افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان خلیجی ریاست قطر میں ہونے والے امن معاہدے کو دو مہینے پورے ہو گئے ہیں لیکن بظاہر جس مقصد کے تحت امن کے عمل کا آغاز کیا گیا اس کے ثمرات تاحال سامنے نہیں آ سکے ہیں بلکہ اس کے برعکس تشدد سے متاثرہ ملک میں پھر سے ہر طرف جنگ کا نقشہ تیزی سے بنتا جا رہا ہے۔
افغان حکومت اور طالبان کے درمیان قیدیوں کی رہائی پر بدستور تعطل کی کفیت برقرار ہے جب کہ دوسری طرف افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی کو اندورنی طورپر کئی قسم کے سیاسی چیلنجز کا سامنا ہے جس سے ان کی پہلے سے کمزور ہوتی پوزیشن مزید گرتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔
29 فروری کو طالبان اور امریکہ کے مابین ہونے والے معاہدے میں طے پایا تھا کہ دس مارچ سے پہلے پہلے طالبان کے پانچ ہزار قیدی رہا کیے جائیں گے جس کے ساتھ ہی اہم انٹر افغان ڈائیلاگ یا بین الاافغان مذاکرات کے مرحلے کا آغاز ہوگا۔ لیکن افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی کی طرف سے ابتدا میں ہی قیدیوں کی رہائی سے انکار کیا گیا جس سے فریقین کے مابین تلـخیاں پیدا ہوئیں۔
تاہم، بعد میں امریکہ اور قطر کی حکومتوں کی کوششوں سے قیدیوں کی رہائی کا سلسلہ شروع تو ہوا اور اب تک کوئی تین سو کے قریب طالبان قیدی اور افغان حکومت کے کچھ یرغمالی رہا کیے جا چکے ہیں لیکن اس کے باوجود طالبان بدستور اس عمل پر کئی قسم کے خدشات کا اظہار کر رہے ہیں۔
قیدیوں کی رہائی میں کیا مشکلات ہیں؟
طالبان قیدیوں کی رہائی میں ابتدا ہی سے کئی قسم کی مشکلات حائل رہی ہیں۔ طالبان کا مؤقف ہے کہ قیدیوں کو بڑی تعداد اور جلد از جلد رہا کیا جائے جب کہ دوسری طرف افغان حکومت نے اس ضمن میں کچھ شرائط رکھی ہوئی ہیں جنہیں پورا کیے بغیر قیدیوں کو آزاد کیے جانے سے انکار کیا گیا ہے۔
کابل حکومت کا مؤقف ہے کہ تمام قیدی سب سے پہلے اس بات کی ضمانت دیں گے کہ وہ دوبارہ میدانِ جنگ کا رخ نہیں کریں گے اور اس کے ساتھ ساتھ طالبان کی طرف سے تشدد میں کمی یا مستقل جنگ بندی کا اعلان بھی کیا جائے تاکہ بین الاافغان مذاکرات کے لئے راہ ہموار کی جا سکے۔ لیکن بظاہر لگ رہا ہے کہ طالبان دونوں ضمانتیں دینے سے انکاری ہیں اور اس کے لئے ان کے پاس کئی دلائل بھی موجود ہیں۔
قیدیوں کی رہائی میں تاخیر کے ردعمل میں طالبان نے پھر سے اپنے پرانے حربے یعنی بندوق کا استعمال کرتے ہوئے افغان فورسز پر حملوں کا آغاز کر دیا ہے اور اس طرح افغانستان بھر میں پھر سے ایک بھرپور جنگ شروع ہو چکی ہے جس میں روز بروز شدت بڑھتی جا رہی ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارے یوناما نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ گذشتہ تین مہینوں کے دوران افغانستان میں ہونے والی جھڑپوں میں پانچ سو عام شہری ہلاک ہو گئے ہیں۔ افغانستان کے متعدد اہم سیاسی رہنما اور عالمی برادری بھی اس بات پر زور دیتے آئے ہیں کہ طالبان کو اعتماد سازی کے لئے سب سے پہلے تشدد میں کمی کرنی چاہیے لیکن طالبان نے اس کے برعکس اپنی کارروائیوں میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔
حل کیا ہے؟
سوال یہ ہے کہ قیدیوں کی رہائی میں پیدا ہونے والا تعطل کیسے دور کیا جائے اور کیا فریقین کو اس ضمن میں کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر لچک دکھانی چاہیے؟
افغانستان پر نظر رکھنے والے بیشتر تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ افغان حکومت قیدیوں کے معاملے میں اس وقت تک کسی سمجھوتے کے موڈ میں نظر نہیں آتی۔ جب تک طالبان تشدد کمی نہیں لاتے یا مستقل جنگ بندی نہیں کرتے، اس وقت تک قیدیوں کے معاملے میں کسی بڑے پیش رفت کا امکان کم ہی نظر آتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’اس طرح بالکل نہیں ہو سکتا کہ طالبان جنگ بھی جاری رکھیں اور اس دوران وہ اپنے اہم کمانڈوں کی رہائی پر اصرار بھی کریں‘۔
یہاں یہ امر اہم ہے کہ طالبان ابتدا ہی سے قیدیوں کی رہائی کو اولیت دیتے رہے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ کبھی تشدد میں کمی کے معاملات پر سنجیدگی نہیں دکھائی اور شاید یہی وہ مسئلہ ہے جس سے کابل انتظامیہ شروع ہی سے خوف کا شکار نظر آتی ہے۔ افغان صحافیوں کا خیال ہے کہ حکومت کو شاید اس بات کا خدشہ ہے کہ اگر طالبان کے تمام قیدی رہا ہوئے اور آئندہ کسی موڑ پر ان کے معاملات دوبارہ بگڑ گئے تو پھر وہ طالبان کو اپنی شرائط پر لانے کے لئے کیسے ان پر دباؤ ڈالیں گے۔
پشاور کے سینئیر صحافی اور مصنف عقیل یوسفزئی کا کہنا ہے کہ وہ ابتدا ہی سے امن کے عمل سے کچھ زیادہ پرامید نہیں تھے کیونکہ دونوں جانب توازن میں واضح فرق نظر آتا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ معاملات بننے کی بجائے بگڑ رہے ہیں۔
ان کے بقول ’’اشرف غنی کی حکومت کو ایک طرف تو اندرونی طور پر کئی قسم کے چیلنجز کا سامنا ہے جب کہ دوسری جانب ان کے مخالفین طالبان نہ صرف طاقت کے نشے میں ہیں بلکہ وہ متحد بھی ہیں جس سے بظاہر ان کا پلڑا بھی بھاری لگ رہا ہے‘‘۔
انہوں نے کہا کہ منتخب صدر اشرف غنی کے ہوتے ہوئے ان کے سیاسی حریف عبداللہ عبداللہ کابل میں غیر ملکی سفیروں سے ملاقاتیں کر رہا ہے جب کہ اپوزیشن جماعتیں بھی ان کا ساتھ دے رہی ہیں جس سے اشرف غنی کی مشکلات بڑھتی جا رہی ہیں۔
عقیل یوسفزئی کے مطابق ’امریکہ نے طالبان کے ساتھ معاہدہ ضرور کیا لیکن وہ نہ تو طالبان کو حملوں سے روکنے میں کامیاب رہا اور نہ بین الاافغان مکالمے کو آگے لے جانے میں انہیں کامیابی ہوئی۔ نتجتاً پھر سے جنگ کا نقشہ بن رہا ہے‘۔
طالبان اور امریکہ معاملات
قطر امن معاہدے کو دو ماہ پورے ہو گئے ہیں اور اس دوران دو اہم فریق امریکہ اور طالبان کی طرف سے معاہدے پر عمل درآمد کی کسی حد تک کوشش بھی دیکھنے میں آئی ہے۔ اگرچہ فریقین کی طرف سے ایک دوسرے پر معاہدے کی خلاف ورزیوں کے الزامات لگائے جاتے رہے ہیں تاہم ابھی تک حالات پوائنٹ آف نو ریٹرن کی طرف جاتے نہیں دکھائی دے رہے۔ افغانستان سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق طالبان نے امن معاہدے کے بعد ابھی تک امریکی افواج پر ہونے والے کسی حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے جب کہ دوسری طرف امریکہ نے افغان فورسز کا ساتھ دیتے ہوئے طالبان ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے۔
کابل میں افغان خبر رساں ادارے اے آئی پی سے وابستہ صحافی اسمٰعیل عندلیپ کا کہنا ہے کہ اگرچہ طالبان نے تاحال امریکی افواج پر حملہ نہیں کیا ہے لیکن دوسری طرف افغان فورسز پر حملوں میں تیزی ضرور لائے ہیں جس کا مقصد شاید وہ امریکہ کو اپنی طاقت دکھانا چاہتے ہیں اور ان کو دباؤ میں لانے کی کوشش بھی کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر طالبان معاہدے کی خلاف ورزی کر کے امریکیوں پر حملہ کرتے ہیں تو پھر ان پر عالمی برادری کی طرف سے دباؤ آنے کا امکان بھی ہے جس سے شاید ان کی پوزیشن کمزور ہو سکتی ہے۔
مصنف پشاور کے سینیئر صحافی ہیں۔ وہ افغانستان، کالعدم تنظیموں، ضم شدہ اضلاع اور خیبر پختونخوا کے ایشوز پر لکھتے اور رپورٹ کرتے ہیں۔