تحریر: ( احسن بودلہ) حال ہی میں اداکار اور گلوکار محسن عباس حیدر کی بیوی فاطمہ سہیل کی طرف سے ان پر اپنے شوہر کی طرف سے جسمانی تشدد کی شکایت کی گئی۔ فاطمہ نے پہلے سوشل میڈیا کا سہارا لیا اور انھوں نے اپنی تشدد شدہ تصویریں بھی شیئر کیں جس پر محسن عباس نے ایک پریس کانفرنس میں قران پر ہاتھ رکھ کر ان سارے الزامات کی تردید کی مگر بعد میں فاطمہ کی طرف سے پریس کانفرنس میں دیگر تفصیلات دینے اور شوبز انڈسٹری کی کئی مشہور شخصیات کی طرف سے فاطمہ کے حق میں سامنے آنے پر مجسن عباس پر مقدمہ درج کیا گیا اور ان کو دنیا نیوز کے پروگرام مذاق رات سے الگ بھی کر دیا گیا۔
فاطمہ سہیل نے اپنی پریس کانفرنس اور بعد میں میڈیا کو دیے جانے والے انٹرویوز میں تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ وہ دنیا نیوز اور نیو ٹی وی میں کام کرتی تھیں جو بعد میں انھوں نے محسن کے کہنے پر چھوڑ دیا تھا جب تک فاطمہ ، محسن کی بیوی نہیں بنی تھی۔ تب تک محسن کو فاطمہ کے ٹی وی پر کام کرنے پر کوئی اعتراض نہیں تھا ۔ لیکن جیسے ہی ان کی شادی کی بات ہوئی تو محسن کی مردانہ غیرت جاگ اٹھی اور اس نے فاطمہ کو کام کرنے سے منع کر دیا۔
عورت کے بارے میں ہمارے سماج کے مردوں کی یہ وہ سوچ ہے جس کے بارے میں انصار عباسی صاحب فرماتے ہیں کہ شوبز میں کام کرنے خواتین اور طوائف میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ اس کا اظہار موصوف نے مہوش حیات کو تمغہِ امتیاز ملنے پر اپنے ایک کالم میں کیا تھا۔ یہی وہ سوچ ہے جس کے مطابق اوریا مقبول جان کو ہر ورکنگ ویمن میں فحاشی نظر آتی ہے اور جس کے بارے میں آفتاب اقبال صاحب فرماتے ہیں کہ عورتوں کو اپنے کیریر پر توجہ دینے کی بجائے شادی کر کے گھر داری سنبھال لینی چاہیے۔
لیں جی فاطمہ نے اپنی نوکری چھوڑ کر سنبھال لیا تھا گھر اور اپنے شوہر کی بات مان لی تھی مگر شوہر نے اپنی بیوی کی اس بات کا اس پر تشدد کر کے کیا اچھا جواب دیا۔ یہ اس سوچ کی عکاسی ہے کہ شادی کے بعد عورت مرد کی ملکیت بن جاتی ہے اور اس کا حق ہے کہ وہ جس طرح کا مرضی سلوک کرے۔ عورت کو اس پراپنا گھر بچانے کےلیے چپ رہنے میں ہی عافیت نظر آتی ہے۔ اور فاطمہ نے بھی یہی کیا، بلکہ جن کچھ دوستوں کو اس کا بتایا ان کو بھی اس پر بات کرنے سے منع کر دیا ۔ مگر یہ سلسلہ چلتا رہا اور فاطمہ عارضی طور پر اپنے شوہر سے الگ ہو گئیں مگر بچے کی پیدائش کی وجہ سے انھوں اپنا گھر بچانے کےلیے محسن کو ایک اور موقع دیا۔ جس سے فائدہ اٹھانے کی بجائے محسن نےایک اور خاتون سے دوستی کر لی۔ اور فاطمہ کی طرف سے اس دوست سے شادی کی مخالفت بھی محسن کو غلط نظر آنے لگی۔
محسن عباس حیدر دراصل ہمارے مردانہ سماج کا اصلی چہرہ ہیں۔ جو منافقت کے اعلیٰ درجے پر فائز ہیں ۔ ایک طرف تو وہ نعتیں پڑھتے ہیں ، ٹی وی پروگرام میں بیٹھ کر ڈی جے کے روپ میں لوگوں کو اخلاقیات کا درس دیتے ہیں اور اپنی بیٹی کی وفات پر سوشل میڈیا پر دکھ بھری پوسٹس کر کے لوگوں کی ہمدری حاصل کرتے ہیں۔ یعنی اپنا ایک بہت ہی اچھا روپ انھوں نے سب کے سامنے رکھا ہوا ہے۔
دوسری طرف وہ اپنی ذاتی زندگی میں ایک خاتون سے دوستی کرتے ہیں تب نہ تو ان کو اس خاتون کی نوکری پر اعتراض ہوتا ہے اور نہ ہی ان کے بن ٹھن کر تیار ہو کر ان سے ملاقاتیں کرنے میں لیکن جیسے ہی ان کی شادی ہوتی ہے تو تب اس خاتون کا نوکری کرنا بھی غلط ہو جاتا ہے اور اس کا بناو سنگھار بھی۔ پھر بات نہ ماننے پر روایتی مرد کی طرح اپنی بیوی پر تشدد کرتے ہیں اور ایک دوسری خاتون سے دوستی بھی کر لیتے ہیں اور اپنی بیوی کی مرضی کی بغیر اس دوست سے شادی کرنا چاہتے ہیں۔ اور جب فاطمہ سب کچھ سامنے لی کر آتی ہیں تو جواب میں قران پر ہاتھ رکھ کر یہ جھوٹ بولتے ہیں کہ فاطمہ کے چہرے پر نشان سیڑھیوں سے گرنے کی وجہ سے ہیں۔
یہ ہمارا ہی سماج ہے جس میں مرد اتنا کچھ کر کے بھی بڑے آرام سے اپنی زندگی گزار سکتا ہے۔ عورت تو اس طرح کا کوئی کام کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتی مگر فاطمہ کی طرح باقی عورتوں کو بھی اس طرح کے ظلم پر آواز اٹھانا ہوگی تب ہی محسن عباس حیدر جیسے لوگوں کی سچائی دنیا کے سامنے آ سکے گی۔
محسن عباس حیدر کا شوبز کی دنیا کی طرف سے بائیکاٹ کیا جانا چاہیے، اس ضمن میں مذاق رات پروگرام کی انتظامیہ کا ان کو پروگرام سے الگ کرنے کا فیصلہ خوش آئند ہے۔ اس کے ساتھ ان کو قانون کے مطابق سزا بھی ملنی چاہئیے۔ عورتوں کے بارے میں شاید اس سے ہمارے سماج کی مردانہ سوچ کچھ بدل سکے۔
مصنف جامعہ پنجاب سے ابلاغیات میں ماسٹرز کر چکے ہیں، سیکولرازم کے حامی اور سیاست، ادب اور موسیقی سے شغف رکھتے ہیں۔