سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ ملک ٹوٹنے کی وجہ جمہوریت کانہ ہونااورآمرانہ حکمرانی تھی۔ آمرانہ حکومتیں آزادی صحافت اور اظہار رائےکو دباتی ہیں۔ 1973 میں ملک کو مکمل آئین ملا. جب تک آئین رہے گا ملک بھی رہے گا ۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے امریکا کی ہارورڈ یونیورسٹی کے ساوتھ ایشیا انسٹیٹیوٹ کے زیر اہتمام پاکستان کی آزادی کے 75 سال پر 2 روزہ کانفرنس میں شرکت کی۔ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ملک ٹوٹنے کی وجہ جمہوریت کا نہ ہونا اور آمرانہ حکمرانی تھی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ آمرانہ حکومتیں آزادی صحافت اور اظہار رائےکو دباتی ہیں.
جسٹس فائز عیسیٰ نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ پاکستان میں حکومت کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح 5 سال گزار سکیں۔اس وجہ سے حکومت کی توجہ گورننس سے ہٹ جاتی ہے اور بڑےمسائل پرکام نہیں ہوپاتا۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں کسی بھی قسم کی پابندی کا اطلاق ہو تو اس کا اثر جمہوری حکومت پرپڑتا ہے۔آئین میں تبدیلی پارلیمنٹ کا کام ہے. بطور جج کسی تبدیلی کی تجویز نہیں دے سکتا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ آئینی کردار اور جمہوریت ہی ملک کی بنیاد ہے۔ جب تک آئین رہے گا ملک بھی رہے گا۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کا کام ہے کہ بنیادی حقوق کا تحفظ ہو۔ آئین کے مطابق دیئے گئے بنیادی حقوق کا تحفظ ہمارای اولین ترجیح ہوتی ہے۔ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کو چاہیے کہ ان حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی سے ججز بھی متاثر ہوئے ہیں۔ قرآن کہتا ہے ’اقرا‘ یعنی پڑھو اور اس میں تفریق نہیں کی گئی۔لیکن یہاں مذہب کا غلط استعمال کیا گیا۔ مذہب کے نام پر لڑکیوں کو تعلیم نہ دینے کی تشہیر کی گئی ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ امریکا کی سپریم کورٹ نے 100 سال پرانے گن کنٹرول کیسز پر فیصلوں کو بدل دیا، امریکا میں کیے گئے فیصلوں سے دوسرے ممالک کو بھی پیغام جاتا ہے۔ امریکا میں ہونے والی تبدیلیوں کا اثر عالمی دنیا پر ہوتا ہے۔