کوئی بہت پیارا جب مرتا ہے تو تدفین کے بعد قبر دل میں بس جاتی ہے اور ساغر صدیقی کے اس شعر کی صورت اختیار کر جاتی ہے؛
یاد رکھنا ہماری تربت کو
قرض ہے تم پہ چار پھولوں کا
بہت پیارا ثقلین شوکت بھی گھاؤ دے کر چلا گیا۔ دل میں ایک اور قبر بن گئی۔ ابھی جواد سردار کا گھاؤ نہیں بھرا تھا اور ایک اور دوست دغا دے گیا۔ ثقلین شوکت بہت منفرد تھا، یاران میکدہ کا مدارالحام تھا۔ دیگر دوستوں کے ساتھ جانے سینکڑوں محفلیں ہوں گی جو اس کے گھر پر برپا ہوئیں۔ میکدے کا ساقی بھی تھا اور رند بھی تھا۔ ہم سب ہی اہل قلم تھے۔ مجھے صحافت کے ساتھ ساتھ فکشن کا زعم بھی تھا تو قبلہ شفیق معلم تھے، مترجم تھے، ظفر اللہ بھی مترجم اور انگریزی ادب کے استاد تھے۔ ثقلین شوکت ہر فن مولا تھا، مترجم بھی، سیاست کار بھی، کچھ عرصہ صحافت بھی کی مگر پروفیشنل نہیں بنا۔ ترجمے کرتا رہا اور اشاعتی گھر بھی چلاتا رہا۔ یاران میکدہ کی محفلیں جو اس کے گھر برپا ہوتی تھیں، مدت ہوئی بیت چکیں مگر دلوں میں اب بھی برپا ہیں۔
اب بھی ایسے لگتا ہے کہ مدارالحام ثقلین کی کال آئے گی، قبلہ شفیق اور جناب ظفر اللہ بھی آ دھمکیں گے اور ادب، ثقافت سے ہوتے ہوتے جب بات سیاست پر پہنچے گے تو گھمسان کا رن مچ جائے گا۔ آوازیں اس قدر بلند ہو جائیں گی کہ مہ کدے کے دروازے پر دستکیں شروع ہو جائیں گی۔ کبھی ثقلین کی اماں جی، کبھی بھائی صاحب، کیا ہوا جھگڑا تو نہیں ہو گیا؟ یوں ہم سب قہقہے لگاتے ہوئے پھر سے مہ نوش ہو جائیں گے اور سگریٹوں کے دھویں میں پھر مباحثہ شروع ہو جائے گا۔
تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
آج بھی یاد آتا ہے میرا اور اس کا دور پیغمبری چل رہا تھا، دونوں دانشور روز ملتے تھے شاید ہفتے میں چھ دن۔ ایک اکیڈمی بنا لی ثقلین نے، معلم بننے کی ٹھانی۔ کچھ عرصہ چلی، پھر بند ہو گئی۔ تب اس نے ایک جریدہ بھی نکالا۔ اکیڈمی کی طرف سے ہر فن مولا تھا۔ ایک دن بولا، کسی میگزین میں نوکری کرنی ہے۔ میں امربیل ڈائجسٹ کے دفتر لے گیا۔ وہاں کچھ عرصہ نوکری کی، پھر وہ مترجم بننے کی ٹھان چکا تھا۔ میں نے فرخ سہیل گوئندی صاحب سے ملوایا۔ وہاں اس نے اپنی پہلی کتاب کا ترجمہ کیا، پٹر ماس کی خونی ہمسایے۔ یوں بطور مترجم وہ منظر عام پر آ گیا۔
پھر ایک دن اس نے نوید سنائی کہ وہ اپنا ذاتی اشاعتی گھر بنا رہا ہے یکتا کتابیں کے نام سے اور بنایا بھی۔ یہ ثقلین شوکت ہی تھا جس کے گھر سے میں نے قرۃ العین حیدر، عبداللہ حسین کے سارے ناول پڑھے جو اس کی ذاتی لائبریری میں موجود تھے۔ مجھے یاد ہے میرے افسانوں کی پہلی کتاب 'کون لوگ' شائع ہوئی تو ناصر باغ چوپال میں اس کی تقریب رونمائی تھی، وہاں اس نے کتاب پر مضمون پڑھا۔ اگلے روز ہم احمد ندیم قاسمی صاحب کے دفتر مجلس ترقی ادب گئے، میں نے ان کو کتاب پیش کی۔ قاسمی صاحب نے شفقت فرمائی، کہنے لگے، منصورہ نوجوان کی حوصلہ افزائی لے لے، فنون میں اس پر تبصرہ لگا دو۔ منصورہ صاحبہ نے پوچھا، کیا کسی نے کوئی تبصرہ لکھا ہے؟ اس پر ثقلین شوکت نے فوراً اپنے بیگ سے اپنا مضمون نکال کر دے دیا۔ اس پر قاسمی صاحب مسکراہٹ کے ساتھ بولے، آپ تو اپنا تبصرہ نگار ساتھ لے کر پھیر رہے ہیں۔ پھر وعدے کے مطابق فنون میں تبصرہ شائع ہوا۔
ایک روز اس پر الیکشن لڑنے کا بھوت سوار ہوا۔ اس نے کونسلر کا الیکشن لڑا اور ہار گیا۔ میں نے کہا، یار تو پڑھا لکھا بندہ ہے، کس کام میں پڑ گیا؟ کہنے لگا، تم بورژوازی دانشور ہو، میں پرولتاری ہوں، عوام میں رہ کر کام کرتا ہوں۔ میں مسکرا دیا، چل تم کو اصل کام پر لے جاتا ہوں۔ میں ہفت روزہ ' ہم شہری' سے وابستہ تھا۔ وہاں لے گیا۔ ایڈیٹر سجاد انور سے ملوایا۔ بطور مترجم اس نے کام شروع کر دیا۔ بعد میں اس نے فیچرز بھی لکھے۔ کچھ عرصہ وجاہت مسعود صاحب کی ویب سائٹ ' ہم سب' کے ساتھ بھی رہا مگر طبیعت میں کچھ اور تھا۔ کل وقتی صحافت چھوڑ کر اپنے اصل عشق اشاعت کاری میں ہی لگا رہا اور لاہور کے بڑے اشاعت گھر سے وابستہ ہو گیا، جہاں کچھ عرصہ قبل یاران میکدہ میں بدگمانی نے بھی جنم لیا۔ قبلہ شفیق نے جناب ظفر اللہ اور ثقلین شوکت کی بدگمانی کو ختم کرایا۔
جب ثقلین کو پڑنے والے دل کے دورے کی خبر فیس بک پر پڑھی تو میں پردیس میں تڑپ گیا۔ محمود الحسن سے بات ہوئی، ثقلین کے بھائی عباس صاحب سے بات ہوئی اور جناب ظفر اللہ سے بات کی، تب تھوڑا سکون ہوا مگر چند گھنٹوں بعد قبلہ شفیق کی فون کال آئی کہ ہمارا یار ثقلین شوکت دغا دے گیا۔ ہمارا یاران میکدہ کا ایک پیالہ کم ہو گیا۔ اچھا یار رب کے حوالے!