موروثی بیماری سِکِل سیل انیمیا کے علاج کے لئے نئی جینیاتی ٹیکنالوجی کو استعمال کر کے تیار کردہ دوا کی امریکہ اور برطانیہ میں فروخت کی اجازت بلاشبہ دنیائے طب کا وہ اہم ترین سنگ میل ہے جو 2023 میں عبور کر لیا گیا۔
سِکِل سیل بیماری
ہماری حیات آکسیجن کی مسلسل سپلائی پر منحصر ہے۔ یہ آکسیجن اردگرد ہوا میں موجود ہوتی ہے اور سانس لینے سے پھیپھڑوں کے آخری حصے تک پہنچ جاتی ہے جہاں خون میں موجود سرخ خلیے میں پوشیدہ پروٹین ہیموگلوبن تاک لگا کر بیٹھا ہوتا ہے تاکہ جلدی سے اسے اپنی بانہوں میں سنبھال لے اور گردشِ خون کے ذریعے جسم کے مختلف حصوں اور اعضا تک منتقل کر سکے۔ صحت مند افراد میں خون کے یہ سرخ خلیے طشتری نما اور لچکدار ہوتے ہیں جو خون کی باریک نالیوں سے بھی بآسانی گزر جاتے ہیں۔ کچھ والدین لاعلمی، ناواقفیت، بے شعوری، جہالت یا ضد میں اپنے بچوں کو ایسے جینز ورثہ میں دے جاتے ہیں جن کی بنا پر آکسیجن کی کمی ہوتے ہی ہیموگلوبن کی شکل درانتی یا سکل جیسی ہو جاتی ہے۔
کہتے ہیں کہ یہ جینز سات ہزار سال پہلے سب صحارا افریقہ میں نمودار ہوئے۔ اس ہیموگلوبن کا عرصہ حیات مختصر ہوتا ہے اور خون کی پتلی پتلی نالیوں سے گزرتے ہوئے پھنس کر درد اور متعلقہ عضو کی بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔ مریض خون کی شدید کمی یعنی انیمیا سے دوچار ہو جاتا ہے۔ اسے انتقالِ خون کی ضرورت پڑ جاتی ہے، آئے دن نت نئے انفیکشن سے واسطہ پڑتا ہے۔ ایڈز کا خطرہ رہتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی دیگر پیچیدگیوں کے باعث ایسے مریضوں کی بڑی تعداد کافی تکلیف سے گزرنے کے بعد بچپن میں ہی دنیا کو خیرباد کہہ دیتی ہے۔ متاثرہ خواتین میں اسقاط کا امکان بہت زیادہ ہوتا ہے۔ ان کے ایام زچگی مشکلات سے عبارت ہوتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں بھی جہاں اوسط عمر 80، 82 سال ہے سکل سیل انیمیا کے روگی 55 سال جی پاتے ہیں۔ چنانچہ یہ ایک گھمبیر مسئلہ ہے۔ امریکہ میں اس مرض کے شکار ایک لاکھ ہیں لیکن اس کا اصل مرکز مشرق وسطیٰ، افریقہ اور جنوبی ایشیا یعنی پاکستان و بھارت ہے۔
جینیات کی الف ب
خلیہ کے مرکزے میں مخصوص پروٹینی مواد ڈی این اے قیام پذیر ہوتا ہے۔ ڈی این اے کی لڑی کے معین حصے جینز کہلاتے ہیں۔ یہی اس جاندار کی شکل و صورت، نشوونما، افزائش نسل اور عالم رنگ و بو میں بقا سب کچھ طے کرتے ہیں۔ ایک نسل سے دوسری نسل تک ان خصوصیات اور معلومات کی وراثت جینز پہنچاتے ہیں۔ ہر انسان میں 20 سے 25 ہزار جینز ہوتی ہیں جن میں سے نصف ماں اور نصف باپ کا عطیہ ہوتی ہیں۔ کئی بیماریوں میں انہی جینز کا اہم کردار ہے۔ جینز ایک نسل سے دوسری نسل اور پھر اگلی نسل میں منتقل ہوتی ہیں۔ وراثت کے اس نظام کا مطالعہ جینیات کہلاتا ہے۔
1990 میں امریکی قیادت میں یورپ، جاپان اور چین سمیت دنیا بھر کے ماہرین جینیات کو اکٹھا کر کے ورلڈ جینوم پروجیکٹ بنایا گیا جس کا مقصد انسان میں موجود جینز کی ترتیب اور نقشہ نویسی تھا۔ 2003 میں اس پروجیکٹ کی تکمیل ہوئی۔ یہ جینز چار حروف (اے، سی، جی اور ٹی) پر مبنی تین ارب ترتیبات پر مشتمل ہیں۔ اسی دوران ہمیں یہ علم بھی ہو گیا کہ تمام انسانوں کے جینز 99 اعشاریہ 9 فیصد تک یکساں اور مشابہ ہیں۔ یہ لمبے، ٹھگنے، گورے کالے، زرد، گندمی، موٹے دبلے، چوڑے پتلے کا تفاوت محض اعشاریہ ایک فیصد جینیاتی فرق کا نتیجہ ہے۔ ہزارہا برس ساتھ رہنے والی نسلوں مثلاً یہودی اور فلسطینی، پاکستانی اور بھارتی یا جنوبی اور شمالی کوریائی باشندوں کی جینیاتی ترتیب تو ہو بہو ایک ہے۔ انسان اور چمپانزی کے جینوم میں فقط 4 فیصد فرق ہے۔ مچھلی اور انسانی جینوم 60 فیصد ایک ہے جبکہ کیلا 50 فیصد انسان ہے۔ دل، گردے اور جگر کی طرح انسانی جینوم بھی ایک مکمل عضو ہے جس کی بیماری اور صحت ممکن ہے۔ جینیاتی طب اسی علاج کی کوشش کی ایک ابتدائی شکل ہے۔
جینیاتی علم سے معاشرے پر کیا اثرات پڑتے ہیں، اس کی چھوٹی سی مثال شادی سے قبل جوڑوں کی سکریننگ کا پروگرام ہے جس کا مشاہدہ ہم نے 20 سال قبل اُس وقت کے سب سے قدامت پرست ملک سعودی عرب میں کیا جہاں رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کے خواہاں لڑکے اور لڑکیاں آ کر اپنے مختلف ٹیسٹ کراتے جن سے ناصرف بلڈ گروپ کی موافقت کی شناخت اور جنسی طور پر منتقل ہونے والی بیماریوں کی تشخیص ہو جاتی بلکہ سِکِل سیل انیمیا اور تھیلیسیمیا جیسے موروثی عارضوں کا سراغ بھی لگایا جاتا تھا۔
جینیاتی انجینئرنگ
جینوم کو ہم تین ارب الفاظ سے لکھی کتاب سمجھ سکتے ہیں۔ ہر لفظ چار حروف کی مختلف ترتیب سے لکھا گیا ہے۔ اس کتاب کے الفاظ کی تعداد متعین ہے اور ہم اسے نہیں چھیڑ سکتے۔ البتہ ہم چند الفاظ حتی کہ ایک آدھ حرف کو ادھر ادھر کر کے تبدیلیاں لا سکتے ہیں۔ اس کو کاپی پیسٹ بھی کیا جا سکتا ہے۔ یہ جین ایڈیٹنگ ہے۔ 1973 سے اسے کرنے کی متعدد کاوشیں کی جا چکی ہیں لیکن یہ اسی طرح نازک کام ہے جیسے کسی شخص کے سر پر رکھے سیب کو کلاشنکوف سے بار بار ایسے نشانہ بنایا جائے کہ گولی آنکھ پر نہ لگے۔ جین تھراپی کا نشانہ چوکنے کا نتیجہ راحت فتح علی کی جگہ چاہت فتح علی کو گوانے سے کہیں زیادہ خطرناک نکل سکتا ہے۔ ناقابل علاج اور پورے بدن میں پھیلا ہوا کینسر بھی ہو جاتا ہے۔ 2020 میں دو خواتین بائیو کیمسٹ امریکی جینیفر ڈوڈنا اور فرانسیسی ایمانوئیل شارپینتیئر نے جین ایڈیٹنگ کی اب تک کی سب سے تیر بہدف ٹیکنالوجی ایجاد کی جسے کرسپر کیس 9 کہتے ہیں۔ اس کارنامے پر انہیں نوبیل پرائز دیا گیا۔ برطانیہ، بحرین اور امریکہ میں علاج کے لئے منظوری حاصل کرنے والی سِکِل سیل بیماری کی دوا اسی ٹیکنالوجی سے بنائی گئی ہے۔
جینیاتی میڈیسن کے فوائد
جینیاتی سائنس کی طاقت ہم نے کورونا کی ویکسین کی فی الفور تیاری اور دنیا بھر میں ارزاں فراہمی کی صورت میں دیکھی۔ چند ماہ قبل چکن گونیا کی ویکسین کی دستیابی بھی ایسا ہی معجزہ ہے۔ اب ذیابیطس جیسے عام مرض سے لے کر سسٹک فائبروسس جیسا نادر روگ ہی نہیں بلکہ ہائی بلڈ پریشر، دل کے دورے، کینسر، الزائمر، بائی پولر ڈس آرڈر، آٹزم، موٹاپا سب کے اسباب میں جینیاتی عوامل ڈھونڈے جا چکے ہیں۔ مستقبل قریب میں نت نئی جینیاتی ادویات ان امراض کا قلع قمع کریں گی۔
جینیاتی ادویات سے متعلق تنازعات
کرسپر ٹیکنالوجی کا سب سے پہلا اعلان شدہ تجربہ کسی یورپی نے نہیں بلکہ ایک چینی سائنسدان نے 2018 میں دو جڑواں بچیوں کو ایڈز سے محفوظ بنانے کی جینیاتی ترمیم سے کیا تھا جسے دنیا بھر میں اس سائنس کے غیر اخلاقی استعمال پر سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور چینی حکومت نے اسے حوالات کی سیر کرائی تھی۔
انسان کا جینیاتی ارتقا ہزاروں لاکھوں برس کے سفر میں ہوا ہے۔ ہر جینیاتی عارضے کی کچھ افادیت ہے، مثلاً سکل سیل کے مریضوں کو ملیریا نہیں ہوتا، سسٹک فائبروسس کے روگی ہیضہ سے محفوظ ہوتے ہیں۔ ان جینز کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے نتائج کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن اگر آپ خود یا آپ کا کوئی عزیز ان امراض یا کینسر میں مبتلا ہیں تو آپ ہر قیمت پر اس کا علاج کروائیں گے۔
ایک دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ جینیاتی میک اپ میں ہونے والی تبدیلیاں مستقل اور ناقابل تغیر ہیں جس کے ناصرف پوری انسانیت بلکہ دیگر حیات پر بھی اثرات مرتب ہوں گے۔
یہ علاج انتہائی مہنگا ہے۔ سِکِل سیل کی جینیاتی دوا کی قیمت 22 لاکھ امریکی ڈالر رکھی گئی ہے۔ کیا امریکی حکومت ایک لاکھ امریکی باشندوں کو یہ علاج مفت فراہم کرے گی؟ نائجیریا، یمن، بھارت اور پاکستان میں ایسے مریضوں کا کیا ہو گا؟
جینیاتی طب میں ہونے والی اس ساری ترقی کے جملہ حقوق چند ممالک میں موجود مٹھی بھر کمپنیوں کے نام محفوظ ہیں۔ کیا اس تفاوت سے جدید نوآبادیاتی نظام مزید مضبوط نہیں ہو گا؟