وہ کھڑکی جو بازار کی طرف کھلتی ہے ’اس کے پٹ بھیڑ دیے گئے ہیں۔ اس کھڑکی کے سامنے اب دو حسینائیں بیٹھی ہیں۔ ایک نے بھاری کام والی ریشمی پشواز پہن رکھی ہے جو گھٹنوں سے نیچے تک آتی ہے۔ پشواز کے ساتھ اسی رنگ کا چوڑی دار پاجامہ ہے۔ وہ پاجامے کے اوپر ہی اپنی پنڈلیوں پر گھنگھرؤں کے بند باندھ رہی ہے۔ اس کے ہاتھ گورے اور بھرے بھرے ہیں۔ پیر بھی یوں چمک رہے ہیں کہ ان پر نظر نہیں ٹھہرتی۔ سرخ رنگ میں رنگے ناخن اور پیروں کی چھت پر مہندی سے بنے باریک باریک پتیوں والے پھول۔
میدے میں شہد ملی رنگت والے پیروں پر مہندی کے نقش و نگار نے حسن کو دوآتشہ کر دیا ہے۔ یہی ہاتھ ’پیر‘ گردن اور چہرہ ہی تو حسن کے خریدار کو پہلی نظر میں دکھائی پڑتا ہے، سو ان اعضاء کی صفائی ستھرائی اور سجاوٹ پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ دوسری لڑکی مناسب شکل و صورت کی ہے۔ جوانی کی بہار تو اس پر بھی ہے مگر گھنگھرو والی کے سامنے، اس کی جوانی کا چراغ جل نہیں پارہا۔ اگر منظر سے گھنگھرو والی کو ہٹادیا جائے تو نیلے رنگ کی شلوار قمیص والی یہ دوسری لڑکی بھی کچھ کم حسیں نہیں۔