکس کی تعمیل کو بہتر بنا کر، ٹیکس کی شرحیں کم کر کے، تمام ودہولڈنگ پروویژن (سوائے تنخواہ، ڈیویڈنڈ، سود اور غیر رہائشیوں کو ادائیگی کے) واپس لے کر اور ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کر کے، ہم صرف وفاقی سطح پر 34 ٹریلین روپے جمع کر سکتے ہیں۔۔ اگر ہم25 ٹریلین روپے کا بھی ٹیکس ریونیو اکٹھا کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو ملکی اور غیر ملکی قرضوں پر ہمارا انحصار نمایاں طور پر کم ہو جائے گا اور چند سالوں کے بعد ختم ہو جائے گا، بشرطیکہ ہم ایک دہائی تک کم از کم 7 فیصد کی پائیدار شرح نمو حاصل کریں جس کے لیے ٹیکس کے نظام کو آسان بنانا شرط ہے [ایف بی آر، ٹیکس کی صلاحیت اور نفاذ۔ I، بزنس ریکارڈر، 5 مارچ 2021 اور ایف بی آر ٹیکس کی صلاحیت اور نفاذ—II، بزنس ریکارڈر، 7 مارچ، 2021]۔
ایف بی آر کی تنظیم نو کے خیال کو مختلف مضامین میں واضح کیا گیا، نیشنل ٹیکس اتھارٹی کی ضرورت، ایک کیس برائے نیشنل ٹیکس اتھارٹی-I، ایک کیس برائے نیشنل ٹیکس اتھارٹی۔ II، اور کیس برائے آل پاکستان یونیفائیڈ ٹیکس سروس: پی ٹی آئی اور جدید ٹیکس اصلاحات۔ نیشنل ٹیکس ایجنسی (این ٹی اے) کی سفارش ٹیکس اصلاحات کمیشن نے فروری 2016 میں حکومت کو پیش کی گئی اپنی حتمی رپورٹ میں بھی کی تھی، جسے محمد اسحاق ڈار، اس وقت کے چوتھے نائب وزیر اعظم اور 39ویں وزیر خارجہ نے خفیہ قرار دیا تھا۔
اس میں دو رائے نہیں ہو سکتی کہ ایف بی آر یا ٹیکس وصول کرنے والی کسی دوسری ایجنسی کو ایک مجاز بورڈ کے ذریعے چلانے کی ضرورت ہے۔ این ٹی اے وفاقی اور صوبائی سطحوں پر ایک سے زیادہ جمع کرنے والی ایجنسیوں کے خوفناک سائز کو کم کرنے کے لیے بھی ضروری ہے جو کہ نااہلی اور بدعنوانی کا مظہر ہیں اور ایک ونڈو (window)کے تحت کام کرنے کی بجائے غیر ضروری تعمیل لاگت پیدا کرتے ہیں۔ فی الحال، ٹیکس دہندگان کو متعدد ٹیکس ایجنسیوں سے نمٹنا پڑتا ہے جس سے ان کے کاروبار کی لاگت میں اضافہ ہوتا ہے۔
رضاکارانہ ٹیکس کی تعمیل کو فروغ دینے کے لیے، لوگوں کو مفت تعلیم، معیاری صحت کی دیکھ بھال، معقول رہائش/ٹرانسپورٹ کے علاوہ سماجی تحفظ، جیسے یونیورسل پنشن، معذوری الاؤنس، بڑھاپے کے فوائد، انکم سپورٹ، چائلڈ سپورٹ کیے لئے نئے ٹیکس ماڈل کی ضرورت ہے۔
دستیاب اعداد و شمار اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ اگلی دو دہائیوں میں ڈیجیٹل معیشت دسیوں ارب ڈالر کی ہو سکتی ہے۔ کیا ہم اپنے غیر ملکی قرضوں کو ختم کرنے اور آئی سی ٹی اشیاء اور خدمات کو فروغ دینے کے لیے اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے تیار ہیں تاکہ نوجوان آئی ٹی تربیت یافتہ اہلکاروں کو ملازمتیں فراہم کی جا سکیں؟ جواب ہے ہر گز نہیں۔
اس وقت ٹیلی کام سیکٹر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے بے تحاشا ٹیکسوں کے ذریعے غریب ترین غریبوں کو لوٹنے کا ایک ذریعہ ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے غربت کے خاتمے کے لیے ٹیلی کام کو ایک طاقتور ٹول کے طور پر استعمال کرتے ہوئے غربت کے خلاف پرجوش اقدامات کیے ہیں، لیکن پاکستان دنیا میں ٹیلی کام مارکیٹوں پر سب سے زیادہ ٹیکس لگانے والے ملکوں میں شامل ہے۔
پاکستان میں ایک بنیادی ہینڈ سیٹ کی ملکیت اور کنکشن کی قیمت دوسرے ملکوں سے 30 فیصد سے زیادہ ہے۔ اس اینٹی گروتھ (anti-growth) ٹیکسیشن کو ختم کیا جائے اور آئی سی ٹی اشیاء اور خدمات کی برآمد کو نہ صرف چھوٹ دی جائے بلکہ بونس بھی دیا جائے جیسا کہ بنگلہ دیش، سری لنکا اور دیگر کئی ممالک میں ہے۔
جیسا کہ ان کالموں میں کئی بار تجویز کیا گیا ہے، اگر ایف بی آر تمام منفرد موبائل صارفین کو رجسٹر کرتا ہے، تو ہم آسانی سے 18 ٹریلین روپے (انکم ٹیکس 12 ٹریلین روپے اور سیلز ٹیکس 6 ٹریلین روپے) صرف ایک سال میں اکٹھے کر سکتے ہیں۔ غیر رسمی معیشت کو ضم کرنے سے 34 ٹریلین روپے تک حاصل ہو سکتے ہیں۔۔اس کے لئے ایف بی آر کو درج ذیل اقدامات کرنے ہوں گے:
• تمام منفرد موبائل صارفین کی لازمی طور پر رجسٹریشن کے بعد، انہیں صرف چار سوالات کے جوابات کے ساتھ ایف بی آر کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کرنے کے لیے صارف نام اور پاس ورڈ (نان فائلرز کی صورت میں) یا اپ ڈیٹ پروفائل (فائلرز کی بنیاد پر) کے ساتھ ٹیکسٹ میسج بھیجیں:
o منحصر یا خاندان کا سربراہ۔ اگر خاندان کا سربراہ ہے تو، انحصار کرنے والوں کی تعداد کا ذکر کریں۔
o خود ملازم یا تنخواہ دار شخص [آجر کا نام/پتہ لکھنے کے لیے تنخواہ دار شخص]۔
o کاروبار یا پیشے کی نوعیت اور پتہ (یا اگر ایک سے زیادہ جگہوں کا استعمال کیا جاتا ہے تو پتے) کا ذکر کرنے کے لیے خود ملازم جہاں کاروبار چلایا جاتا ہے اور پیشہ استعمال کیا جاتا ہے۔
o تمام ذرائع اور مجموعی رسیدوں سے سالانہ خالص آمدنی۔
• وہ لوگ جو قابل ٹیکس آمدنی رکھتے ہیں لیکن انکم ٹیکس ریٹرن اور سیلز ٹیکس اسٹیٹمنٹ کبھی بھی جمع نہیں کرائے انہیں آسان اور ایک صفحہ پر مشتمل ٹیکس ریٹرن فائل کرنے کی سہولت دی جائے جس میں مجموعی فروخت یا رسیدوں کا اعلان ہو، جیسا کہ معاملہ ہو، انگریزی اور اردو دونوں میں دستیاب کرایا جائے۔ ان علاقوں میں رہنے والے جہاں انٹرنیٹ دستیاب نہیں ہے، قریبی پوسٹ آفس کی مدد لی جا سکتی ہے یا کسی بھی موبائل کمپنی کی G/4G 3سروس رکھنے والا شخص سادہ ڈیکلریشن پُر کر سکتا ہے جس میں اس کی طرف سے ڈیٹا درج کرنے والے شخص کی شناخت کا ذکر ہو۔
• یہ نادرا کے پاس دستیاب فیملی ٹری ڈیٹا کو ملا کر قومی سطح پر تمام گھرانوں اور ان کی کمائی کی سطح کی دستاویزات میں مدد کرے گا۔
• قابل ٹیکس حد سے کم آمدنی والے افراد کو انکم سپورٹ (منفی ٹیکس) کی ادائیگی اس وقت تک کی جانی چاہیے جب تک کہ انہیں زندگی بھر بھکاری بنا کر رکھنے کی بجائے پیشہ ورانہ تربیت اور روزگار فراہم کیا جائے۔ کسی بھی معذوری یا معذوری کے حامل خصوصی افراد کا متعلقہ حکومتوں کی طرف سے خیال رکھنا چاہیے جہاں وہ رہتے ہیں۔
• وہ لوگ جو بطور ووٹر رجسٹرڈ نہیں ہیں انہیں ووٹر بننے کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی مدد سے ووٹر لسٹ میں درج کیا جائے گا۔
مندرجہ بالا کی بنیاد پر، ایف بی آر کے پاس تمام گھرانوں کی ’قومی سماجی و اقتصادی رجسٹری‘ ہوگی۔ تمام کے جامع ڈیٹا کی فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF) کی ضرورت اور اینٹی منی لانڈرنگ (AML) اور دہشت گردوں کی مالی معاونت (CFT) کے انسداد کے نقطہ نظر سے ان کے خطرے کی تشخیص کی ضرورت بھی پوری کی جائے گی۔
وزیر اعظم شہباز شریف کو اس مجوزہ سکیم میں خصوصی دلچسپی لینا چاہیے اور ایف بی آر کو حکم دینا چاہیے کہ وہ تمام متحرک موبائل صارفین کو رجسٹر کرے اور ان تمام لوگوں کو ریفنڈ ادا کرے جن کی آمدنی نہیں تھی یا ٹیکس کی حد سے کم تھی۔ ان سے پچھلے 5 سالوں کے دوران جمع کی گئی رقم جو پری پیڈ یا پوسٹ پیڈ موبائل صارفین کے طور پیشگی انکم ٹیکس تھی واپس ملنی چاہیے۔
ایسا ہونے کی صورت میں، ہمارے پاس ٹیکس کے مقاصد کے لیے پاکستان میں تمام گھرانوں کا ڈیٹا ہوگا، جس کی بائیو میٹرک سسٹم کے ذریعے پہلے ہی تصدیق ہو چکی ہے۔ یہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (BISP) کے تحت اقدامات کی منصوبہ بندی کرنے میں بھی مدد کرے گا اور مہارتوں کو بڑھانے، پیشہ ورانہ تربیت وغیرہ سے متعلق تمام پروگراموں کو شفاف اور ہدف کے مطابق بنانے میں بھی مدد ملے گی۔ بلاشبہ یہ پاکستان کو معاشی طور پر قابل عمل اور فلاحی ریاست بنانے کے لیے ایک بڑی کاوش ثابت ہو گی۔