افلاطون کا فلسفہ

افلاطون کے فلسفے کو سمجھنے کے لیے اس کے نظریۂ امثال (Idealism) کو ذہن نشین کر لینا ضروری ہے۔ یہ امثال یا عیون وہی ہیں جنہیں سقراط نے تجریدات فکری یا کسی شے کی تعریف کا نام دیا تھا۔ یہ نظریہ حقیقت اور ظاہر یا حس اور عقل کے امتیاز سے پیدا ہوتا تھا۔

افلاطون کا فلسفہ

افلاطون 427 قبل مسیح میں ایتھنز کے ایک رئیس گھرانے میں پیدا ہوا۔ اس کا اصل نام ارسطو کلیس تھا۔ اوائل شباب میں دوسرے نوجوانوں کی طرح ورزشی کھیلوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا تھا۔ نہایت شہ زور جوان تھا۔ کشتی لڑنے میں شہرت حاصل کی اور کئی میدان مارے۔ اس کے کندھے کشادہ اور توانا تھے۔ اس لیے لوگ اسے پلاٹو کہنے لگے۔ بعد میں اسی نام سے مشہور ہوا۔ علوم مروجہ کی تحصیل گھر میں کی تھی۔ شعر گوئی کا شوق بھی رکھتا تھا۔ عین شباب کے عالم میں جب اس کے سامنے عیش و عشرت کی تمام راہیں کھلی ہوئی تھیں، سقراط کی شخصیت اور اس کی تعلیمات سے ایسا مسحور ہوا کہ تمام مشاغل ترک کر دیے۔ عشقیہ نظموں کے مسودات پھاڑ کر پھینک دیے اور اس کے حلقہ ارادت میں شامل ہو گیا۔ اس کے بعد اس کی ساری زندگی فلسفے کے لیے وقف ہو گئی۔ وہ ایک جگہ کہتا ہے؛ 'خدا کا شکر ہے کہ اس نے مجھے مرد بنایا، عورت نہیں بنایا اور مجھے سقراط کے عہد میں پیدا کیا'۔

افلاطون دس برس استاد سے فیض یاب ہوا اور سقراط کی المناک موت سے ایسا متاثر ہوا کہ گھر بار چھوڑ چھاڑ کر دوسرے ملکوں کی سیاحت پر روانہ ہو گیا۔ اس وقت اس کی عمر 28 برس ہو گی۔ 12 برس تک مصر، صقلیہ اور اطالیہ کی سیاحت کی۔ صقلیہ میں فیثا غورسیوں سے صحبتیں رہیں جن کی باطنیت سے وہ بڑا متاثر ہوا۔ 387 قبل مسیح میں ایتھنز لوٹ آیا اور ایک باغ میں اپنی شہرہ آفاق اکیڈمی قائم کی۔ باقی مانده عمر یہیں درس و تدریس میں گزار دی۔ اس کے مکتب میں زیادہ تر ریاضی اور نظری فلسفے کی تعلیم دی جاتی تھی۔ افلاطون ریاضی کو اس قدر اہم سمجھتا تھا کہ اپنی درس گاہ کے سامنے کے دروازے پر یہ الفاظ کندہ کروائے؛ 'جو شخص ہندسہ نہیں جانتا اندر نہ آئے'۔

افلاطون نے عمر بھر شادی نہیں کی۔ فلسفہ ہی اس کا اوڑھنا بچھونا بن گیا۔ فلسفے کی غواصی اس کے ذوق شعر و ادب کو نہ دبا سکی۔ چنانچہ اس کے مکالمات کا شمار لطف بیان کے لحاظ سے ادبیات عالم میں ہوتا ہے۔ مکالمات افلاطون میں جمہوریہ، قوانین، ضیافت، غور جیاس، اپالوجی، فیدو، سفسط، طیماؤس، فیدرس اور کراٹولیس نہایت بلند پایہ ہیں۔ ان میں تمثیل کا انداز نگارش پایا جاتا ہے اور کرداروں کی زندہ تصویریں چشم تصور کے آگے جھلملانے لگتی ہیں۔

افلاطون نے مثالی مملکت کا تصور پیش کیا تو صقلیہ کے بادشاہ دائونیسیس نے اسے بلا بھیجا کہ آئیے میری ریاست کو مثالی مملکت میں تبدیل کر دیجیے۔ افلاطون اس کے یہاں گیا تو کسی بات پر دونوں میں اختلاف پیدا ہو گیا۔ بادشاہ نے طیش میں آ کر افلاطون کو غلام بنا کر بردہ فروشوں کے ہاتھ بیچ ڈالا۔ فلسفی کے ایک شاگرد نے اس کی قیمت ادا کر کے اسے رہائی دلوائی۔ افلاطون ایتھنز لوٹ آیا جہاں 80 برس کی عمر میں وفات پائی۔

اس کی موت نہایت پرسکون ہوئی۔ ایک دن وہ کسی عزیز کی دعوت عروسی میں شریک تھا۔ رات گئے تک ہنگامہ ناؤ نوش گرم رہا۔ افلاطون کمر سیدھی کرنے کے لیے ایک کرسی پر دراز ہو گیا اور سو گیا۔ صبح سویرے میزبان نے اس کا پتہ کیا تو وہ ابدی نیند سو چکا تھا۔

افلاطون کے فلسفے کو سمجھنے کے لیے اس کے نظریۂ امثال ( Idealism) کو ذہن نشین کر لینا ضروری ہے۔ یہ امثال یا عیون وہی ہیں جنہیں سقراط نے تجریدات فکری یا کسی شے کی تعریف کا نام دیا تھا۔ یہ نظریہ حقیقت اور ظاہر یا حس اور عقل کے امتیاز سے پیدا ہوتا تھا۔ جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں، سب سے پہلے پارمی نانڈیس نے کہا تھا کہ صداقت عقل استدلالی میں ہے اور عالم حواس محض فریب نظر ہے۔ ہیریقلیتس اور دیما قریطس بھی عقلیت پسند تھے۔ سوفسطائی آئے تو انہوں نے اس فرق کو مٹا کر رکھ دیا اور کہا کہ علم صرف حواس ہی سے حاصل ہو سکتا ہے۔ سقراط اور افلاطون نے کہا کہ علم تجریدات فکری سے حاصل ہوتا ہے یا دوسرے الفاظ میں عقل استدلالی ہی سے میسر آ سکتا ہے۔

افلاطون نے کہا کہ یہ تجریدات فکری صرف تفکر کا ایک قانون نہیں ہیں بلکہ مستقل بالذات ما بعد الطبیعاتی حقائق بھی ہیں۔ اس نے ان حقائق کو امثال کا نام دیا اور کہا کہ کائنات کی حقیقت مطلقہ انہی امثال پر مشتمل ہے۔ یاد رہے کہ یہ دعویٰ کہ حقیقت مطلقہ عقلیاتی ہے، تمام مثالیت پسندی کے مرکزی اصولوں میں سے ہے۔ افلاطون کہتا ہے کہ فلاسفہ صرف حقیقی امثال میں دلچسپی لیتے ہیں، فرد یا شے سے اعتنا نہیں کرتے۔ افلاطون نے ان امثال کا ایک ایسا عالم بسایا ہے جو مادی دنیا سے ماوراء ہے اور بے شمار امثال پر مشتمل ہے۔ عالم مادی میں جتنی اشیاء بھی دکھائی دیتی ہیں وہ انہی امثال کے سائے یا عکس ہیں۔ دوسرے الفاظ میں عالم امثال حقیقی ہے اور عالم ظواہر غیر حقیقی ہے۔

افلاطون کے امثال ازلی اور غیر مخلوق ہیں۔ افلاطون نے انہیں ہئیت بھی کہا ہے۔ یہ امثال مستقل بالذات ہیں اور مادی عالم کے کسی تغیر سے متاثر نہیں ہوئے۔ مادی عالم کی اشیاء ان امثال کے سائے ہیں۔ مثلاً دنیا میں جتنے گھوڑے ہیں وہ مثالی گھوڑے کے عکس ہیں۔ تمام امثال ازل سے مرتب و مدون صورت میں موجود ہیں۔ ان میں خیر کامل سر فہرست ہے۔

کائنات میں ایک اور اصول بھی موجود ہے یعنی مادہ، مادہ وہ سب کچھ ہے جو کہ امثال نہیں ہیں۔ مادہ خام مواد ہے جن پر امثال کی چھاپ لگی ہوئی ہے۔ اسی چھاپ سے عالم ظواہر کی اشیاء بنتی ہیں۔ مثلاً سنگ مرمر سنگ تراش کے لیے وہ خام مواد ہے جس پر اس کے مثل کی چھاپ لگتی ہے۔ اسی طرح مادے پر امثال کی چھاپ لگنے سے تکوین عالم ہوئی تھی۔ مادی عالم حقیقی نہیں ہے بلکہ مادے پر حقیقی عالم یا امثال کی چھاپ ہے۔ اس دنیا کے تمام تغيرات عالم حواس کی تمام خامیاں اور کوتاہیاں مادے کی وجہ سے ہیں نہ کہ امثال کے باعث۔

اپنے ایک مکالے طیماؤس میں افلاطون ایک معمار کا ذکر بھی کرتا ہے جس نے پہلے امثال اور مادے کو اکٹھا کیا، جیسے سنگ تراش سنگ مرمر کی سل پر اس کا مثل ثبت کرتا ہے۔ جب اس معمار نے کسی مثل کو مادے پر ثبت کیا تو متعلقہ شے عالم وجود میں آ گئی۔ ایک ہی مثل سے سینکڑوں اشیاء کی تخلیق عمل میں آئی لیکن اس تخلیق و تشکیل سے متعلقہ مثل پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ وہ بدستور کامل و اکمل اور غیر متغیر ہی رہا۔

افلاطون کو مثالیت پسند اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کے خیال میں حقیقی عالم امثال کا عالم ہے جس کا ادراک صرف عقل استدلالی ہی سے ممکن ہو سکتا ہے۔ افلاطون کے خیال میں وہ عالم جس کا ادراک ہمیں اپنے حواس سے ہوتا ہے غیر حقیقی ہے۔ مادہ ناقص ہے اور جو مثل اس پر ثبت ہوتا ہے اسے مسخ کر کے رکھ دیتا ہے۔

ایک افسانے میں افلاطون بتاتا ہے کہ کس طرح پاک اور منزہ ذہن مادے سے ملوث ہوا تھا۔ وہ کہتا ہے کہ ذہن خالص صورت میں ایک ستارے پر موجود تھا کہ اس پر عالم حواس کی تمنا نے زور کیا۔ پس اس نے جسم کی قید قبول کر لی۔ اب وہ اپنے آپ کو اس قید سے آزاد کرا کر دوبارہ اپنے ستارے کو لوٹ جانا چاہتا ہے۔ طیماؤس میں اس نے فیثا غورسیوں کے انداز میں کہا ہے کہ عالم مادی میں آنے سے پہلے ہر روح اپنے اپنے ستارے میں موجود تھی۔

نیک آدمی کی روح موت کے بعد اپنے اصل مسکن کو لوٹ جاتی ہے۔ بدی کرنے والے کو موت کے بعد دوبارہ عورت کے روپ میں پیدا کیا جائے گا۔ لا ابالی اشخاص موت کے بعد پرندے بن کر اٹھیں گے۔ اور احمق مچھلیوں کا قالب اختیار کریں گے۔ طیماؤس کہتا ہے کہ انسان میں دو روحیں ہیں؛ ایک فانی، دوسری غیر فانی۔ ایک کو خدا نے پیدا کیا ہے، دوسری دیوتاؤں کی تخلیق ہے۔ فانی روح لذات و شہوات کی طرف مائل ہوتی ہے۔ غیر فانی روح نفس کی ترغیبات کا استیصال کرتی ہے۔ غیر فانی روح کا مقام سر ہے اور فانی روح سینے میں قیام کرتی ہے۔

افلاطون کے امثال لا تعداد ہیں۔ جس طرح خیر، صداقت اور حسن کے امثال ہیں اسی طرح شر، بد صورتی اور خباثت کے بھی امثال ہیں۔ یہ سب امثال منتشر حالت میں نہیں ہیں بلکہ مرتب و مدون صورت میں موجود ہیں۔ ان کی ترتیب منطقی ہے۔ سب سے اعلیٰ اور اکمل خیر مطلق ہے جو سب کا مبداء ہے۔ افلاطون نے یہ نہیں بتایا کہ خیر مطلق سے شر کیسے متفرع ہوا تھا۔

بہرحال وہ کائنات کو اخلاقیاتی عقلیاتی کُل مانتا ہے۔ اس کے خیال میں عالم حقیقت یا وجود مطلق کا ادراک صرف عقل استدلالی ہی سے ممکن ہو سکتا ہے۔ افلاطون کے نظام فکر کو دوئی بھی کہا جاتا ہے۔ ایک طرف امثال ہیں جو عالم مادی سے علیحدہ اپنے ایک الگ حقیقی عالم میں موجود ہیں۔ دوسری طرف مادہ ہے جس پر ان کی چھاپ لگتی ہے اور اشیا کی تخلیق ہوتی ہے۔ ان دونوں میں جو خلیج حائل ہے اسے پاٹنے کی کوشش افلاطون نے نہیں کی۔ یہ کام ارسطو نے کیا تھا۔

افلاطون امثال کو مستقل بالذات جواہر سمجھتا ہے۔ وہ حقائق مطلق ہیں جو کائنات کے اصولِ اول ہیں۔ آفاقی ہیں۔ وہ اشیاء نہیں، افکار ہیں۔ موضوعی نہیں معروضی ہیں۔ زمان و مکان سے ماوراء ہیں اور عقلیاتی ہیں۔ اواخر عمر میں افلاطون نے فیثا غورسیوں سے متاثر ہو کر اپنے امثال کو اعداد کہنا شروع کر دیا تھا جیسا کہ ارسطو نے ہمیں بتایا ہے۔

افلاطون کے خیال میں صرف فلاسفہ ہی عالم امثال کا ادراک کر سکتے ہیں جو حقیقی عالم ہے۔ عوام عالم ظواہر یا عالم مادی میں الجھ کر رہ جاتے ہیں جو محض فریبِ نظر ہے۔ اس ضمن میں اس کی غار کی تمثیل مشہور و معروف ہے۔ وہ کہتا ہے کہ جو اشخاص فلسفے سے بے بہرہ ہیں وہ گویا ایسے قیدی ہیں جنہیں کسی غار میں اس طرح جکڑ کر بٹھا دیا گیا ہو کہ وہ اپنے سامنے دیکھنے پر مجبور ہوں۔ ان کے پیچھے آگ کا الاؤ روشن ہے۔ سامنے غار کی دیوار ہے۔ ان کے اور دیوار کے درمیان کی جگہ خالی ہے۔ ان کے پیچھے جو آگ جل رہی ہے اس کے باعث وہ اپنے اور اپنے پیچھے سے گزرنے والوں کے صرف سائے ہی سامنے کی دیوار پر دیکھ سکتے ہیں اور ان سایوں کو حقیقی سمجھنے لگتے ہیں۔ جن اشیاء یا اشخاص کے یہ سائے ہیں وہ ان کی حقیقت سے ہمیشہ بے خبر رہتے ہیں۔ بعد کے صوفیہ کا یہ خیال کہ عالم مادی یا عالم ظواہر غیر حقیقی ہے اس لیے قابل اعتنا نہیں ہے، اور روح جسم کی قید میں گرفتار ہے جس سے چھٹکارہ پانے کے لیے تعمق و تجرید کی ضرورت ہے، افلاطون ہی سے ماخوذ ہے۔

افلاطون کے نظریے سے مفہوم ہوتا ہے کہ انسانی تجربے کے مآخذ دو ہیں: حسی ادراک اور عقلی استدلال۔ اول الذکر کی دنیا حواس کی دنیا ہے۔ ثانی الذکر امثال کی دنیا ہے۔ امثال ازلی و ابدی ہیں۔ معقولات حقیقی ہیں۔ حقیقی مدرکات تغیر پذیر ہیں۔ محسوسات غیر حقیقی ہیں۔ اس لیے افلاطون نے ہیریقلیتس کے تغیر و تبدل کو عالم حواس میں منتقل کر دیا ہے اور امثال یا سقراط کے تجریدات فکری کو الیاطیوں کے وجود کی طرح کامل، اکمل اور غیر متبدل مانتا ہے۔ ظاہری عالم کی اشیاء حقیقی امثال کی نقلیں ہیں۔ سائے ہیں۔ یہ امثال ماورائی بھی ہیں اور سریانی بھی ہیں۔ وہ اشیائے عالم میں طاری و ساری ہونے کے باوجود ان سے ماوراء اپنا مستقل وجود بھی رکھتے ہیں۔ جس طرح عدل، خیر، حسن امثال ہیں اسی طرح درختوں، ستاروں، دریاؤں وغیرہ کے امثال بھی ہیں۔

یہ تمام امثال خود اپنے تعلق سے مستقل بالذات وجود ہیں اور دوسرے امثال کے تعلق سے، جن کے ساتھ ان کا کوئی اشتراک نہیں ہے، عدم محض ہیں۔ امثال کے تعلق باہمی کو معلوم کرنے کے علم کو افلاطون نے جدلیات کہا ہے جس کا پہلا کام یہ ہے کہ امثال کا تعین کرے، پھر ان کے باہمی اشتراک و اختلاف کا کھوج لگائے۔ ایک فلسفی جدلیات کی مدد سے حقیقی عالم امثال تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔ افلاطون کی مثالیت پسندی پر تبصرہ کرتے ہوئے برٹرینڈ رسل لکھتے ہیں؛

' افلاطون اپنے فلسفے میں فیثا غورس، پارمی نائدیس، ہیریقلیتس اور سقراط سے متاثر ہوا۔ فیثا غورس سے اُس نے باطنیت کا عنصر لیا۔ اس کے علاوه نسخ ارواح، بقائے روح، اور جو کچھ بھی غار کی تمثیل میں بیان ہوا ہے وہ فیثا غورسیوں سے ماخوذ ہے۔ اس کے ساتھ ریاضیات میں شغف اور عقل و عرفان کا امتزاج بھی اسی ماخذ سے لیا گیا ہے۔ پارمی نائدیس سے اس نے یہ نظریہ لیا کہ حقیقت ازلی ہے اور زبان سے ماوراء ہے۔ اور تغیر و تبدل منطقی لحاظ سے فریب نظر ہے۔ ہیریقلیتس سے یہ خیال لیا کہ عالم حیات ہر لمحہ تغیر پذیر ہے۔ اسے پارمی نائدیس کے نظریے میں ممزوج کر کے اس نے کہا کہ علم حواس سے حاصل نہیں ہو سکتا بلکہ عقل ہی سے حاصل ہوتا ہے۔ رفتہ رفتہ اس نظریے کا امتزاج فیثا غورسیت سے ہو گیا۔ سقراط سے اس نے اخلاقیات میں دلچسپی لینا سیکھا اور دنیا کا غائی تصور مستعار لیا۔ خير کامل اور اخلاقی قدریں ظاہراً سقراط سے ماخوذ ہیں'۔

جیسا کہ ہم تفصیل سے بیان کر چکے ہیں، افلاطون نے بے شک اپنے پیش روؤں سے استفادہ کیا تھا لیکن اس حقیقت کو فراموش نہیں کیا جا سکتا کہ اس امتزاج سے اُس نے ایک شاندار نظام فکر کی تشکیل کی اور عقل و عرفان میں مفاہمت کی کوشش کی۔ اس نے بہت سے پھول اور پودے ادھر ادھر سے لیے لیکن ان کی چمن بندی ایسے سلیقے اور فن سے کی کہ ان منتشر پھولوں اور پودوں نے ایک حسین شالیمار کی صورت اختیار کر لی جس کی تخلیق کا حق بدرجہ اولی افلاطون ہی کو پہنچتا ہے۔

افلاطون کے فلسفے کا اصل اس کا نظریہ امثال ہے جس نے اس کی سیاسیات، عمرانیات، اخلاقیات اور جمالیات پر بھی گہرے اثرات ثبت کیے ہیں۔ اس کے سیاسی اور عمرانی افکار پر سپارٹا کے معاشرے کی چھاپ دکھائی دیتی ہے۔ سپارٹا والے سونے چاندی کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ ان کے ہاں لوہے کے سکے رائج تھے۔ وہ اپنے بیٹوں کی، جنہیں پیدائش کے بعد ریاست کی تحویل میں دے دیا جاتا تھا، کڑی عسکری تربیت کرتے تھے۔ اور لڑکپن ہی میں انہیں ان تمام شدائد کا عادی بنا دیتے تھے جن کا سامنا عام طور سے دوران جنگ میں ہوتا ہے۔

لڑکوں کو اپنے ماں باپ سے ملنے کی اجازت شاذ و نادر ہی دی جاتی تھی۔ شجاعت، حماست اور جفاکشی کو اعلیٰ ترین فضائل اور محاسن میں شمار کیا جاتا تھا۔ ان کے سپاہی سرخ رنگ کی وردی پہن کر میدان جنگ کو جاتے تھے تاکہ زخم لگنے پر خون دکھائی نہ دے۔ جب ماں اپنے بیٹے کو میدان کارزار کو جاتے وقت رخصت کرتی تھی تو کہتی تھی کہ یا ڈھال کے ساتھ آنا یا ڈھال کے اوپر، مطلب یہ ہوتا کہ یا فاتح ہو کر آنا یا جان ہار دینا۔

سپارٹا والے نہایت سادہ اور پر مشقت زندگی کے عادی تھے۔ جن لوگوں کی توند بڑھ جاتی تھی انہیں کاہل اور پیٹو سمجھ کر جلا وطن کر دیا جاتا تھا۔ مجردوں کو جاڑے میں مادر زاد برہنہ کر کے ان کا جلوس نکالا جاتا تھا اور برسر عام انہیں سرزنش کی جاتی تھی۔ ایک دفعہ ان کے ایک بادشاہ نے ایک پستہ قد عورت سے نکاح کر لیا۔ بزرگوں کی مجلس میں بادشاہ پر جرمانہ کیا گیا کہ اس عورت سے ٹھنگنے بچے پیدا ہونے کا احتمال ہے۔ سپارٹا کی ایک عورت سے کسی دوسری ریاست کی ایک عورت نے طنزاً کہا، تمہارے ہاں عورت مرد پر حکومت کرتی ہے۔ اس نے جواب دیا، مرد بھی تو وہی جنتی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس معاشرے میں عورت کو احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔

ہندی آریاؤں کی طرح سپارٹا میں بھی نیوگ کا رواج تھا۔ عورتوں کو اجازت تھی کہ وہ اپنے خاوند سے زیادہ طاقت ور مردوں سے اولاد پیدا کریں۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں مادر زاد برہنہ کھیلوں اور ناچوں میں حصہ لیتے تھے۔ ہم جنسی محبت کا رواج عام تھا۔ بعد میں اسے افلاطونی محبت کا نام دیا گیا۔ نوخیز لڑکوں کی تربیت کا کام ان کے عشاق کے سپرد تھا جنہیں معلم کہا جاتا تھا۔ جب کوئی نوجوان میدان جنگ میں زخم کھا کر چلاتا تو اس کے معلم کو سرزنش کی جاتی تھی کہ اس کی تربیت میں کوتاہی کیوں کی۔

ہم جنسی محبت کی تہہ میں یہ خیال کار فرما تھا کہ جو نوجوان ایک دوسرے سے محبت کریں وہ میدان جنگ میں اپنے دوستوں کی حفاظت کے لیے جم کر لڑتے ہیں۔

افلاطون جمہوریت کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ ایتھنز والوں نے جمہوری طرز معاشرہ کے باعث سپارٹا کے ہاتھوں شکست کھائی تھی۔ اس لیے وہ سپارٹا والوں کے عسکری معاشرے کو مثالی معاشرہ سمجھنے لگا۔ اس کی مثالی ریاست میں سپارٹا کی ریاست کی جھلک صاف دکھائی دیتی ہے۔ اس مثالی ریاست میں اشتمالیت اور اباحت نسواں کے تصورات ملتے ہیں۔

افلاطون کہتا ہے کہ اس ریاست میں املاک کے ساتھ عورتوں کا اشتراک بھی ہو گا اور عورتوں اور مردوں میں کامل مساوات ہو گی۔ شادی کا انتظام مملکت کرے گی۔ کسی تہوار پر نوجوان مردوں اور کنواری لڑکیوں کو اکٹھا کر کے میاں بیوی بنا دیا جائے گا۔ مرد کی عمر 25 اور 55 کے درمیان ہوگی اور عورت کی 20 اور 40 کے درمیان۔ ان عمروں سے باہر جنسی مواصلت پر کوئی پابندی عائد نہیں کی جائے گی البتہ اسقاط حمل اور ضبط تولید جبری ہوں گے۔ کمزور اور ناقص الاعضا بچوں کو پیدا ہوتے ہی تلف کر دیا جائے گا۔ شادی سے پہلے مرد اور عورت دونوں کا طبی معائنہ کر کے اس بات کا اطمینان کر لیا جائے گا کہ وہ صحت مند اولاد پیدا کر سکیں گے۔

اس مثالی ریاست میں کسی کو اس بات کا علم نہیں ہو گا کہ کون کس کا باپ ہے۔ اس لیے اپنی عمر سے بڑے ہر شخص کو باپ سمجھ کر اس کا احترام کیا جائے گا۔ اسی طرح ہر بڑی عمر کی عورت کو ماں کہا جائے گا۔ ہم عمر ایک دوسرے کو بھائی بہن سمجھیں گے۔ جن کی عمروں میں اتنا تفاوت ہو کہ وہ باپ بیٹی ہو سکتے ہیں انہیں مواصلت کی اجازت نہیں ہو گی۔ کوئی کسی عمر رسیدہ شخص پر ہاتھ نہیں اٹھائے گا کیونکہ ممکن ہو سکتا ہے وہ اس کا باپ ہی ہو۔

اس موقع پر راقم کو دیو جانس کلبی کا ایک لطیفہ یاد آ گیا ہے۔ ایک دن یہ سر کہ جبین فلسفی ایتھنز کے ایک کوچے میں داخل ہوا تو دیکھا کہ گلی میں اور چھتوں پر لوگوں کا ہجوم ہے اور محلے والوں میں لڑائی جھگڑا ہو رہا ہے۔ دیو جانس ایک طرف کھڑے ہو کر تماشا دیکھنے لگا۔ دیکھتا کیا ہے کہ ایک کسبی کا بیٹا چھت پر کھڑا ہے۔ اُس کے ہاتھ میں ایک پتھر ہے جسے وہ نیچے گلی میں جہاں لوگوں کا جمگھٹ تھا پھینکنے کے لیے ہاتھ تول رہا ہے۔ دیو جانس نے پکار کر اسے کہا 'ہاں! ہاں! پتھر مت پھینکنا۔ باپ کو لگ جائے گا'۔

افلاطون کی اشتمالی ریاست میں کوئی شخص کسی شے کو ذاتی املاک نہیں سمجھے گا۔ تمام شہریوں کے روٹی کپڑے، رہائش، علاج معالجے کی کفالت ریاست کرے گی۔ تعلیم و تربیت کا بار بھی ریاست پر ہو گا۔ بچے گھروں کی بجائے سرکاری درس گاہوں میں رہیں گے جہاں صبح و شام انہیں کڑی ورزش کرائی جائے گی۔ اور اسلحہ کا استعمال سکھایا جائے گا۔ عمر کے 10 برس کھیل کود اور ورزش کے لیے وقف ہوں گے تاکہ لڑکا خوب توانا اور مضبوط ہو جائے۔ موسیقی کی تعلیم بھی دی جائے گی لیکن اس میں ایسے نغمات نصاب سے خارج کر دیے جائیں گے جو جذبات میں نفسانی بیجان پیدا کرتے ہیں۔ شجاعت کے جذبے کو ابھارنے والے راگ سکھائے جائیں گے۔

10 برس کے بعد امتحان لیا جائے گا اور کامیاب طلبہ کو مزید 10 برس تعلیم دی جائے گی۔ جس میں نصابی علوم کے ساتھ کڑی فوجی تربیت بھی شامل ہو گی۔ نوجوانوں کو مچھلی کھانے کی اجازت نہیں ہو گی۔ انہیں بھنا ہوا گوشت کھلایا جائے گا۔ چٹنیاں، اچار، مربے اور مٹھائیاں کھانے کی ممانعت ہو گی۔

تربیت یافتہ نوجوان طلبہ کو انتظامی شعبوں اور فوجی خدمات کے سنبھالنے کا کام سپرد کیا جائے گا۔ ممتاز اور منتخب نوجوان فلسفے اور ملک داری کی اعلیٰ تعلیم حاصل کریں گے۔ مملکت کے اعلیٰ حکام تربیت یافتہ فلاسفہ پر مشتمل ہوں گے۔ افلاطون کہتا ہے که حالت مرض میں ماہر طبیب سے رجوع لایا جاتا ہے۔ اسی طرح نظم و نسق کا کام اس شخص کو دینا چاہیے جو آئین جہانداری کی تربیت حاصل کر چکا ہو۔ اس کے خیال میں جب تک فلاسفہ حکمران نہیں ہوں گے بنی نوع انسان کے مصائب کا خاتمہ نہیں ہو گا۔

افلاطون نے جمہوریہ میں اپنا عدل کا تصور پیش کیا ہے۔ اس مکالمے کا آغاز ایک محفل سے ہوتا ہے جس میں چند امراء اور مفکرین گلاکون، تھریسی میکس، اڈمن ٹوس، سقراط، وغیرہ ایک امیر کبیر کنالوس کے یہاں جمع ہیں۔ سقراط کنالوس سے پوچھتا ہے؛ 'تمہیں دنیا میں سب سے بڑی نعمت کون سی میسر آ سکتی ہے؟' وہ جواب دیتا ہے دولت، جو میری سخاوت کا، دیانت کا، عدل کا سبب بنی۔ سقراط حسب عادت پوچھتا ہے، عدل کیا ہے؟ اس پر بحث چھڑ جاتی ہے۔ سقراط باتوں باتوں میں کنالوس کے الجھے ہوئے خیالات کا استادانہ تجزیہ کر کے اس کے دلائل و تعصبات کی دھجیاں بکھیر دیتا ہے۔ اس بحث کے دوران میں تھریسی میکس سوفسطائی کہتا ہے کہ اخلاق کمزوروں نے وضع کیے ہیں تا کہ طاقتوروں کا پنجۂ آہنی کمزور پڑ جائے۔ لمبی چوڑی بحث کے بعد سقراط کہتا ہے کہ عدل اس معاشرے میں قائم ہوتا ہے جس کے تمام افراد، عورتیں اور مرد، اپنی اپنی قدرتی صلاحیتوں کے مطابق اپنے اپنے کام سرانجام دے رہے ہوں۔

آرٹ کے متعلق افلاطون کا خیال ہے کہ ایک تمثیل نگار یا شاعر از خود رفتگی کے عالم میں تمثیل لکھتا ہے۔ یا شعر کہتا ہے۔ وجد و حال کی اس حالت میں گویا کوئی مافوق الطبع قوت اس کے سراپا پر غلبہ پا لیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عقلیت پسند افلاطون شعراء اور تمثیل نگاروں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ تخلیق میں شاعروں کے جذبات ان کی عقل و خرد پر حاوی ہو جاتے ہیں چنانچہ اس نے اپنی مثالی ریاست سے انہیں جلاوطن کر دیا ہے۔ اس کے خیال میں شاعروں اور دوسرے فن کاروں کو عالم مثال تک رسائی حاصل نہیں ہو سکتی۔ یہ مقام ارفع سوائے فلاسفہ کے کسی دوسرے کو میسر نہیں آ سکتا۔

افلاطون کہتا ہے کہ جب کوئی شاعر نظم کہتا ہے یا کوئی سنگ تراش مجسمہ تراشتا ہے تو وہ نقل کی نقل کر رہا ہوتا ہے۔ کیونکہ عالم مادی کی جتنی اشیاء ہیں وہ امثال کے عکس یا نقلیں ہیں۔ جب کوئی شخص ان کی تصویر کشی یا عکاسی کرے گا تو وہ عکس کا عکس اتار رہا ہو گا۔

بہرصورت افلاطون نے اعلیٰ پایہ کی موسیقی کی دل کھول کر تعریف کی ہے اور کہا ہے کہ اس سے انسانی ذہن و قلب میں اعتدالِ احساس پیدا ہوتا ہے اور انسان عدل کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔ اس ضمن میں اس نے یہ کہہ کر آج کل کے نفسیاتی معالجوں کی پیش قیاسی کی ہے کہ موسیقی سے بہت سے جسمانی امراض دور ہو جاتے ہیں۔

اپنے مشہور مکالمے سمپوزیم میں افلاطون نے عشق کا تصور پیش کیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ روزِ ازل سے عشق کا تعلق حسن کے ساتھ رہا ہے۔ جب کوئی شخص عالم حواس و ظواہر میں کسی حسین شے یا شخص کو دیکھتا ہے تو اس کی روح میں حسن ازل کی یاد تازہ ہو جاتی ہے جس کی وہ شے نقل یا عکس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حسن و جمال کے مشاہدے سے ہم پر وجد و حال کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ افلاطون نے ایک جگہ لکھا ہے؛ 'جسے عشق چھو جائے وہ تاریکی سے نہیں گھبراتا'۔ افلاطون کے خیال میں روح انسانی کے دو حصے ہیں۔ ارفع حصہ عقل استدلالی ہے جو امثال کا ادراک کرتی ہے اور ناقابل تحلیل و غیر متغیر ہے اور غیر فانی ہے۔ روح کا غیر عقلیاتی حصہ فانی ہے اور دو حصوں میں منقسم ہے: اعلیٰ اور اسفل۔ اعلیٰ حصے میں شجاعت، جود و سخا اور دوسرے محاسن اخلاق ہیں۔ اسفل حصہ شہوات کا مرکز ہے۔ انسان کو حیوان سے نفس ناطقہ یا عقل استدلالی ہی ممتاز کرتی ہے۔

افلاطون کی مثالیت کے اہم پہلو درج ذیل ہیں:

1۔ عالم دو ہیں؛ ظاہری عالم اور حقیقی عالم۔ عالم مثال حقیقی ہے اور اس تک صرف نفس ناطقہ یا عقل استدلالی کی رسائی ہو سکتی ہے۔ عالم ظواہر یا عالم حواس غیر حقیقی ہے۔ جن اشیاء کا ادراک ہمارے حواس کرتے ہیں وہ حقیقی امثال کے محض سائے ہیں۔ معقولات اصل ہیں، محسوسات ان کے عکس ہیں۔

2۔ امثال ازلی و ابدی، قائم و ثابت ہیں۔ عالم مثال سکونی ہے۔ تغیر و حرکت صرف ظاہری عالم میں ہے۔

3۔ عالم مثال کے ساتھ ساتھ مادہ بھی موجود ہے جس پر امثال کی چھاپ لگتی رہتی ہے اور ظاہری عالم کی اشیاء وجود میں آتی رہتی ہیں۔

4۔ عالم مثال ازل سے مرتب و مدون حالت میں ہے ۔ سب سے کامل و اکمل مثل خير مطلق ہے جس سے دوسرے امثال متفرع ہوئے ہیں۔

5۔ ظاہری عالم یا عالم حواس میں ہر کہیں تغیر و تبدل، فساد و انتشار کی کار فرمائی ہے۔

6۔ زمان غیر حقیقی ہے۔ یعنی وقت کا نہ کوئی آغاز تھا نہ انجام ہو گا۔ کائنات ازل سے ہے اور ابد تک اسی طرح رہے گی۔ وقت کی حرکت مستقیم نہیں ہے، دولابی ہے۔

7۔ کائنات بامعنی ہے یعنی اس میں ایک واضح مقصد ہے۔ غایت ہے۔

8۔ خدا یا خیر مطلق کا مثل فکر محض ہے۔ دوسرے یونانی فلاسفہ کی طرح افلاطون بھی شخصی خدا کا قائل نہیں ہے۔

9۔ موت کے بعد روح انسانی باقی رہتی ہے اور اسے اپنے اعمال کے مطابق جزا سزا ملتی ہے۔

10۔ ارواح اعمال کے لحاظ سے قالب بدلتی رہتی ہیں۔ انسانوں کی روحیں پرندوں اور جانوروں کے قالب میں چلی جاتی ہیں۔ روح کا تعلق جسم سے عضویاتی نہیں ہے۔ اسے حسب منشا جسم میں داخل بھی کیا جا سکتا ہے اور نکالا بھی جا سکتا ہے۔

11۔ انسانی روح مادے کی گرفت میں آ کر قید ہو گئی ہے اور اپنے اصل ماخذ کی طرف لوٹ جانے کے لیے بے قرار رہتی ہے۔ یہ رہائی صرف تفکر و تعمق ہی سے میسر آ سکتی ہے۔ حسن ازل کی کشش ارواح کو ان کے مبدائے حقیقی کی یاد دلاتی رہتی ہے۔

12۔ کائنات ایک عقلیاتی کُل ہے جس کی حقیقت کا ادراک صرف عقل استدلالی ہی کر سکتی ہے۔ افلاطون کا قول ہے؛ 'کسی انسان پر اس سے بڑی مصیبت نازل نہیں ہو سکتی کہ وہ عقل و خرد کا دشمن بن جائے'۔

منبع:

سید علی عباس جلالپوری، 'روایاتِ فلسفہ'، باب: مثالیت پسندی، خرد افروز، جہلم۔

سید علی عباس جلالپوری گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفے کے استاد تھے۔ انہوں نے فلسفہ، مذہب اور تاریخ سے متعلق 14 کتب تحریر کی ہیں جنہیں علمی حلقے فلسفے میں سنجیدہ کام قرار دیتے ہیں۔ علی عباس جلالپوری کو پاکستان کا ول ڈیورانٹ بھی کہا جاتا ہے۔