فلسفہ نو فلاطونیت جس نے یہودی، مسیحی اور مسلم نظریات بدل ڈالے (II)

جہاں عقلی استدلال اپنی بے چارگی کا اعتراف کرتا ہے وہاں نوفلاطونیت وجد و حال کی مدد سے راستے کی رکاوٹوں سے گزر جانا چاہتی ہے۔ یونانی فہم جس مقام تک عقل کے وسیلے سے نہ پہنچ سکا، نو فلاطونیت وجدان کے ذریعے وہاں تک پہنچ جانا چاہتی ہے۔

فلسفہ نو فلاطونیت جس نے یہودی، مسیحی اور مسلم نظریات بدل ڈالے (II)

فلوطین اور اس کے پیروکار

فلاطینوس ( Plotinus) 203ء یا 205ء میں مصر کے ایک شہر لکوپالس میں پیدا ہوا۔ وہ رومن نژاد تھا اور ایران کے مشہور مجددِ مذہب مانی کا ہم عصر تھا۔ اس کے شاگرد فرفوریوس نے اس کی ایک مختصر سی سوانح حیات لکھی تھی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسے اوائل عمر میں تحصیل علم کے لیے سکندریہ بھیج دیا گیا جہاں اس نے امونیس سکاس سے تعلیم پائی۔ بعض اہل تحقیق کا خیال ہے کہ نوفلاطونیت کا بانی بھی سکاس ہے۔ فلاطینوس نے صرف اتنا کیا کہ اس کی تعلیمات کو قلم بند کر لیا جیسے افلاطون نے اپنے استاد سقراط کے افکار کو اپنے مکالمات میں محفوظ کر لیا تھا۔ سکاس نے جوانی میں عیسوی مذہب قبول کر لیا تھا لیکن بعد میں اسے ترک کر دیا اور اس کے خلاف تقریریں کرنے لگا۔ شاید اسی وجہ سے فلاطینوس اور اس کے شاگرد شروع ہی سے عیسائیت کی مخالفت کو اپنا فرض اولین سمجھتے تھے۔

سکندریہ میں فلاطینوس کو ایران اور ہندوستان کے باشندوں سے میل جول کے مواقع ملتے رہے۔ یہ لوگ اکثر تجارت پیشہ تھے۔ فلاطینوس کی دلی خواہش تھی کہ وه ایران اور ہندوستان جا کر وہاں کے حکماء سے استفاده کرے۔ اتفاق سے انہی دنوں شہنشاهِ روم گاردیان دوم نے ایران پر فوج کشی کی۔ اس موقع کو غنیمت جان کر فلاطینوس اس کی فوج میں بھرتی ہو گیا۔ لیکن زیادہ دن نہیں گزرنے پائے تھے کہ شہنشاہ گاردیان کو قتل کر دیا گیا اور فلاطینوس نے بھاگ کر انطاکیہ میں پناہ لی۔ وہاں کچھ مدت قیام کرنے کے بعد وہ روم چلا گیا اور وہاں اپنی درس گاہ قائم کی۔

اس کی صحت اکثر مخدوش رہتی تھی لیکن اس کی شخصیت میں بلا کی کشش تھی۔ اس کے عادات و خصائل ایسے شستہ و رفتہ تھے کہ جو شخص چند دنوں کے لیے اس کے حلقہ تدریس میں شامل ہو جاتا وہ عمر بھر کے لیے اس کا گرویدہ ہو جاتا تھا۔ فلاطینوس طبعاً تنہائی پسند تھا اور ہمیشہ تعمق و تفکر میں ڈوبا رہتا تھا۔ یہی استغراق بعد میں اس کے مسلک کا لازمی جزو بن گیا۔ فلاطینوس کی خوش قسمتی سے اس کی ذات کے گرد قابل شاگردوں کا جمگھٹ ہو گیا تھا جن میں امیلوس، اسٹوکیس اور فرفوریوس نے شہرت حاصل کی۔ فلاطینوس کو اپنے عقائد و افکار کی اشاعت میں نمایاں کامیابی ہوئی۔ حتیٰ کہ شہنشاہ روم گیلئس اور اس کی ملکہ سلوینیا بھی اس کے مداحوں کی صف میں شامل ہو گئے۔ فلاطینوس کی دلی آرزو تھی کہ وہ کمپینیا میں ایک شہر 'فلاطون آباد' کے نام سے بسائے جہاں اس کے پیرو اور ہم خیال باہم مل جل کر زندگی گزاریں اور جہاں ایک دارالمصنفین بھی کھولا جائے۔ شہنشاہ اور اس کی ملکہ نے اس تجویز کا خیر مقدم کیا لیکن فلاطینوس کی زندگی نے وفا نہ کی اور یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکا۔

فلسفہ نو فلاطونیت جس نے یہودی، مسیحی اور مسلم نظریات بدل ڈالے (I)

فرفوریوس نے فلاطینوس کے 54 رسائل کو چھ چھ کی اینئڈز (Enneads، لغوی معنی؛ 9) میں تقسیم کیا۔ 9 کے عدد کو فیثاغورس کے مسلک میں مقدس و کامل سمجھا جاتا تھا۔ اس لیے بطور تبرک و تفاول یہ ترتیب عمل میں آئی۔ ان رسائل کی چوتھی اینئڈ میں روح کے مسئلے پر بحث کی گئی ہے اور اس کا ایک حصہ (ساتواں رسالہ) بقائے روح کی بحث کے لیے وقف کیا گیا ہے۔ اس کا شمار فلاطینوس کے اہم ترین رسائل میں ہوتا ہے۔

فلاطینوس کے رسائل میں رطب و یابس بہت ہے لیکن صوفیانہ اور ادبی نقطۂ نظر سے بعض مقامات ایسے اعلیٰ و ارفع ہیں کہ بقول برٹرینڈ رسل، 'ذوقِ جمال کے لحاظ سے دنیائے ادب میں صرف دانتے کی فردوس کے کچھ حصے ہی ان کے مقابلے میں پیش کیے جا سکتے ہیں۔ اور لطف یہ ہے کہ یہ بھی فلاطینوس ہی سے ماخوذ ہیں'۔

فلاطینوس کی وفات کے بعد اس کے شاگرد فرفوریوس نے درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس سے نوفلاطونیت کا دوسرا دور شروع ہوا۔ فرفوریوس (متوفیٰ 300ء) کا اصل نام مالخوس تھا اور وہ سامی النسل تھا۔ وہ فلاطینوس کا محض مقلد ہی نہیں تھا بلکہ اس نے اپنے نامور استاد کی تعلیمات میں اضافے بھی کیے۔ برٹرینڈ رسل کے خیال میں اس نے فلاطینوس کے افکار کو ما بعد الطبیعیاتی رنگ دیا جو اس کے استاد کی تحریروں سے نہیں جھلکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ فلاطینوس کی بہ نسبت فیثاغورس سے زیادہ متاثر ہوا تھا۔

علاوہ ازیں، فرفوریوس نے فلاطونیت میں ارسطو کی منطق کو داخل کیا اور اس کی تعلیمات کو فلاطینوس کے عقائد میں گھلا ملا دیا۔ اس کا یہ علمی اقدام تاریخی لحاظ سے بڑا اہم ہے کیونکہ دورِ عباسیہ کے عرب حکماء کے پاس افلاطون اور ارسطو کی جو تعلیمات سریانی ترجموں کے ذریعے سے پہنچیں وہ فرفوریوس کے اسی نظریے کی حامل تھیں کہ افلاطون اور ارسطو کے نظریات میں کسی قسم کا بنیادی اختلاف نہیں ہے۔ فلاطینوس نے ارسطو کے مقالات عشرہ پر سخت تنقید کی تھی۔

فرفوریوس اور اس کے متبعین نے دوبارہ ارسطو کی طرف رجوع کیا۔ مسلمانوں کی طرح بلکہ ان کی پیروی میں دورِ وسطیٰ کے عیسائی متکلمین نے اپنے فکر و نظر کی بنیاد اشراقیت اور مشائیت کی اسی مفاہمت پر استوار کی تھی۔ فرفوریوس کے متعلق یہ بھی مشہور ہے کہ اس نے ارسطو کی قانون کی تمہید لکھی تھی۔

وہ اپنے استاد سے زیادہ رہبانیت پر زور دیتا تھا اور اس معاملے میں متشدد تھا۔ مانی کی طرح اس کا خیال تھا کہ تزکیۂ نفس کے لیے گوشت خوری اور اختلاط جنسی کا ترک لازم ہے۔ لیکن اس نے مانی کے اس عقیدے کی تردید کی کہ خواہش شر کی تخلیق کرتی ہے اس لیے ترکِ خواہش ہی سے روح نجات پا سکتی ہے۔ عیسائیت کے رد میں اس نے بہت کچھ لکھا۔ اس کے خیال میں عیسائیوں کی کتب مقدسہ الہامی نہیں ہیں بلکہ چند کم علم لوگوں کی تالیفات ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بعد میں عیسائی حکومتوں نے بارہا فرفوریوس کی کتابوں کو نذرِ آتش کیا۔

فرفوریوس کا ایک شاگرد جملیقس تھا جس نے افلاطون اور ارسطو کی کتابوں پر محققانہ شرحیں لکھیں جو اب نایاب ہیں۔ تحصیلِ علم سے فارغ ہو کر وہ اپنے وطن شام کو چلا گیا اور وہاں نوفلاطونیت کا درس دینے لگا۔ اپنے استادوں کی طرح اسے بھی فیثاغورس کے افکار میں گہرا شغف تھا۔ اس موضوع پر اس نے رسالے بھی تالیف کیے۔ فیثاغورس کے نظریات نے اس کے نوفلاطونی عقائد کو متاثر کیا۔ وہ مافوق الطبع پر اعتقاد رکھتا تھا۔ فیثاغورس کی طرح وہ مادے کو شر کا مرکز و محور خیال کرتا تھا اور ترکِ لذات پر زور دیتا تھا۔ اس نے عیسائیوں کے اس عقیدے کی سخت مخالفت کی کہ خدا نے جنابِ مسیح کے جسم میں حلول کیا تھا۔ مرورِ زمانہ سے نوفلاطونی نظریات میں تحریف ہوتی گئی اور اس میں توہمات اور خوارقِ عادات کا شمول ہو گیا۔

نوفلاطونیت کا آخری علم بردار پروکلس بازنطینی (Proclus) (415ء تا 485ء) کو سمجھا جاتا ہے۔ اس نے یونانیوں کی کثرت پرستی کے جواز میں کتابیں لکھیں۔ وہ عیسائیت سے سخت متنفر تھا اور ساری عمر اس کے خلاف تقریریں کرتا رہا۔ اس لیے اسے نوفلاطونیت کا مبلغ کہنا چاہیے۔ اس کے بعد کوئی قابلِ ذکر نوفلاطونی پیدا نہیں ہوا۔ جو نوفلاطونی نظریات شام کے عیسائیوں اور مسلمانوں تک پہنچے اور جنہیں صوفیہ نے اپنایا وہ اکثر و بیشتر پروکلس کے نظریات ہی تھے۔

529ء میں شہنشاہ جسٹینین نے یونانی فلسفے کی تدریس کو ممنوع قرار دیا اور تمام مدرسے بند کر دیے۔ نوفلاطونی حکماء بھاگ کر ایران چلے گئے جہاں خسرو انوشروان نے ان کی بڑی خاطر تواضع کی اور گندی شاپور کے طبی مدرسے میں انہیں تدریس کا کام تفویض کیا۔ لیکن یہ فلاسفہ نئے ماحول سے برگشتہ خاطر ہو کر واپس چلے گئے۔ اور بقول برٹرینڈ رسل، 'گمنامی کے کہرے میں غائب ہو گئے'۔

فلسفۂ فلوطین کے بنیادی تصورات

فلاطینوس کے فلسفے کا سنگ بنیاد تجلی (Emanation) کا تصور ہے۔ اس کا عقیدہ تھا کہ ذاتِ احد سے بتدریج عقل، روح، روح انسانی، اور مادہ کا نزول (Descent) ہوتا ہے۔ تعمق و تفکر کے طفیل روح انسانی مادے کے تصرف سے آزاد ہو کر دوبارہ اپنے مبداء حقیقی سے جا ملتی ہے۔ اسے صعود (Ascent) یعنی اوپر جانا کہتے ہیں۔ عربی زبان میں اس نظریے کو فصل و جذب، ذات احد سے جدا ہو کر دوبارہ اس میں جذب ہو جانا، کہتے ہیں۔

فلاطینوس کی تثلیث ذاتِ احدیث، عقل، روح پر مشتمل ہے اور عیسوی تثلیث سے مختلف ہے۔ عیسوی تثلیث کی طرح اس کے ارکان کا مقام ایک جیسا نہیں ہے۔ ذاتِ احد سب سے ارفع و اعلیٰ ہے۔ اس کے بعد عقل کا مقام ہے اور اس کے بعد روح کا درجہ ہے۔ اس تثلیت کے تیسرے رکن یعنی روح سے آفتاب، قمر اور دوسرے اجرام فلکی کا ظہور ہوا۔ روح سے انسان کی روحِ علوی پھوٹی۔ انسانی روح جب مادے کی طرف مائل ہوئی تو وہ اپنے مقام سے گر گئی اور روحِ سفلی کا نام پایا۔ مادے کے تصرف سے نجات پانے کے لیے وہ پیہم کشمکش کرتی ہے اور اپنے مبدائے حقیقی کی طرف پرواز کر جانے کے لیے بے قرار رہتی ہے۔

اس بے قراری کو فلاطینوس نے عشق کا نام دیا جو بعد میں ابنِ سینا کے تصورِ عشق اور صوفیہ کے عشقِ حقیقی کی صورت میں نمودار ہوا۔ پرواز یا صعود کی کوشش میں روح انسانی کو ناکامی ہو تو اسے کسی دوسرے آدمی یا جانور کے جسم میں حلول کرنا پڑتا ہے اور مادے کی آلائش سے آزاد ہو جائے تو وہ روحِ کُل میں جذب ہو کر نشاطِ جاوداں کی حق دار ہو جاتی ہے۔

نظریۂ تجلی کی وضاحت کرتے ہوئے فلاطینوس نے آفتاب کی تمثیل سے کام لیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ذاتِ احد سے عقل اور روح کا بہاؤ ایسے ہوتا ہے جیسے آفتاب سے نور چھلک پڑتا ہے۔ لیکن جس طرح نور کے انعکاس سے سرچشمۂ آفتاب متاثر نہیں ہوتا، ایسے ہی عقل کے بہاؤ سے ذاتِ احد اثر پذیر نہیں ہوتی۔

مادہ وہ تاریکی ہے جہاں آفتابِ حقیقت کی شعاعیں نہیں پہنچنے پاتیں۔ کائنات کی تمام اشیاء کا ہیولیٰ یہی مادہ ہے۔ روح اسے صورت شکل عطا کرتی ہے۔ انسان کی روحِ علوی کا رابطہ روحِ کُل سے بدستور قائم رہتا ہے۔ روحِ سفلی جو مادے سے قریب تر ہے، گناہ کا سرچشمہ اور ہوا و ہوسِ نفسانی کا مرکز ہے۔

اس ما بعد الطبیعات سے جو دستور اخلاق مرتب کیا جا سکتا ہے وہ ظاہر ہے۔ جب ماده شر اور گناہ کا مرکز ٹھہرا تو بدیہی طور پر اس سے کنارہ کش ہونا بڑے گا تا کہ روحِ انسانی پاک اور منزہ ہو کر روحِ کُل کی طرف پرواز کر سکے۔ نتیجتاً ایک نوفلاطونی کا فرض اولین یہ ہو گا کہ وہ عالمِ حواس سے منہ موڑ کر شبانہ روز مراقبے میں غرق رہے تا کہ اس کی روح میں پرواز کی صلاحیت پیدا ہو جائے۔ اس طرح نوفلاطونیت اخلاق و عمل میں زاویہ نشینی اور رہبانیت کی تلقین کرتی ہے۔

فلاطینوس مرتے دم تک اپنے عقائد پر کاربند رہا۔ اس کا دعویٰ تھا کہ مراقبے کی حالت میں اسے کئی بار روحِ کُل میں جذب ہونے کا تجربہ ہوا۔ لیکن ازخود رفتگی کی یہ کیفیت گریز پا ثابت ہوئی اور مادے کی کشش نے روح کو دوبارہ عالمِ سفلی میں کھینچ لیا۔ شاید اسی بنا پر فلاطینوس کی موت کے بعد اس کے پیروؤں نے یہ کہنا شروع کیا کہ اسے الہام ہوتا تھا اور اس سے معجزات کا صدور بھی ہوا تھا۔ ایک مرتبہ ایک مصور نے فلاطینوس کی تصویر کھینچنے کی خواہش کی۔ فلاطینوس نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ میرا جسم میرے وجود کا ایک غیر اہم حصہ ہے، اس کی تصویر کھینچنا بے سود ہے۔

بعض اہلِ علم نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ آخر فلاطینوس کے مسلک کو نوفلاطونیت کا نام کیوں دیا گیا ہے اور افلاطون کے افکار سے اس کا رابطہ تعلق کیا ہے؟ بات یہ ہے کہ صحیح معنوں میں نوفلاطونیت کو افلاطون کے فلسفے کا احیاء نہیں کہا جا سکتا۔ کیونکہ اس میں افلاطون کے فلسفے کا صرف وہ پہلو پیش کیا گیا ہے جس کا تعلق اشراق، تصوف اور خوارقِ عادات سے ہے۔

افلاطون کی تحریروں سے نظریۂ امثال، مکالمہ فیدو کے متصوفانہ افکار، مکالمہ جمہوریہ اور سمپوزیم سے عشق کی بحث ماخوذ ہے۔ اور افلاطون کی سیاسی دلچسپیوں، خیر کی مختلف صورتوں کی بحث، اس کے ریاضیاتی افکار، اس کے اسلوب کی شگفتگی اور ڈرامائیت کو فلاطینوس نے نظرانداز کر دیا ہے۔

اپنی عمر کے اواخر میں افلاطون فیثاغورس کے نظریات سے بڑا متاثر ہوا تھا۔ حتیٰ کہ اس نے فیثاغورس کا نظریہ اعداد بھی اخذ کیا اور اخلاق میں اسی کی طرح رہبانیت اور گوشہ نشینی کی طرف مائل ہو گیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس دور کے مکالمات میں وہ فلسفیانہ مسائل کو عقلی استدلال کی روشنی میں دیکھنے کے بجائے ان کی وضاحت کرتے ہوئے استعاروں اور اساطیر سے کام لیتا ہے۔

فلاطینوس نے فلسفۂ افلاطون کے اسی اشراقی پہلو کو اس کی تعلیم کا اصل اور حاصل سمجھا اور اس پر مشرقی باطنیت کا پیوند لگا کر فلسفۂ نوفلاطونیت کی تشکیل کی۔

فلاطینوس کا تجلی کا نظریہ بھی افلاطون سے ماخوذ ہے۔ افلاطون نے ذاتِ احد کو خیرِ محض یا حسنُ ازل کا نام دیا تھا۔ اس کے خیال میں خیر اور حسن کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔ ذاتِ احد لامحدود اور مطلق محض ہے۔ انسانی عقل اس کا احاطہ کرنے سے قاصر ہے۔ وہ کائنات سے ماوراء ہے، کیونکہ اگر وہ کائنات پر عمل فرما ہو گی تو اس ماورائیت میں فرق آ جائے گا۔

نظام کائنات کو برقرار رکھنے کے لئے چند ارواح ہیں جو ذاتِ احد اور کائنات کے مابین رابطے اور واسطے کا کام دیتی ہیں۔ لوگس ان ارواح کا نمائندہ ہے جو ذاتِ احد کی تجلی ہے اور کائنات کے مظاہر اس سے پھوٹتے ہیں۔ چونکہ ذاتِ احد زمان و مکان سے بالاتر ہے، اس لیے عقل انسان کی رسائی اس تک نہیں ہو سکتی۔ البتہ نورِ باطن (اشراق) سے اس کی معرفت حاصل کی جا سکتی ہے۔

عالمِ سفلی و مادی، امثال (Ideas) کا عکس ہے، سایہ ہے۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے افلاطون نے غار کی مشہور تمثیل پیش کی۔ اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی یہ عالم حواس محض فریب نگاہ ہے۔ حقیقی عالم وہی ہے جو امثال کا مسکن ہے۔

افلاطون ذاتِ احد کو اس کائنات سے اس قدر بے تعلق اور ماوراء سمجھتا تھا کہ اس کے لیے ایک کا لفظ استعمال کرنا بھی نامناسب خیال کرتا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ ایک کا تصور کثرت کے تصور کے بغیر نہیں کیا جا سکتا۔ یعنی صرف ایک کہہ دینے سے کثرت لازم آ جاتی ہے۔

فلاطینوس نے اس عقدے کو عقلی استدلال سے حل کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ عقیدةً مان لیا کہ ذات باری ایک ہے اور کثرت سے ماوراء ہے۔ اس سوال نے اسے پریشان نہیں کیا کہ ایک کثرت سے ماوراء کیوں کر ہو سکتا ہے؟ اور اگر وہ کثرت سے ماوراء ہو تو کثرت اس سے متفرع کیسے ہو گی؟ جب ذاتِ احد اور کائنات کے مابین کسی نوع کا تعلق نہیں ہو گا تو وہ کائنات تخلیق کیسے کر سکے گا؟

اس دقت کو عقلاً رفع کرنے کے بجائے فلاطینوس نے شعراء اور صوفیہ کی طرح استعاروں سے کام لیا اور کہا کہ کائنات ذاتِ باری سے ایسے متفرع ہوئی جیسے آفتاب سے شعاعیں یا جیسے برف سے سردی یا جیسے مکڑی سے جالا وغیرہ۔

افلاطون کی طرح فلاطینوس کے ہاں بھی انسانی زندگی کا مقصد واحد یہ ہونا چاہیے کہ وہ مادی اور حواس کی دنیا سے بے تعلق ہونے کی کوشش کرے۔ اس کوشش میں انسان کو سب سے پہلے اپنی روحِ علوی کو جسم اور حواس کی قید سے آزاد کرانا ہو گا۔ اس عمل کو وہ تصفیہ (Katharsis) کا نام دیتا ہے۔ اس کے بعد تفکر و تدبر کو بروئے کار لانا ضروری ہے۔

جب استغراق اور مراقبے کے طفیل روح کی توجہ عالمِ سفلی سے یکسر ہٹ جائے گی تو روح تفکر و تدبر سے بھی بے نیاز ہو جائے گی اور بلاواسطہ عقلِ اول (Nous) سے رابطہ استوار کر لے گی۔ اس مرحلے پر روح پر وجد و کیف کی حالت طاری ہو جائے گی اور اس عالم شکر و نشاط میں اسے ذاتِ احد کا وصال نصیب ہو گا اور وہ اس میں جذب ہو کر رہ جائے گی۔ لیکن قیدِ حیات میں ایسے لمحاتِ وارفتگی گریزاں ہوتے ہیں۔ اس بحث کو سٹیس نے ان الفاظ میں سمیٹا ہے:

' نوفلاطونیت کا بنیادی عقیدہ یہ ہے کہ انسان وجد و کیف میں ذات باری تک رسائی حاصل کر لیتا ہے۔ عقل و خرد کا عجز و قصور نوفلاطونیت کا نقطۂ آغاز ہے۔ جہاں عقلی استدلال اپنی بے چارگی کا اعتراف کرتا ہے وہاں نوفلاطونیت وجد و حال کی مدد سے راستے کی رکاوٹوں سے گزر جانا چاہتی ہے۔ یونانی فہم جس مقام تک عقل کے وسیلے سے نہ پہنچ سکا، نو فلاطونیت وجدان کے ذریعے وہاں تک پہنچ جانا چاہتی ہے۔ اس کے مطابق جہاں عقل کی کوششیں ناکام رہیں وہاں والہانہ بے خودی کامیاب ہو جائے گی'۔

مشہور مورخ گبن نے نوفلاطونیت پر یہ الزام لگایا ہے کہ ان لوگوں نے فہمِ انسانی کو ملوث کر دیا ہے۔ وہ کہتا ہے:

'نوفلاطونی بڑے محنتی اور عمیق فکر کے مالک تھے۔ لیکن انہوں نے فلسفے کے مقصود کو نظرانداز کر دیا اور انسانی فکر کی تربیت کرنے کے بجائے الٹا اسے بگاڑ دیا۔ انہوں نے اس علم کو جو انسانی قویٰ سے موافقت رکھتا ہے، فراموش کر دیا اور اخلاقیات، طبیعات اور ریاضیات سے قطع نظر کر کے اپنی تمام قوت ما بعد الطبیعاتی بحثوں اور مناظروں میں ضائع کر دی۔ اس کے بعد ان لوگوں نے غیر مرئی عالم کے بھیدوں کو دریافت کرنے اور افلاطون اور ارسطو کے ایسے نظریات کے درمیان مفاہمت کرنے پر کمر ہمت باندھی جن سے عامۃ الناس کی طرح یہ نوفلاطونی فلاسفہ خود بھی نا آشنائے محض تھے'۔

بعض اہلِ علم کہتے ہیں کہ نوفلاطونیت ہندوستان کے نظریۂ اپنشد (Upanishads) سے متاثر ہوئی تھی اور فلاطینوس نے تناسخ اور فریبِ نفس (مایا) کے تصورات اس ماخذ سے لیے تھے لیکن اس مفروضے کی توثیق کے لیے تاریخی شواہد بہم نہیں پہنچ سکے۔ اگرچہ اس میں شک نہیں کہ نوفلاطونیت اور اپنشدوں کی تعلیم میں اقدارِ مشترک موجود ہیں۔

اپنشدوں کی تعلیم بھی یہی ہے کہ پہلے آتما (انفرادی روح) کو دریافت کیا جائے اور پھر اسے برہما میں فنا کر دیا جائے۔ اور برہما یا آفاقی روح تک رسائی صرف وجدان سے ہی ممکن ہو سکتی ہے۔ عقلِ استدلالی اس کوشش میں ناکام رہے گی۔

لیکن تجلی کے جو مراحل نوفلاطونیت میں گنائے گئے ہیں ان کا اپنشدوں میں کہیں بھی کھوج نہیں ملتا۔ یہ نظریہ خود افلاطون کے فلسفے میں موجود تھا اس لیے فلاطینوس کو اپنشدوں سے رجوع کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہو سکتی تھی۔

رہا تناسخِ ارواح کا مسئلہ تو یہ مصرِ قدیم میں بھی موجود تھا۔ غالب امکان یہی ہے کہ مصر ہی سے اس کا پھیلاؤ دوسرے ممالک میں ہوا۔ بقول ہیروڈوٹس اسے فیثاغورس نے مصرِ قدیم سے مستعار لیا تھا۔ اہلِ مصر روح کے غیر فانی ہونے کے قائل تھے اور موت کے بعد جسم کو ممی کی صورت میں محفوظ رکھتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ روح تین ہزار برس کے بعد مختلف نباتات، حيوانات، وغيره کا چکر کاٹ کر دوبارہ ممی میں واپس آ جائے گی۔

فیثاغورس (Pythagoras) اور ایمپی دکلیس، انباذقلس (Empedocles) نے تو اس بات کا دعویٰ کیا تھا کہ انہیں اپنے گذشتہ جنموں کے حالات بخوبی یاد ہیں۔ 'جمہوریہ' کے اواخر میں افلاطون نے بیان کیا ہے کہ لکاس دیوی لوگوں کو نئے نئے جنم عطا کرتی ہے۔ عارفیوس کی روح نے اپنے لیے راج ہنس کا قالب انتخاب کیا، تھرسیٹیس نے بندر کا اور آگاممنون نے عقاب کا۔ اسی طرح مایا کا تصور بھی افلاطون کے یہاں ملتا ہے جس کے مطابق عالمِ ظواہر یا عالمِ حواس غیر حقیقی ہے اور محض نیرنگِ نظر ہے۔

ان حقائق میں یہ دعویٰ کرنا کہ فیثاغورس، افلاطون اور فلاطینوس وغیرہ کے نظریات پر اپنشدوں کی تعلیمات کا اثر پڑا تھا، ایسا ہی بعید از قیاس ہے جیسے یہ خیال کہ اپنشدوں کے افکار یونانی فلاسفہ سے ماخوذ ہیں۔ (1)

جاری ہے۔۔۔

**

منابع:

1۔  سید علی عباس جلالپوری، 'روایاتِ فلسفہ'، باب: نوفلاطونیت، خرد افروز، جہلم۔

سید علی عباس جلالپوری گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفے کے استاد تھے۔ انہوں نے فلسفہ، مذہب اور تاریخ سے متعلق 14 کتب تحریر کی ہیں جنہیں علمی حلقے فلسفے میں سنجیدہ کام قرار دیتے ہیں۔ علی عباس جلالپوری کو پاکستان کا ول ڈیورانٹ بھی کہا جاتا ہے۔