عہدِ ظلمت (Dark Ages) کی ذہنیت پر فلوطین کا اثر
فلاطینوس نے عیسائیوں کے عقائد پر بالعموم اور عارفوں (Gnostics) کے افکار پر بالخصوص کڑی نکتہ چینی کی ہے۔ وہ عارفوں کے اس عقیدے کا مخالف تھا کہ دنیا شر کی تخلیق ہے اس لیے اس میں دلچسپی لینا گناہ ہے۔ فلاطینوس فطرت کے حسن و جمال کا پرستار تھا کیونکہ اس کے خیال میں فطرتی حسن بھی حسنِ ازل ہی کا پرتو ہے۔ فلاطینوس کے نظریات اس لحاظ سے بڑے اہم ہیں کہ وہ براهِ راست عیسوی علمِ کلام پر اور بالواسطہ مسلمانوں کے تصوف اور علمِ کلام پر اثرانداز ہوئے۔
فلسفہ نو فلاطونیت جس نے یہودی، مسیحی اور مسلم نظریات بدل ڈالے (I)
آگسٹائن ولی (Saint Augustine) اس کا مداح تھا۔ اس کا خیال تھا کہ فلاطینوس کی روح میں افلاطون کی روح نے حلول کیا ہے اور افلاطون کو وہ فلاسفہ کا مسیح کہا کرتا تھا۔ اس کا عقیدہ یہ تھا کہ عیسائیت اور نو فلاطونیت میں بنیادی توافق پایا جاتا ہے اور فلاطینوس کی تعلیمات میں خفیف سا رد و بدل کر دیا جائے تو اسے عیسائی کہنے میں کوئی تامل نہیں ہو گا۔ اسی بنا پر ارڈمان نے اپنی تاریخِ فلسفہ میں نو فلاطونیت کا ذکر ازمنۂ وسطیٰ کے مسیحی علمِ کلام کے ضمن میں کیا ہے۔ اس کے خیال میں اس مسلک کو یونانی فلسفے کی شاخ قرار دینا غلطی ہے۔ لیکن یہ رائے بوجوه قابل قبول نہیں ہے۔ بقول سٹیس، عیسوی عقائد اور فلاطینوس کے افکار میں بنیادی اختلافات ہیں۔ نو فلاطونیت میں یونانِ قدیم کی اصنام پرستی کی روح کار فرما ہے۔
فلسفہ نو فلاطونیت جس نے یہودی، مسیحی اور مسلم نظریات بدل ڈالے (II)
آگسٹائن ولی کی طرح کلیمنٹ ولی بھی نو فلاطونیت کا بڑا شیدائی تھا۔ وہ سکندریہ کا پہلا عیسائی اہلِ قلم ہے جس نے فلسفے اور عیسائی فکر و نظر میں مفاہمت پیدا کرنے کی کوشش کی تھی۔ چنانچہ ازمنۂ وسطی کے عیسائی متکلم عیسائیت کے پردے میں فلاطینوس کے افکار ہی کی تبلیغ کرتے رہے حتیٰ کہ طامس اکوئنس نے ارسطو کے افکار کی اہمیت واضح کی۔ آج بھی کلیسائے روم کے علمِ کلام میں فلاطینوس کی تعلیمات باقی و برقرار ہیں۔
مسلم عہدِ ظلمت اور فلوطین
مسلمان مفکرین خلافتِ عباسیہ کے عہدِ زریں میں فلاطینوس کے افکار سے متعارف ہوئے تھے کیونکہ انطاکیہ، نصیبین اور حران کے نسطوری عیسائیوں اور صابیئین نے یونانی فلاسفہ کی کتابوں کو سریانی سے عربی میں ترجمہ کر دیا تھا۔ فلسطین اور شام کے عیسائی مدارس میں جس فلسفۂ یونان کی تدریس ہوتی تھی وہ بنیادی طور پر نو فلاطونی تھا۔ سریانی علماء ارسطو، فیثاغورس، ہیریقلیتس وغیرہ فلاسفۂ یونان کی شرحِ نو افلاطونی افکار و عقائد کی روشنی میں کر رہے تھے۔ جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے، سکندر افرودیسی نے نفسیات ارسطو کی شرح مذہبی نقطہ نظر سے کی تھی۔ نتیجتاً وہ عربوں میں بڑی قبول ہوئی۔ الہیٰاتِ ارسطو (اثولوجیا) کا عربی ترجمہ 226 ہجری (840ء) میں ہوا تھا۔ یہ ارسطو کی تالیف نہیں تھی بلکہ فلاطینوس کے رسائل کی آخری تین کتابوں کی تلخیص تھی جو نیمیاح امیسوی نے لکھی تھی۔ عربوں نے غلطی سے اسے ارسطو کی تصنیف سمجھ لیا اور الہٰیات کے نو فلاطونی افکار ارسطو سے منسوب کر دیے۔
اس طرح دنیائے اسلام میں افکارِ ارسطو کے پردے میں نو فلاطونی افکار کی خوب اشاعت ہوئی۔ اس اسلامی نو فلاطونیت کو ابنِ سینا اور ابنِ رشد نے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ مسلمان صوفیہ پر خاص طور سے نو فلاطونی تعلیمات کا گہرا اثر ہوا۔ چنانچہ جنید بغدادی، بایزید بسطامی، شہاب الدین سہروردی (شیخ اشراق مقتول)، شیخ اکبر محی الدین ابن عربی، حتیٰ کہ غزالی تک کے بنیادی افکار نو فلاطونی کہے جا سکتے ہیں۔
تجلی کا نظریہ مسلمانوں میں ہر کہیں رواج پذیر ہو گیا۔ الکندی سے لے کر فارابی، اخوان الصفا، ابنِ سینا وغیرہ تک، سارے فلسفۂ اسلام کا سنگ بنیاد یہی نظریہ ہے۔ فلاسفۂ اسلام نے سکندر افرودیسی کی پیروی میں عقلِ کل کو عقلِ فعال کا نام دیا اور عقل انسانی کو عقلِ مستفاد کا۔ ان کے خیال میں عقل فعال ذات باری سے متفرع ہوئی ہے اور اس کے عمل سے عقل مستفاد کو فروغ ہوتا ہے۔ انسان کوشش کرے تو عقلِ مستفاد، عقلِ اول میں جذب ہو سکتی ہے۔ ابنِ رشد کہنا تھا کہ انسانی روح کا وہی حصہ باقی رہے گا جو عقلِ اول یا عقلِ فعال میں جذب ہو جائے گا۔ اسے نظریۂ وحدتِ عقلِ فعال کہتے ہیں۔ ابنِ رشد نے اس کا منطقی نتیجہ بھی قبول کر لیا اور حشر نشر سے انکار کر دیا۔ فرینک تھلی کے الفاظ میں:
'مسلمان فلاسفہ کی رسائی ارسطو کی اصل تعلیمات تک نہ ہو سکی۔ وہ ان کی ترجمانی نو فلاطونی رنگ میں کرتے رہے۔ دراصل نو فلاطونی شرح کے پردے کو ہٹا کر ارسطو کی تعلیمات تک پہنچ سکنا اس زمانے میں سخت مشکل تھا کیونکہ وہ صدیوں سے شرح و ترجمانی کے ملبے میں مدفون ہو چکی تھیں۔ دو اصناف کو البتہ مستثنیٰ کیا جا سکتا ہے؛ منطق اور ریاضیات۔ جن میں مسلمانوں نے اجتہادی اضافے کیے'۔
مسلمانوں کے تصوف پر نو فلاطونی افکار کے بڑے گہرے اور دور رس اثرات مرتب ہوئے۔ بایزید بسطامی، جو پہلے صاحبِ حال صوفی ہیں، فنا فی اللہ کے مبلغ ہیں۔ جنید بغدادی نے فلاطینوس کی پیروی میں ذاتِ احد کو حسنِ ازلی اور محبوبِ اول کہہ کر پکارا اور عشقِ حقیقی کو تصوف و سلوک کا لازمہ قرار دیا۔ حلاج کے خیالات میں اوتار کا آریائی تصور نمایاں ہے لیکن اس کا یہ خیال کہ انسانی روح میں روحِ کُل جلوہ فرما ہے، فلاطینوس سے ماخوذ ہے۔ ابنِ عربی نے نظریۂ وحدت الوجود اور فصل و جذب فلاطینوس سے لیا تھا۔
فلاطینوس کا خیال تھا کہ ذاتِ احد کائنات سے بے تعلق اور ماوراء بھی ہے اور اس میں طاری و ساری بھی ہے۔ ابنِ عربی نے بھی بھی کہا ہے۔ ابنِ عربی کا اللہ، افلاطون کا خیرِ محض اور فلاطینوس کی ذاتِ احد ایک ہی مفہوم میں استعمال کیے گئے ہیں۔ شیخ اکبر نے فلاطینوس کی عقلِ اول کو حقیقتِ محمدیہ کا نام دیا ہے۔ ہسپانیہ میں نو فلاطونیت کی ترویج رسائل اخوان الصفا کی اشاعت سے ہوئی جن سے ابنِ عربی نے بھی استفادہ کیا تھا۔ ابنِ عربی کے شاگردِ رشید اور لے پالک مولانا صدر الدین قونوی، مولانا روم کے استاد تھے۔ مولانا روم ایک مدت تک ان کے درس میں شریک ہو کر فتوحات اور نصوص پر ان کی شرح و توضیح سے فیض یاب ہوتے رہے۔ مثنوی مولانا روم میں فصل و جذب کا جو نظریہ پیش کیا گیا ہے وہ ابنِ عربی کے واسطے سے فلاطینوس ہی کی صدائے بازگشت ہے۔ مثنوی کی ابتدا اس مشہور شعر سے ہوتی ہے؛
بشنو از نی چون حکایت می کند
از جدائی ہا شکایت می کند
اس میں روح انسانی کے اضطراب و التہاب کا نقشہ کھینچا ہے جو اپنے نیستان یا ماخذِ حقیقی میں دوبارہ جذب ہونے کے لیے بے قرار ہے اور اس کی جدائی میں نالہ و فریاد کر رہی ہے۔ عبد االکریم جیلی نے اپنی کتاب 'انسان کامل' میں ابنِ عربی کا نظریۂ وحدت الوجود پیش کیا ہے۔ جیلی بھی فلاطینوس کی طرح وجودِ مطلق کا نزول تین مراحل میں تسلیم کرتے ہیں۔ البتہ انہوں نے عقلِ اول کو ہویت (وہ ہونا) اور روح کو انیت (میں ہونا) کے نام دیے ہیں۔ اسی طرح روح انسانی کا صعود بھی تین مراحل میں دکھایا ہے جنہیں طے کر کے وہ انسانِ کامل بھی بن جاتی ہے اور دوبارہ وجودِ مطلق میں جذب ہو جاتی ہے۔ مولانا روم، عراقی، جامی، محمود شبستری، عطار، سنائی، ابنِ فارض، وغیرہ، صوفی شعرا کی پرسوز اور دلدوز شاعری نے ان نو فلاطونی افکار و تعلیمات کو اسلامی دنیا میں دور دور تک پھیلا دیا۔ صوفیہ کے اکثر سلسلوں نے عامۃ الناس میں ان تعلیمات کی ترویج کی حتیٰ کہ یہ مسلمانوں کے فکر و احساس کا محور بن گئیں۔ ابنِ تیمیہ، شیخ احمد سر ہندی، محمد بن عبد الوہاب نجدی، وغیرہ کی مخالفت کے باوجود ابھی تک ان کا اثر و نفوذ باقی و برقرار ہے۔
جمالیاتی ذوق کی تسکین
فلاطینوس کے افکار و آرا پر محاکمہ کرتے وقت اس حقیقت کا پیشِ نظر رہنا ضروری ہے کہ ہر عظیم مفکر کے نظریات میں چند دوامی عناصر لازماً موجود ہوتے ہیں۔ اگرچہ اس میں شک نہیں کہ نئے نئے علمی انکشافات قدماء کے بعض نظریات کو بدل دیتے ہیں اور بعض کو اوہامِ باطل ثابت کر دکھاتے ہیں۔ آج فلاطینوس کا تجلی کا نظریہ کون تسلیم کرے گا یا اس کی رہبانیت، جذب و سکر اور نزول و صعود کو کون مانے گا۔ اس کی نفسیات داستانِ پارینہ بن چکی۔ اس کی اخلاقی قدریں فرسوده ہو چکیں۔ لیکن کائنات کے مظاہر میں تعمق و تفکر کی جو دعوت فلاطینوس نے آج سے کم و بیش ڈیڑھ ہزار برس پہلے دی تھی اس کی اہمیت سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا۔ برٹرینڈ رسل اپنی کتاب 'نئی دنیا کے لیے نئی امیدیں' میں لکھتے ہیں:
'میرا خیال ہے کہ فلاطینوس دوامی مظاہرِ عالم میں تفکر و تدبر کی دعوت دینے میں حق بجانب تھا لیکن اس کا یہ خیال غلط تھا کہ یہ تفکر ہی کسی شخص کو نیک بنانے کے لیے کافی ہے۔ تفکر اس وقت مفید اور صالح ثابت ہو گا جب اس کا رشتہ عمل سے استوار ہو گا۔ اس سے عمل کو تقویت ہونی چاہیے۔ ۔ ۔ ورنہ یہ محض فرار کا وسیلہ ہے'۔
برٹرینڈ رسل کا یہ خیال صحیح ہے کہ تعمق و تفکر سے عمل کو تحریک و تقویت ہونی چاہیے لیکن اس خیال کا اظہار یوں بھی کیا جا سکتا ہے کہ عمل، تعمق و تفکر سے عاری ہو تو وہ انسان کو اپنے منصب سے گرا کر وحوش کی سطح پر لے آتا ہے۔ اس دور کی مغربی تہذیب کا المیہ یہی ہے کہ مغرب میں صرف عمل ہی عمل رہ گیا ہے۔ اہل مغرب ایک نہ ختم ہونے والی دوڑ دھوپ میں منہمک ہیں اور ادھر ادھر دیکھے بغیر دیوانہ وار آگے آگے بھاگے جا رہے ہیں۔
حسنِ ازل کا تصور جو فلاطینوس کے فکر و نظر کا محور تھا، شاید آج قابل قبول نہ ہو لیکن اس کا یہ قول کہ حسن کی قدر صرف مغنی عشاق اور فلاسفہ ہی جان سکتے ہیں، آج بھی اتنا ہی صحیح ہے جتنا کہ صدیوں پہلے تھا۔ دانتے کے طریۂ خداوندی کی جان 'جلوۂ حسن ازل' ہے جو دنیائے ادب میں بے مثل سمجھا جاتا ہے۔ یہ خیال فلاطینوس ہی سے مستعار ہے۔
آج ہم پانی میں چاند کا عکس دیکھ کر شاید فلاطینوس کی طرح چاند کی تلاش میں سرگرداں نہ ہوں لیکن چاند کے حسین عکس کو پانی میں دیکھ کر متاثر نہ ہونا تو ہمارے بھی بس کی بات نہیں ہے۔ اور اس حسین عکس کی طرف توجہ دلانا بھی کوئی معمولی کارنامہ نہیں ہے کہ بڑے سے بڑے فن کاروں اور شعرا کو بھی اس سے زیادہ کی توفیق ارزانی نہیں ہو سکی۔ (1)
موجودیت کا فلسفہ تصوف سے الگ ہے
Existentialism کا ترجمہ بعض لوگوں نے وجودیت سے کیا ہے جو صحیح نہیں ہے۔ وجود Being کا ترجمہ ہے۔ Existent کا ترجمہ 'موجود' ہے۔ مزید براں، وجودیت سے ہمارے یہاں وحدت الوجود یا ہمہ اوست مراد ہے۔ جو صوفیہ اس نظریے کے قائل ہوئے ہیں انہیں وجودی یا وجودیہ کہا گیا ہے۔ (2)
**
منابع:
1. سید علی عباس جلالپوری، 'روایاتِ فلسفہ'، باب: نوفلاطونیت، خرد افروز، جہلم۔
سید علی عباس جلالپوری، 'روایاتِ فلسفہ'، باب: موجودیت پسندی، خرد افروز، جہلم۔