افلاطون کا استاد سقراط 469 قبل مسیح میں ایتھنز میں پیدا ہوا۔ اس کا بدن گٹھا ہوا لیکن بے ڈول تھا۔ چہرے کے نقوش ناتراشیدہ بھدے تھے۔ ناک پچکی ہوئی، گردن کندھوں میں ٹھسی ہوئی، ننگے پاؤں موٹا جھوٹا پہنے ایتھنز کے کوچہ و بازار کے چکر لگایا کرتا تھا۔ اس کا پیشہ سنگ تراشی تھا لیکن اس نے کبھی کچھ کر کے نہیں دیا۔ فکر معاش سے آزاد قلندر منش آدمی تھا۔ بچوں کی پرورش اور کفالت میں کوتاہی کے باعث اس کی بیوی ہر وقت اسے جلی کٹی سنایا کرتی۔ ایک روایت یہ ہے کہ اس نے شہر بھر کی سب سے تُند خو اور زبان دراز عورت تلاش کر کے اس سے نکاح کیا تھا جس سے اس کا مقصد یہ تھا کہ اُس کے طعنے مہنے سن سن کر اپنے صبر و حوصلہ کو تقویت دیتا رہے۔
آغاز شباب میں ورزش کا شوقین تھا۔ وہ غیر معمولی جسمانی قوت کا مالک تھا اور آہنی اعصاب رکھتا تھا۔ اس کی شجاعت مسلم تھی۔ ایک دفعہ میدان جنگ میں اس نے نہایت پامردی اور جفاکشی کا ثبوت دیا تھا اور اپنی جان جوکھم میں ڈال کر اپنے دوست القی بائدیس کی جان بچائی تھی۔ وہ شراب خوری کا عادی نہیں تھا۔ لیکن جب احباب کی مجالس میں پیالہ تھام لیتا تو بڑے بڑے پینے والے اس کی بلا نوشی کے قائل ہو جاتے تھے۔ اس کے باوجود کبھی کسی شخص نے اسے بہکتے ہوئے نہیں دیکھا، اپنے آپ پر اسے پورا قابو تھا۔
وہ ہر وقت غور و فکر میں کھویا رہتا اور سوچتا رہتا کہ صداقت کیا ہے؟ خیر کیا ہے؟ عدل کسے کہتے ہیں؟ وہ صبح سویرے ایتھنز کے معبد کی دیوار کے سائے میں یا منڈی کے کسی کونے میں کھڑا کسی نہ کسی سے باتیں کرتا ہوا دکھائی دیتا تھا۔ جب کبھی کوئی شخص اس سے کوئی سوال پوچھ بیٹھتا تو سقراط بحث کا عنوان پیدا کر لیتا اور پھر تابڑ توڑ سوالوں سے مخاطب کے فکری مغالطوں اور الجھنوں کا پردہ چاک کر دیتا تھا۔ وہ اسے یہ احساس دلانے کی کوشش کرتا کہ اس کے خیالات میں ژولیدگی پائی جاتی ہے۔
اواخر عمر میں اس نے ایتھنز کے نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کا کام اپنے ذمے لے لیا تھا مگر اس نے باقاعدگی سے کبھی درس نہیں دیا۔ وہ باتوں باتوں میں انہیں اہم سیاسی، عمرانی یا اخلاقی مسائل کی طرف توجہ دلاتا رہتا تھا۔ اسے یہ معلوم کر کے سخت حیرت ہوتی تھی کہ بہت ہی کم اشخاص اپنی زندگی کے مقصد، معاشرے کے عقدوں یا اخلاقی قدروں سے متعلق سوچ بچار کرتے ہیں۔ وہ نہایت منکسر المزاج تھا اور اکثر کہا کرتا تھا، مجھے تو صرف اتنا معلوم ہے کہ مجھے کچھ بھی معلوم نہیں ہے۔ وہ احتساب نفس اور شعور ذات کو ضروری سمجھتا تھا۔ اس کا قول ہے:
'جو شخص اپنی زندگی کا جائزہ نہیں لیتا اور اپنے نفس کا احتساب نہیں کرتا وہ زندہ رہنے کے لائق نہیں ہے'۔
ایتھنز کے نوجوان سقراط کے شیدائی تھے اور اس سے کسب فیض کے لیے اُس کے ساتھ ساتھ رہتے تھے۔ ان میں امراء اور روساء کے بیٹے بھی شامل تھے جن میں افلاطون، القی بائدیس اور ارستائی پس نامور ہوئے۔
یونان قدیم میں امرد پرستی نے باقاعدہ ایک معاشرتی ادارے کی صورت اختیار کر لی تھی اور لوگ کھلم کھلا نوخیزوں سے اظہار عشق کرتے تھے۔ مکالمات افلاطون سے اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ سقراط بھی بعض نوجوانوں کی محبت کا دم بھرتا تھا اور وہ اس پر جان چھڑکتے تھے۔ ایک مکالمے غور جیاس میں سقراط کہتا ہے:
'اگاتون! مجھے القی بائدیس سے بچانا۔ میری محبت نے اسے دیوانہ کر دیا ہے۔ جب سے میں نے اسے دل دیا ہے، مجھے کسی دوسرے حسین سے بات کرنے کا حق نہیں رہا۔ حتی کہ میں کسی کی طرف ایک نگاہ دیکھوں تو بھی وہ حسد سے جل بھن کر کباب ہو جاتا ہے۔ اور ناصرف زبان سے برا بھلا کہتا ہے بلکہ مجھ پر ہاتھ چلانے سے بھی باز نہیں آتا۔ اس وقت مجھے اندیشہ ہے کہ وہ مجھے ایذا پہنچائے گا۔ اگر مجھے مارنے کی کوشش کرے تو مجھے اس کے ہاتھ سے چھڑا لینا۔ میں اس کے جوش جنوں سے سخت خائف ہوں'۔
القی بائدیس نے کہا:
'تمہارے اور میرے درمیان کبھی صلح نہیں ہو گی لیکن اس وقت میں تمہیں سزا نہیں دوں گا۔۔۔ سقراط نے میرے ساتھ ہی نہیں، گلانکون کے بیٹے شارمدیس، داکلیز کے بیٹے بوتھی ریمس اور کئی دوسروں کے ساتھ بدسلوکی کی ہے۔ شروع شروع میں یہ شخص محبت کا دم بھرتا ہے، بعد میں خود محبوب بن بیٹھتا ہے'۔
افلاطون اور زینوفون دونوں کی روایات سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ سقراط کے اس نوع کے معاشقے ہوا و ہوس سے پاک تھے۔ ایتھنز کے ارباب اختیار کو سقراط کا نوجوانوں سے ربط ضبط ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا اور عام طور سے اس پر یہ الزام لگایا جاتا تھا کہ وہ نوجوانوں کے اخلاق خراب کر رہا ہے۔
مزید براں سقراط بت پرستی کا مخالف تھا اور روایتی رسوم عبادت ادا کرنے سے گریز کرتا تھا۔ وہ ایک خدا کو مانتا تھا۔ اس بنا پر لوگ اسے نفرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ سقراط کا دعویٰ یہ تھا کہ ایک خفیہ باطنی آواز اسے برے کاموں سے منع کرتی ہے اور ہدایت دیتی ہے۔
یاد رہے کہ اس دور کے حکام، امراء اور رؤسا اس کو ناپسند کرتے تھے۔ سقراط کی صحبت میں امراء کے بیٹے بیٹھتے تھے جس سے حکام وقت کو خدشہ لاحق رہتا تھا کہ یہ لوگ مل بیٹھ کر عوامی حکومت کے خلاف سازشیں کیا کرتے ہیں۔ انہی وجوہ کی بنا پر سقراط پر مقدمہ قائم کیا گیا۔ مقدمے کے دوران سقراط نے تمام الزامات کی مدلل اور پر زور تردید کی لیکن منصف صاحبان اسے اپنے راستے سے ہٹانے کا تہیہ کر چکے تھے۔ جب سقراط کو اس بات کا یقین ہو گیا کہ اسے موت کی سزا دی جائے گی تو اس نے انہیں مخاطب کر کے کہا:
'میں تمہیں صاف صاف بتا دوں کہ اگر تم میرے جیسے شخص کو جان سے مار دو گے تو تم مجھے اتنا ضرر نہیں پہنچا سکو گے جتنا کہ اپنے آپ کو پہنچاؤ گے'۔
سقراط اپنے آپ کو بھڑ مکھی کہا کرتا تھا۔ وہ کہتا تھا کہ ہر معاشرے میں ایک بھڑ مکھی کا ہونا ضروری ہے جو لوگوں کو کاٹ کاٹ کر انہیں غور و فکر پر مجبور کرتی رہے اور انہیں اپنی خامیوں اور کوتاہیوں کا احساس دلاتی رہے۔ اس نے اپنے دشمنوں سے کہا کہ کسی شخص کو اختلاف رائے یا تنقید کرنے کے جرم میں قتل کر دینے سے کوئی سیاسی یا معاشرتی عقدہ حل نہیں کیا جا سکتا۔ ان عقدوں کے سلجھانے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ ہے کہ حکام وقت خود اپنی اصلاح کریں۔ اس کے الفاظ ہیں:
'اگر تم سمجھتے ہو کہ دوسروں کو قتل کر کے تم انہیں اس بات سے باز رکھ سکو گے کہ وہ تمہیں تمہاری برائی پر ملامت کریں تو یہ تمہاری بھول ہے۔ فرار کا یہ راستہ عزت کا راستہ نہیں ہے، نہ ایسا کرنا ممکن ہے۔ سب سے آسان اور سہل طریقہ یہ ہے کہ دوسروں پر جبر و تشدد کرنے کی بجائے تم لوگ خود اپنے آپ کی اصلاح کرو'۔
لیکن منصف صاحبان تو اسے خار راہ سمجھتے تھے، چنانچہ اسے موت کی سزا سنائی گئی۔ اس زمانے میں ایتھنز میں یہ دستور تھا کہ مجرم کے عزیز داروغہ زنداں کو کچھ دے دلا کر مجرم کو ملک سے باہر بھگا لے جاتے تھے۔ سقراط کے شاگردوں نے بھی اس کی کوشش کی لیکن سقراط نے بھاگ جانے سے صاف انکار کر دیا اور کہا؛ میں 70 برس کا بڈھا ہوں، موت مجھے خوف زدہ نہیں کر سکتی اور موت کوئی ایسی شے بھی نہیں کہ اس سے دور بھاگنے کی کوشش کی جائے۔ سقراط حیات بعد موت کا قائل تھا۔ اسے اس بات کا یقین تھا کہ مرنے کے بعد اس کی روح ایسے عالم میں جائے گی جہاں اس کے لیے ازلی مسرت کا سامان موجود ہے۔
موت کا دن آیا تو سب سے پہلے سقراط نے بیوی بچوں کو رخصت کیا کہ ان کی گریہ زاری اس کے آخری لمحات کو تلخ نہ کر دے۔ پھر داروغہ سے زہر کا پیالہ لانے کو کہا۔ سقراط کے شاگرد غم و الم سے نڈھال اُس کے گرد سرنگوں بیٹھے تھے۔ سقراط نے داروغہ سے پوچھا، موت کو سہل کیسے بنایا جا سکتا ہے؟ اس نے جواب دیا، آپ زہر پی کر ٹہلنا شروع کر دیں۔ جب ٹانگیں شل ہو جائیں تو لیٹ جائیے۔ زہر کا اثر ٹانگوں سے دل و جگر میں اتر جائے گا اور موت واقع ہو جائے گی۔
چنانچہ سقراط نے نہایت اطمینان سے زہر کا پیالہ ہونٹوں سے لگایا اور غٹاغٹ پی گیا۔ اس پر اس کے شاگرد بے اختیار رونے لگے۔ چاروں طرف سے گھٹی گھٹی سسکیوں کی آوازیں آنے لگیں۔ سقراط نے ادھر ادھر ٹہلنا شروع کر دیا۔ جب ٹانگیں بے کار ہو گئیں تو وہ لیٹ گیا اور کہا، تم لوگ ضبط اور حوصلے سے کام لو، میں نے عورتوں اور بچوں کو اس لیے ہٹا دیا تھا کہ وہ رونا پیٹنا شروع کر دیں گے۔
آخر اس نے محسوس کیا کہ زہر رگ و پے میں اتر گیا ہے۔ اس نے نہایت سکون سے کریٹو سے کہا، اسکالپیس سے میں نے ایک مرغا ادھار لیا تھا، یہ قرض چکا دینا اور دیکھو بھولنا مت۔ یہ اس کے آخری الفاظ تھے۔ اس کے ساتھ ہی موت راحت کی نیند بن کر اس کی پلکوں پر اتر آئی۔
سقراط کا انداز نظر عملی و افادی ہے۔ اس نے کوئی مستقل نظام فلسفہ پیش نہیں کیا بلکہ لوگوں کو نیکی اور صداقت کی تلقین کی۔ انہیں صحیح فکر کی دعوت دی تا کہ وہ صحیح عمل کر سکیں۔ وہ مابعد الطبیعاتی خیال آرائیوں کو بے مصرف سمجھتا تھا۔ اس نے کائنات کی کنہ پر بحث کرنے کی بجائے انسان کو عقل و خرد کی رہنمائی میں صحیح طریقے سے زندگی گزارنے کی ترغیب دی۔
سقراط کا فلسفہ تنقیدی ہے کہ اس میں اصول علم کی تحقیق کی گئی ہے۔ عقلیاتی ہے کہ اس میں جستجوئے حق کے لیے عقلی استدلال سے کام لیا گیا ہے۔ مثالیاتی ہے کہ حقیقت کی توضیح میں ذہن انسانی کو سب سے بڑا عامل مانا ہے۔ ثنوی ہے کہ اس میں عقل کے مقابلے میں مادے کو فروتر مقام دیا گیا ہے۔
تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
سقراط کی ذات سے فلسفے کی تین تحریکیں شروع ہوئیں جو بعض مسائل میں ایک دوسری کی متضاد ہیں۔ کلبیت، لذتیت اور مثالیت۔ اس کا ایک شاگرد انطی تھینس کلبیت کا بانی ہے۔ وہ سقراط کی قلندر مشربی سے متاثر ہوا۔ کلبی استغنا کو دانش و خرد کی علامت سمجھتے تھے اور دنیوی مال و متاع کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ انطی تھینس کا شاگرد دیو جانس کلبی اپنے پاس سوائے پانی پینے کے پیالے کے کچھ نہیں رکھتا تھا۔ ایک دن اس نے ایک دیہاتی لڑکے کو اوک سے پانی پیتے دیکھا تو اپنا پیالہ بھی پھینک دیا۔
انطی تھینس کا قول ہے، میں املاک کو اس لیے ناپسند کرتا ہوں کہ ان کا مملوک نہ بن جاؤں۔ وہ ہمیشہ پھٹے پرانے کپڑے پہنتا تھا۔ ایک دن اسی ہئیت کذائی میں سقراط کے پاس گیا۔ سقراط نے مسکرا کر کہا، تمہارے لباس کی دھجیوں میں سے مجھے صاف طور پر تمہاری خود نمائی کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ رواقئین انہی کلبیوں کے جانشین تھے۔
سقراط کے ایک شاگرد ارسطائی پس نے لذتیت کے مکتب فکر کی بنیاد رکھی جسے بعد میں اپیکورس نے اپنا لیا۔ وہ ان لوگوں سے نفرت کرتا تھا جو حصول زر و مال کو زندگی کا مقصد واحد قرار دیتے ہیں۔ ایک دن ایک امیر سمیس نے اسے اپنا محل دکھانے کے لیے مدعو کیا۔ سنگ مرمر کے محل میں پھرتے پھراتے معاً ارسطائی پس نے سمیس کے منہ پر تھوک دیا۔ سمیس نے شکایت کی تو کہا، سنگ مرمر کے محل میں تمہارے چہرے سے زیادہ اور کوئی موزوں جگہ دکھائی نہیں دی جہاں میں تھوک سکتا۔
ایک دن ایک دوست نے ارسطائی پس کو ملامت کرتے ہوئے کہا، تم نے اپنے گھر میں کسبی کیوں ڈال رکھی ہے۔ ارسطائی بس نے جواب دیا، 'مجھے ایسے مکان میں رہائش رکھنے یا ایسے جہاز میں سفر کرنے میں کیا ننگ و عار محسوس ہو سکتا ہے جس میں اور لوگ بھی رہ چکے ہیں یا سفر کر چکے ہیں'۔ ایک دن وہی کسبی ارسطائی پس سے کہنے لگی، میں تمہارے بچے کی ماں بننے والی ہوں۔ جواب دیا، 'یہ بتا سکنا کہ تو میرے ہی بچے کی ماں بننے والی ہے اتنا ہی مشکل ہے جتنا کہ کسی خاردار جھاڑی میں گر پڑنے کے بعد یہ بتا سکنا کہ کس کانٹے سے بدن پر خراش آئی ہے'۔
اہل نظر کا اس بارے میں اختلاف رہا ہے کہ مثالیت پسندی کا بانی سقراط کو سمجھا جائے یا افلاطون کو؟ سقراط نے اپنی کوئی تصنیف نہیں چھوڑی۔ اس کے منتشر خیالات افلاطون یا زینوفون کے یہاں ملتے ہیں۔ بعض اہل رائے کہتے ہیں کہ افلاطون نے اپنے استاد کے خیالات کو اپنے مکالموں میں جوں کا توں قلم بند کیا ہے۔ دوسروں کا خیال ہے کہ افلاطون خود جودت فکر کی دولت سے مالا مال تھا۔ اس نے سقراط سے بے شک استفادہ کیا لیکن اس کا نظام فلسفہ خود اس کا اپنا مرتب کیا ہوا ہے۔
بہرحال مکالمات میں سقراط کے جو نظریات دکھائی دیتے ہیں وہ بذات خود بڑے اہم ہیں۔ جس زمانے میں سقراط نے ہوش سنبھالا ایتھنز میں سوفسطائیوں (الغوی معنی عاقل و دانا) کے نظریات کی اشاعت ہو رہی تھی۔
یاد رہے کہ اس دور سے پہلے کے یونانی فلاسفہ کا نقطہ نظر عالمی و آفاقی تھا۔ تالیس، ہیریقلیتس، دیما قریطس، پارمی نائدیس، اناکساغورس وغیره نے کائنات کی کُنہ کو سمجھنے کی کوشش کی تھی۔ ہم مادیت پسندی کے ضمن میں دیکھ چکے ہیں کہ فلسفہ یونان جوہر کائنات کے تجسس سے شروع ہوا تھا۔ ابتدا میں سب سے اہم یہ سوال درپیش تھا کہ نیچر کیا ہے؟ اور اس کے ساتھ ضمنی سوال یہ تھا کہ انسان کیا ہے؟
سوفسطائیوں نے کہا کہ کائنات کو سمجھنے کی انسانی کوشش بے کار اور مضحکہ خیز ہے۔ فلسفے کا اصل منصب یہ ہے کہ انسان کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ چنانچہ انہوں نے اس سوال کو اہمیت دی کہ انسان کیا ہے؟ اور یہ سوال ضمنی اور ثانوی حیثیت اختیار کر گیا کہ نیچر کیا ہے؟ ان کا خیال یہ تھا کہ انسان کو نیچر کے حوالے سے سمجھنے کی بجائے نیچر کو انسان کے حوالے سے سمجھا جائے۔
چنانچہ جب سوفسطائیوں نے انسان کو فلسفیانہ تفکر و تجسس کا مرکز و محور بنایا تو کائنات کی بجائے ذہن انسانی اور عمل انسانی اہل فکر کا اصل موضوع قرار پایا اور ایسے علوم کی ترتیب و تدوین عمل میں آئی جن کا تعلق خالصتاً انسان سے تھا۔ سوفسطائیوں نے کونیات اور الٰہیات کی بجائے منطق، سیاسیات، بلاغت، خطابت، طبیعیات، لغات اور شاعری کی تدریس شروع کی۔ اس طرح نئے نقطہ نظر کے مطابق معروض کے بجائے موضوع کو زیادہ اہمیت حاصل ہو گئی۔ پروتا غورس سوفسطائی کا قول ہے؛ 'انسان ہی ہر شے کا پیمانہ ہے'۔
یعنی جو میرے نزدیک صداقت ہے وہی اصل صداقت ہے۔ جسے میں نیکی سمجھتا ہوں وہی اصل نیکی ہے۔ اسی مرحلے پر دنیائے فلسفہ میں موضوعیت اور فردیت نے بار پایا۔ غور جیاس سوفسطائی کہتا تھا کہ معروضی علم کا کوئی وجود نہیں ہے، نہ اخلاق میں کوئی معروضی یا قطعی معیار ہو سکتا ہے۔ تھریسی میکس سوفسطائی نے کہا؛ 'عدل و انصاف نام ہے حکمران طبقے کے مفاد کی نگہداشت کا'۔
وہ کہتا تھا کہ چند طاقتور لوگوں نے کمزوروں اور غریبوں کو دبانے کے لیے قوانین بنا رکھے ہیں اور مکار سیاست دان عوام کو مذہب کے نام پر دھوکا دے کر انہیں اپنا مطیع رکھنا چاہتے ہیں۔ پروتاغورس نے علم کے ماخذ پر بحث کرتے ہوئے لاک کی پیش قیاسی کی اور کہا کہ حسیات ہی حصول علم کا واحد وسیلہ ہیں اور کسی ماورائی حقیقت کا کوئی وجود نہیں ہے۔ اس طرح علم کے ہر شعبے میں تشکک کا دور دورہ ہو گیا اور صداقت، خیر اور حسن کو محض اضافی قرار دے دیا گیا۔
سقراط کا نقطہ نظر اور طرز استدلال سوفسطائیوں ہی سے ماخوذ تھا کیونکہ اس نے بھی انہی کی طرح انسان ہی کو موضوع فکر بنایا تھا۔ دیو جانس کے بقول اس دلیل کا بانی جسے 'سقراطی' کہا جاتا ہے، فی الاصل پروتاغورس سوفسطائی تھا جس نے قواعد اور لسانیات کی بنیاد رکھی۔
بہرصورت سقراط سوفسطائیوں کی موضوعیت اور علم و اخلاق میں ان کے تشکک کا مخالف تھا۔ اس نے عقلی استدلال اور اخلاقی قدروں کے مقام کو بحال کرنے کا کام شروع کیا جو بعد میں افلاطون اور ارسطو نے پایہ تکمیل تک پہنچا دیا۔
سب سے پہلے سقراط نے یہ دعویٰ کیا کہ کسی شے کی کُنہ کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی ایسی خصوصیات کو پیش نظر رکھا جائے جن کے ذکر سے وہ شے صاف صاف سامنے آ جائے۔ دوسرے الفاظ میں اس کی صحیح تعریف کی جا سکے۔ سقراط کے خیال میں یہ کام صرف عقل ہی کر سکتی ہے۔ اس تعریف کو اس نے Concept کا نام دیا۔
یہ نظریہ بڑا انقلاب پرور ثابت ہوا۔ افلاطون نے اسی پر اپنے نظام فلسفہ کی بنیاد رکھی تھی۔ بعد میں یہ تمام مثالیت پسندی کا اصل اصول بن گیا۔ اس نظریے سے سوفسطائیوں کے اس ادعا کی تردید مقصود تھی کہ علم محض حسی ادراک کا دوسرا نام ہے۔ اس طرح سقراط نے اپنے خیال کے مطابق سوفسطائیوں کی موضوعیت کا سدِ باب کر کے عقلی استدلال پر انسان کا عقیدہ دوبارہ بحال کر دیا۔
اخلاقیات میں سقراط نے صداقت، خیر اور حُسن کی ازلی و ابدی قدروں کا ذکر کیا اور کہا کہ یہ قدریں انسانی ذہن یا موضوع سے علیحدہ مستقل بالذات حیثیت میں موجود ہیں۔ اس نے خیر محض کی جستجو میں اخلاقیات کو فلسفے کی باقاعدہ ایک صنف بنا دیا۔ سقراط نے علم اور خیر کو لازم و ملزوم قرار دیتے ہوئے کہا کہ جو شخص علم رکھتا ہے وہ شر کا ارتکاب کر ہی نہیں سکتا۔ اس پر بعد میں ارسطو نے یہ کہہ کر تنقید کی تھی کہ سقراط نے فطرت انسانی کے جذبات و ہیجانات کو نظرانداز کر دیا ہے جن سے انسانی اعمال اثر پذیر ہوتے ہیں۔ مزید براں سقراط نے کہا کہ کائنات بے مقصد نہیں ہے جیسا کہ مادیت پسند کہتے ہیں۔ کائنات میں مقصد و غایت ہے اور اس میں دوامی اخلاقی قدریں موجود ہیں جن کے طفیل انسان خیر اور حسن کی کشش محسوس کرتا ہے۔ افلاطون نے کائنات کے بامقصد ہونے کے اس تصور کو بعد میں بڑی شرح و بسط سے پیش کیا۔
سیاسیات میں سقراط نے کہا کہ مملکت کی باگ ڈور نیک، قابل اور انصاف پسند دانشوروں کے ہاتھوں میں ہونی چاہیے جنہیں حکمرانی کی باقاعدہ تربیت دی گئی ہو۔ سوفسطائی کہتے تھے کہ عدل نام ہے طاقتوروں کے مفاد خصوصی کے تحفظ کا۔ سقراط نے کہا عدل کسی خاص طبقے تک محدود نہیں ہے بلکہ اس میں تمام طبقاتِ معاشرہ برابر کے شریک ہیں۔ اس نے ایک قسم کے اشتمالی معاشرے کا تصور پیش کیا جس میں ہر فرد اپنی قدرتی صلاحیتوں کی نشوونما اور تکمیل کے لیے زندگی گزارتا ہے۔ اس کا قول ہے؛
'انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ جماعت میں رہ کر زندگی گزارے اور ذاتی مفاد پر جماعت کے مفاد کو مقدم رکھے'۔
سقراط اپنے زمانے کے دانش فروش خطیبوں کا ذکر حقارت سے کرتا تھا:
'یہ لوگ پیتل کے برتنوں کی طرح ہیں جنہیں ایک دفعہ ٹہوکا دے دیا جائے تو دیر تک بجتے رہتے ہیں'۔
جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے، سقراط حیات بعد ممات کا بھی قائل تھا اور کہا کرتا تھا کہ موت کے بعد دانشوروں کو ایک ایسے مثالی عالم میں جگہ ملے گی جہاں وہ تعمق و تفکر کی زندگی گزاریں گے۔ عظیم شعرا کے متعلق وہ کہتا تھا کہ وہ ہنر وری سے نظم نہیں لکھتے بلکہ اس وقت لکھتے ہیں جب ان پر از خود رفتگی کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔
*
منبع:
سید علی عباس جلالپوری، 'روایاتِ فلسفہ'، باب: مثالیت پسندی، خرد افروز، جہلم۔