گذشتہ ہفتے میر شکیل الرحمان کے وکیل امجد پرویز نے ان کی بریت کی درخواستوں پر دلائل مکمل کیے تھے۔ احتساب عدالت نے پیر کو اپنا فیصلہ سناتے ہوئے میر شکیل الرحمان کو اس کیس میں باعزت بری کر دیا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی لکھا کہ میر شکیل الرحمان پر جو الزامات تھے ان سے بھی انہیں بری کیا جاتا ہے اور جو چیزیں تحویل میں ہیں وہ انہیں واپس کی جاتی ہیں۔
عمران خان اور سلیکٹرز کو میر شکیل ناپسند کیوں؟
وزیر اعظم عمران خان ایک زمانے میں میر شکیل کے بہت قریب تھے۔ جنگ اور جیو گروپ پر اکثر ناقدین الزام لگاتے ہیں کہ یہ عمران خان کو لیڈر بنانے کی سزا بھگت رہے ہیں۔ حامد میر ہر چوتھے روز عمران خان کو اپنے پروگرام میں مدعو کیا کرتے۔ پاکستان کے کسی اور لیڈر کو اتنے مواقع ون آن ون انٹرویو میں آسان ترین سوالات کے ساتھ نہیں ملے جتنے عمران خان کو دیے گئے اور اس میں سب سے بڑا کردار جیو نیوز کا تھا۔ بدلے میں جیو نیوز عمران خان سے چھوٹے موٹے کام نکلوا لیا کرتا تھا۔ مثلاً اگر کسی حکومت پر جیو سوپر کے لئے میچوں کے رائٹس کے لئے دباؤ ڈلوانا ہو تو عمران خان صاحب کھل کر جیو سوپر کے حق میں بیان دیا کرتے تھے۔ دونوں نے مل کر سیلاب زدگان کے لئے بھی اکٹھے مہم چلائی۔
تاہم، 2014 میں عمر چیمہ کی ایک ٹوئیٹ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ عمران خان اور میر شکیل کے درمیان وجۂ تنازع بنی۔ یہ ٹوئیٹ ایک نامعلوم سیاستدان اور اسلام آباد کی ایک نوجوان خاتون کے درمیان جنسی تعلقات کا اشارہ دے رہی تھی۔ اس میں کسی کا نام نہیں تھا۔ تحریک انصاف کے اندرونی ذرائع کے مطابق لیکن خان صاحب نے تصور کر لیا کہ یہ ٹوئیٹ انہیں بلیک میل کرنے کے لئے کروایا گیا ہے، کیونکہ اس میں کسی کا نام نہیں لیا گیا تھا۔ عمران خان نے ایک پریس کانفرنس میں اس کا ذکر بھی کر ڈالا۔ جھلا کر بولے کہ اس میر شکیل نے مجھ پر ذاتی حملہ کروایا ہے۔
وزیر اطلاعات پرویز رشید نے بھی حامد میر پر حملے پر گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم غلیل والوں کے ساتھ نہیں، دلیل والوں کے ساتھ ہیں۔ کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ پرویز رشید آج تک اس جملے کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ 2021 کے سینیٹ انتخابات میں ان کے کاغذات نامزدگی مسترد ہونے میں اس جملے کا بھی ایک کردار ہو سکتا ہے۔
بس اس کے بعد عمران خان مسلسل جیو نیوز سے حالتِ جنگ میں ہیں۔ 2014 کے دھرنے کے دوران یہ لڑائی اس حد تک بڑھ گئی کہ جیو نیوز کے دفتر پر متعدد مرتبہ حملے ہوئے۔ ان کے اینکرز پر حملے ہوئے۔ سلیم صافی کو اتنی دھمکیاں موصول ہوئیں کہ انہیں کسی بھی قسم کا نقصان پہنچنے کی صورت میں جوابی کارروائی کی دھمکی والا کالم لکھنا پڑا۔ حامد میر پر حملہ ہوا تو تحریکِ انصاف کے حامی ماننے کے لئے تیار نہیں تھے کہ انہیں گولی لگی تھی۔ حامد میر آج بھی اپنے جسم میں گولیوں کے خول لیے گھومتے ہیں اور تحریکِ انصاف کے کچھ حامی آج بھی مصر ہیں کہ ان پر حملہ ہوا ہی نہیں تھا۔ یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ عمران خان کی جیو سے طلاق بھی اس وقت ہوئی جب جنگ اور جیو گروپ اسٹیبلشمنٹ کا ناپسندیدہ گروپ بھی بن چکا تھا۔ ان کے اسٹیبلشمنٹ سے اختلافات اس وقت شدید ہو گئے جب حامد میر پر حملے کا الزام ان کے بھائی نے ڈی جی آئی ایس آئی پر لگا دیا۔ جیو کی نشریات کئی دن تک تعطل کا شکار رہیں اور جیو ٹی وی کو شدید مالی نقصان اٹھانا پڑا۔ یاد رہے کہ اس وقت کی نواز شریف حکومت نے جیو کے خلاف مقدمے درج کروائے تھے اور خواجہ آصف اس کام میں پیش پیش تھے۔ لیکن ناقدین الزامات لگاتے ہیں کہ جیو کو compensate کرنے کے لئے اس وقت کی حکومت نے انہیں ٹیکس میں بھی مراعات دیں۔ اس موقع پر وزیر اطلاعات پرویز رشید نے بھی حامد میر پر حملے پر گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم غلیل والوں کے ساتھ نہیں، دلیل والوں کے ساتھ ہیں۔ کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ پرویز رشید آج تک اس جملے کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ 2021 کے سینیٹ انتخابات میں ان کے کاغذات نامزدگی مسترد ہونے میں اس جملے کا بھی ایک کردار ہو سکتا ہے۔
2016 کے اواخر میں پاناما پیپرز پر کارروائی شروع ہوئی تو پاؤلو کوئیلہو کے ناول کی لائن کے مصداق کائنات کا ہر ذرہ نواز شریف کو اقتدار سے نکالنے میں جت گیا کیونکہ ہمارے ملک کی سیاست کا سورج یعنی اسٹیبلشمنٹ یہ فیصلہ کر چکی تھی۔ جیو لیکن ان کے نکلنے کے بعد بھی عمران خان اور ان کے لانے والوں کے ساتھ یوں کھڑا نہ ہوا جیسے وہ چاہتے تھے۔ مسلم لیگ ن کو اقتدار سے نکالنے کا راستہ ہموار کیا جا رہا تھا اور اس کے لئے دوبارہ واپسی کی تمام راہیں مسدود کی جا رہی تھیں تو جیو نیوز عمران خان کے قصیدے بھی پڑھ رہا تھا مگر دن رات یوں مدح سرائی میں مگن نہ تھا جیسے آج کل دن رات لوگوں سے لندن کے عدالتی احکامات کی تعمیل میں معافیاں مانگنے والے چینل مگن تھے۔ عمران خان صاحب کو یہ بھی قبول نہ تھا۔ 2018 انتخابات کے بعد 'ہائبرڈ رجیم' نے ایک ایک کر کے میڈیا سے تنقیدی آوازوں کی صفائی کی۔ سیاسی دشمنیوں کی فہرستیں لمبی ہیں۔ صحافیوں میں جیو کے طلعت حسین کا نمبر سب سے پہلے آیا۔ پھر ایک ایک کر کے کئی اور ٹی وی اینکز کو میدان سے غائب کر دیا گیا۔ اس کے باوجود بھی حکومتِ وقت راضی نہ ہوئی کیونکہ جیو کی قدرے آزدانہ پالیسیاں اسے کانٹے کی طرح چبھ رہی تھیں۔ تب یہ فیصلہ کیا گیا کہ جیو کو سبق سکھانے کا سب سے مؤثر طریقہ میر شکیل کو پابندِ سلاسل کرنا تھا۔ اس فیصلے کا نقصان درحقیقت حکومت کو ہی ہوا۔ ایک طرف عالمی میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے میر شکیل کی حراست کو خوب اٹھایا اور یہ ثابت کیا کہ پاکستان میں میڈیا آزاد نہیں۔ دوسری طرف ایسے صحافی جو عمران خان کو لانے میں پیش پیش تھے، انہیں بھی مجبوراً اس فیصلے کی مذمت کرنی پڑی اور میڈیا عمومی طور پر عمران خان حکومت کے مزید خلاف ہو گیا۔ اگر سب سے بڑے میڈیا گروپ اور ارب پتی میر شکیل کے ساتھ ایسا سلوک ممکن ہے تو چھوٹے چینل تو کسی شمار قطار میں نہیں۔ ان کے ساتھ بھی ایسا سلوک کیا جانا بالکل ممکن تھا۔ یاد رہے کہ اسی برتاؤ کے رد عمل میں ایکسپریس نیوز کے مالک سلطان لاکھانی نے اپنے چینل کا سنگ بنیاد رکھا تھا کیونکہ مشرف حکومت نے ان کو کرپٹ صنعتکاروں کی فہرست میں ڈال کر جیل بھجوا دیا تھا۔ اس طفلانہ اور فسطائی فیصلے کے بعد عمران حکومت کو لینے کے دینے پڑ گئے
تاریخ گواہ ہے کہ فسطائیت کا نظام برقرار رکھنا قریباً ناممکن ہے۔ آپ وقتی طور پر اس طرح کے ہتھکنڈے تو آزما سکتے ہیں لیکن جبر کا موسم زیادہ دیر چلتا نہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ اب ہائبرڈ نظام اپنی آخری ہچکیاں لے رہا ہے۔ اس نظام کے خالق بھی نوشتۂ دیوار پڑھ چکے ہیں۔ البتہ عمران خان ایک سیاستدان ہیں اور عوام میں اپنا ایک ووٹ بینک رکھتے ہیں۔ ان کو یہ سبق سیکھنا چاہیے کہ آزاد میڈیا کے بغیر ان کی سیاست بھی خطرات سے دوچار ہے۔ عمران خان صاحب کو چاہیے اب بھی سمجھ جائیں، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔