افلاطون اور ارسطو کے ما بعد الطبیعاتی نظریات میں فلسفۂ یونان معراج کمال کو پہنچ گیا تھا۔ ارسطو نے اپنے استاد کی مثالیت پر معرکہ آراء نقد لکھا تھا جس سے مثالیت پسندی میں حقیقت پسندی کا رجحان پیدا ہوا۔ لیکن سیاسی زوال اور معاشی بدحالی کے باعث اس رجحان کو پنپنے کے مواقع نہ مل سکے اور ارسطو کی ذات پر فکر یونان کا ایک درخشاں دور ختم ہو گیا۔
پریکلیز کے عہد زریں کے بعد جلد ہی سپارٹا والوں نے ایتھنز کو فتح کر کے اُس کی آزادی کا خاتمہ کر دیا تھا۔ لیکن سپارٹا والے بہرحال یونانی تھے۔ ان کے عہد تسلط میں ایتھنز والوں کو ایک حد تک فکر و نظر کی آزادی میسر تھی۔ کچھ زیادہ عرصہ نہ گزرا کہ فلپ، شاه مقدونیہ، نے جنگ قیرونیہ میں یونانی ریاستوں کی متحدہ فوج کو شکست فاش دے کر انہیں اپنی مملکت میں شامل کر لیا۔
سکندر کی وفات کے بعد بھی اہل یونان بدستور باہمی نزاعوں اور سازشوں میں محو رہے حتی کہ رومۃ الکبریٰ کے غلبے نے انہیں ابدی غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دیا۔
نوفلاطونیت کا تاریخی پس منظر
تنزل و ادبار کے دور میں اقوام تصوف سے رجوع لاتی ہیں۔ چنانچہ اہلِ یونان نے اس عہدِ انحطاط میں باطنیت اور تصوف کا دامن تھاما۔ لیکن جس تصوف کی طرف وہ متوجہ ہوئے وہ کوئی مَلکی مکتبِ عرفان نہیں تھا بلکہ ان عقائد و افکار کا ملغوبہ تھا جو سکندرِ اعظم کے سپاہی کلدانیہ، بابل، مصر اور ایران و ہند سے اپنے ساتھ لائے تھے۔ جہاں اہلِ یونان نے ان ممالک سے علمِ ہئیت کے اصول اور مساحت و ہندسے کے مبادیات سیکھے تھے وہاں سحر و سیمیائے بابل، نیر نجات کلدانیہ اور عرفانِ ہند و ایران کی تحصیل بھی کی تھی۔
سکندرِ اعظم فلسفے کا شیدائی تھا اور ارسطو کا شاگرد تھا، لیکن وہم پرستی کی یہ حالت تھی کہ کلدانی فال گیروں اور کاہنوں کی ایک جماعت اپنے ساتھ رکھتا تھا اور ہر مہم کے آغاز میں ان سے استصواب کرتا تھا۔ یونان کی عقلیت اور مشرق کے تصوف و عرفان کے امتزاج کا نتیجہ یہ ہوا کہ جہاں اہلِ مغرب کو متصوفانہ افکار نے متاثر کیا وہاں اہلِ مشرق نے بھی اپنے مذہبی عقائد کی تاویل کر کے انہیں فلسفیانہ نظریات پر ڈھالنے کی کوشش شروع کی جس سے علم کلام کی داغ بیل ڈالی گئی۔
اس تاثیر و تاثر کا سب سے بڑا مرکز سکندریہ کا شہر تھا جسے سکندر کے ایک جرنیل بطلیموس نے مصر کا دارالحکومت بنا لیا تھا۔ اس کے جانشینوں کے زیرنگیں سکندریہ کو بین الاقومی شہرت حاصل ہو گئی۔ مہذب دنیا کے تمام ممالک کا مالِ تجارت بری و بحری راستوں سے اس شہر میں آتا تھا۔ ایران، ہندوستان اور عرب کے تاجروں نے شہر کے مضافات میں اپنی اپنی بستیاں بسا لی تھیں۔ دن رات کے میل جول اور ربط ضبط سے مختلف اقوام و مذاہب کے لوگ وسیع النظر اور فراخ مشرب ہو گئے۔ وہ بے تکلف ایک دوسرے کی مذہبی مجالس میں شرکت کرتے تھے اور ایک دوسرے کے تیوہاروں کو مل کر دھوم دھام سے مناتے تھے۔
بطلیموس ثانی نے سکندریہ میں شہرۂ آفاق میوزیم کی بنیاد رکھی جس میں ایک عظیم الشان کتب خانہ بھی قائم کیا گیا۔ اس میوزیم میں یونان، روم اور شام کے اہل علم کے علاوہ جو بلینی تہذیب و تمدن کی نمائندگی کرتے تھے، ہندوستان اور ایران کے علم دوست تاجر بھی آپس میں مل بیٹھتے تھے اور مذہبی اور فلسفیانہ موضوعات پر تبادلۂ خیال کرتے تھے۔ اس بات کے تاریخی شواہد موجود ہیں کہ ہندوستان کے سینکڑوں بدھ اور جین بھی ان مباحثوں میں حصہ لیتے تھے۔ ان کے علاوہ فلسطین کے یہودی احبار تھے جو سب کو حقارت کی نظروں سے دیکھتے تھے لیکن اس کے باوجود اپنی کتب مقدسہ کا ترجمہ یونانی زبان میں کر رہے تھے۔ عیسائیت کو شروع شروع میں یہودیت ہی کی ایک شاخ سمجھا جاتا تھا لیکن مسیحی اولیاء قدیم بت پرست اقوام کے قصص کو اپنے مذہب میں جذب کر کے اسے عالمگیر رواج و قبول بخشنے کا خواب دیکھ رہے تھے۔
یونان میں افلاطون اور ارسطو کے قائم کیے ہوئے مکاتب میں درس و تدریس کا سلسلہ جاری تھا لیکن مرورِ زمانہ سے ان کے بانیوں کی تعلیمات میں بہت کچھ تحریف و الحاق واقع ہو چکا تھا اور ان مدرسوں کا رجحان تشکک کی جانب ہو گیا تھا۔ پہلی صدی بعد از مسیح میں ایک طرف ایران کے متھرامت کی ہمہ گیر ترویج ہوئی، دوسری طرف فیثاغورس کی عرفانی تعلیمات کا احیاء عمل میں آیا جسے نو فیثاغورسیت کا نام دیا گیا۔ اس میں تناسخِ ارواح، تقشف و ریاضت اور نظریۂ فصل و جذب پر خاص طور سے زور دیا جاتا تھا۔
فلسفہ نو فلاطونیت جس نے یہودی، مسیحی اور مسلم نظریات بدل ڈالے (II)
مشرقی مذاہب کے مقابلے میں فلاسفۂ یونان و روم نے بھی اپنے عقائد و افکار کو مذہبی بنیادوں پر منظم کرنے کی کوشش کی۔ رواقیئین نے اس رجحان کو خاص طور پر تقویت دی۔ ان میں پوسی دونیس قابل ذکر ہے۔ بعض مورخینِ فلسفہ نے تو فلاطونیت کا آغاز اسی کی ذات اور تعلیم سے کیا ہے۔ فرینک تھلی کہتے ہیں:
' افلاطون اور ارسطو کے بعد فلسفے کا رجحان رواقیئت کے واسطے سے مذہبیت کی طرف ہو گیا تھا۔ رواقیئین کائنات کو نظام غائی سمجھتے تھے اور اس بات کی دعوت دیتے تھے کہ انسانی ارادے کو کائناتی ارادے کے تحت رکھنا ضروری ہے تا کہ کائنات کی غایت کی تکمیل ہو سکے۔ اس مذہبی تحریک کو اس وقت تقویت پہنچی جب سکندرِ اعظم کے بعد یونانیوں کو کلدانیوں، مصریوں اور یہودیوں سے میل جول کے مواقع ملے۔ سکندریہ کے شہر کو بین الاقوامی حیثیت حاصل تھی۔ اسی شہر میں فیثاغورس کے افکار پر ایک عالمگیر مذہب کی بنیاد رکھنے کی کوشش کی گئی اور افلاطون کے فلسفے کو مذہبی رنگ دے کر یا اس کے مذہبی رنگ پر مشرقی تصوف کا پیوند لگا کر نو فلاطونیت کی بنیاد رکھی گئی'۔
یہودیت اور مسیحیت میں نئے نظریات
نو فلاطونیت کے آغاز و ارتقا کا تاریخی جائزہ لینے سے پہلے اس مذہبی رجحان کے دو مشہور ترجمانوں، فلو یہودی اور سکندر افرودیسی کا ذکر از بس ضروری ہے کہ انہیں فلاطینوس ( Plotinus) کا پیش رو سمجھا جاتا ہے۔
فلو یہودی 30 قبلِ مسیح سے لے کر 50 قبلِ مسیح تک سکندریہ میں مقیم رہا۔ اس کا بھائی سکندریہ سے روم کو مال تجارت برآمد کرتا تھا۔ فلو اس وفد کا رئیس تھا جسے یہودیوں نے شہنشاہ روم کالی کولا کے دربار میں بھیجا تھا۔
اُس کا عقیدہ تھا کہ یہودیوں کے مذہبی عقائد اور فلاسفہ یونان کے افکار دونوں ازلی و ابدی صداقت کے حامل ہیں۔ اپنے مذہب کی اولیت اور عظمت کو ثابت کرنے کے لیے اس نے یہ دعویٰ کیا کہ افلاطون اور ارسطو جنابِ موسیٰ ؑ کے پیرو تھے اور تورات کی تعلیمات سے فیض یاب ہوئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ بقول فلو، تورات کی تعلیم اور ان کے فلسفے میں بنیادی توافق پایا جاتا ہے۔ اس نے فلسفہ و مذہب یا عقل و نقل کی تطبیق کی کوشش کی۔
اس نے تکوین کائنات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ لوگس (لغوی معنی؛ کلمہ، لفظ، نثر) خدا اور کائنات کے درمیان وہ ضروری واسطہ ہے جس کے بغیر کائنات کی تخلیق ممکن نہیں تھی۔
لوگس کا لفظ ہیریقلیتس (Heraclitus) یونانی نے عقلِ کُل کے مفہوم میں پہلے پہل استعمال کیا اور کہا کہ یہ ہمہ گیر حرکت و ہیجان کائنات میں شعلہ بن کر سرایت کیے ہوئے ہے۔ اناکساغورس نے اس واسطے کو عقلِ اول کا نام دیا ہے اور اسے عالمگیر ذہن کہہ کر بھی مخاطب کیا ہے جو کائنات میں توافق و تناسب کو برقرار رکھتا ہے۔
یاد رہے کہ یہودیت میں اسلام کی طرح خدا کا تصور شخصی ہے اور خدا قادر مطلق ہے جو صرف 'کن' کہنے سے اشیاء کو عدم سے وجود میں لا سکتا ہے۔ فلاسفہ یونان کی اکثریت اس بات کی قائل تھی کہ کوئی شے عدم سے وجود میں نہیں آ سکتی۔ اس لیے فلو یہودی نے لوگس کا سہارا لیا اور اپنے مذہبی عقیدے کو فلسفیانہ استدلال پر قربان کر دیا۔
مزید براں، فلو یہودی نو فیثا غورسیت کے اس نظریے سے متاثر ہوا تھا کہ مادہ شر کا مبداء ہے اور خدا خیر کا، ماده آلائش ہے اس لیے اس سے اجتناب ضروری ہے۔ یہ خیال بھی یہودیت کی تعلیم کے منافی ہے کیونکہ اس میں دنیا کی لذتوں سے متمتع ہونے کی دعوت دی گئی ہے۔ علاوہ ازیں، فلو استغراق اور مراقبے کی اہمیت کا قائل تھا۔ یہ خیالات بعد میں فلاطینوس کے فلسفے میں داخل ہو گئے۔
سکندر افرودیسی یونانی الاصل تھا۔ 198ء سے 211ء تک وہ ایتھنز میں درس دیتا رہا۔ اسے اپنے زمانے میں شارحِ ارسطو کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا۔ ارسطو کی دوسری کتابوں کی طرح سکندر نے اس کے رسالۂ روح کی شرح بھی لکھی جو بے حد مقبول ہوئی۔ مسلمان عربوں میں اس کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ اس کا بار بار عربی میں ترجمہ کیا گیا۔ متعدد عرب علماء نے اس پر سیر حاصل حواشی تحریر کیے اور اس کے ملخص قلم بند کیے۔ حتیٰ کہ بقول اولتیری، عربی فلسفے کا سنگِ بنیاد قرار پائی۔ اس شرح میں سکندر نے ارسطو کے نظریات کی ترجمانی مذہبی رنگ میں کی تھی اور ارسطو کے 'محرکِ غیر متحرک' کو الوہیت کا جامہ پہنایا تھا۔ علاوه ازیں، اس نے کہا کہ ارسطو انسانی روح کو غیر فانی سمجھتا ہے۔
ارسطو کے ایک اور شارح تھیمسٹیس نے سکندر کے ان خیالات کی تردید میں ایک رسالہ لکھا اور اس پر الزام لگایا کہ اس نے ارسطو کے متن کو ایسے ذاتی معنی پہنا دیے ہیں جو اس سے متبادر نہیں ہوتے۔ چونکہ زمانے کا رجحان عقلیت کے بجائے باطنیت اور مذہبیت کی طرف تھا، اس لیے تھیمسٹیس کے اعتراضات کو نظر انداز کر کے لوگوں نے سکندر کی ترجمانی کو صحیح سمجھ کر قبول کر لیا۔ سکندر افرودیسی کی اس شرح نے نو فلاطونیت کی تشکیل میں اہم حصہ لیا۔
فلاسفۂ یونان خدا کے شخصی تصور سے نا آشنا تھے۔ چنانچہ افلاطون کے 'خیرِ محض' اور ارسطو کے 'محرکِ لا متحرک' کو ان معنوں میں خدا نہیں کہا جا سکتا۔ فلاسفۂ یونان مذہباً کثرت پرست تھے۔ افلاطون اور ارسطو بھی، جن کے نظریات میں ایک عالمگیر اصولِ اول کی جھلک دکھائی دیتی ہے، اپنے ملکی دیوتاؤں کو مانتے تھے۔ ارسطو 27 سے 52 دیوتاؤں کا قائل تھا۔ افلاطون کے مکالمات میں بھی کئی دیوتاؤں کا ذکر آتا ہے۔ مرورِ زمانہ سے جب فلسفہ محض شرح و ترجمانی تک محدود ہو کر رہ گیا تو لوگوں نے فلاسفۂ قدیم کی اصل تعلیمات کی طرف رجوع کرنا ترک کر دیا۔
افلاطون کی اکیڈمی میں کھلم کھلا تشکک کی تعلیم دی جانے لگی۔ اسی طرح ارسطو کے شارحین اس کے افکار کی تاویل کر کے ان کی تطبیق رائج الوقت نظریات سے کرنے لگے۔ ان لوگوں میں سکندر افرودیسی کی شرح سب سے زیادہ مقبول ہوئی۔ اس نے ارسطو کے رسالے روح کی جو مذہبی ترجمانی کی تھی وہ دنیائے علم میں حرف آخر سمجھی جانے لگی۔ اس کے بعد ابنِ رشد کے زمانے تک کسی فلسفی نے ارسطو کی اصل تعلیمات کو معرض بحث میں لانے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔
یہ وہ زمانہ تھا جب روحِ عصر تصوف و عرفان کی دعوت دے رہی تھی۔ ایک طرف تو فیثاغورسی، مشرقی مذاہب اور فیثاغورس کے نظریات کی آمیزش سے ایک نئے مذہب کی بنیاد رکھنے کی فکر میں تھے۔ دوسری طرف متھرامت چاروں طرف سرعت سے پھیلتا جا رہا تھا۔ عیسائیت کی اشاعت بڑے جوش و خروش سے کی جا رہی تھی۔ عیسائیت میں عوام کے لیے بے پناہ کشش کا سامان تھا کیونکہ اس نے شریعتِ موسوی، ختنہ اور سبت، کو منسوخ کر کے بت پرسوں کے رسوم و شعائر اخذ کر لیے تھے اور رواقیئین کے عالمگیر اخوت کے اصول کو اپنا لیا تھا۔
یونانی اور رومی فلاسفہ کو بخوبی معلوم تھا کہ اس نئے مذہب کا مقابلہ کرنا بڑا کٹھن ہے اس لیے انہوں نے قدماء کے فلسفیانہ افکار اور مشرق کے صوفیانہ اصولوں کے امتزاج سے ایک ایسا مذہب مرتب کرنے کی اضطراری کوشش کی جو عیسائیت کا سدباب کر سکتا۔ اسی کوشش کا دوسرا نام فلسفۂ نوفلاطونیت ہے جسے گلبرٹ مرے مذہب یونان کے آخری مرحلے سے تعبیر کرتا اور جسے سٹیس فلسفۂ یونان کی آخری اضطراری کوشش قرار دیتا ہے جو مشرقی تصوف و عرفان کے خلاف کی گئی اور ناکام رہی۔ اس کشمکش میں فتح بالآخر عیسائیت ہی کی ہوئی۔ لیکن جس طرح یونان کی روحِ تمدن نے رومی فاتحین کو مسخر کر لیا تھا، اسی طرح نوفلاطونی نظریات عیسائیوں کے فکر و نظر میں ایسے ذخیل ہوئے کہ آج ان کے تار و پود کو ایک دوسرے سے علیحدہ کیا جائے تو عیسائیت کا وجود باقی نہیں رہے گا۔ (1)
جاری ہے۔۔۔
**
منابع:
1۔ سید علی عباس جلالپوری، 'روایاتِ فلسفہ'، باب: نوفلاطونیت، خرد افروز، جہلم۔